ملک بھر میں زیادتی کے بڑھتے ہوئے کیسز تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، وہیں گذشتہ روز پولیس اہلکار کی جانب سے گجرانوالہ کی 23 سالہ لڑکی کے ساتھ زیادتی کا معاملہ سامنے آیا۔
حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس اہلکار کو بجائے اپنے کیئے دھرے کالے کرتوت پر شرمندہ ہونا چاہیئے وہ ان کی سراسر تردید کرتے نظر آرہے ہیں اور متاثرہ لڑکی کے والد کی مدعیت میں دائر کروائی جانے والی ایف آئی آر کو بھی جھوٹا اور بے بنیاد قرار دے دیا گیا ہے۔
گجرانوالہ میں 23 سالہ لڑکی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ چند اوباش لڑکوں کی جانب سے چھیڑ چھاڑ کی گئی جس پر اس نے 15 پر کال کر کے اطلاع دی بعدازاں تفتیشی افسر کی جانب سے مزید تفتیش کے لئے انہیں تھانے بلایا گیا، جہاں متاثرہ لڑکی اپنے والدین کے ساتھ پہنچی تو اسے اے ایس آئی مبشر نے مذید تفصیلات جاننے کے لئے ایک الگ کمرے میں بلایا اور اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں بلکہ لڑکی کا موبائل نمبر بھی دیگر پولیس اہلکاروں کو دے دیا گیا جس سے وہ بھی متاثرہ لڑکی کو تنگ کرتے رہے۔
متاثرہ لڑکی کی ویڈیو وائرل ہوئی تو پولیس اہلکار کی جانب سے اس کے گھر والوں کو دھمکیاں دی جانے لگی، گھر والوں کو جھوٹے مقدمے میں نامزد کرکے ڈرایا جانے لگا جس کی بناء پر لڑکی نے اپنا بیان واپس لیتے ہوئے کہہ دیا کہ میرے ساتھ پولیس اہلکار نے کوئی زیادتی نہیں کی۔
جبکہ لڑکی کے گذشتہ بیانات میں یہ بات صاف واضح کی گئی ہے کہ پولیس اہلکار نے زیادتی کرنے کے بعد اس کو اور گھر والوں کو خوب ڈرایا دھمکایا ہے۔