'کرسی ہے، تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے'
ارتضیٰ نشاط نے کیا خوب کہا۔
گزشتہ 2 روز سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے 8 سالہ بچہ نے ہاتھ میں اپنا مرا ہوا مرغا اٹھایا ہوا ہے، اور وہ بری طرح رو کر حکومت کے اعلیٰ عہدیداران سے سوالات کر رہا ہے۔
'احمد ماڑی' نامی بچہ کا مرغا گندا پانی پینے کی وجہ سے مر گیا جس پر وہ شدت غم سے نڈھال نظر آرہا ہے۔
تاہم بچہ کی ویڈیو سوشل میڈیا کے کئی نامور اور بڑے پیجز نے شیئر کی اور حکومت سے اس ناانصافی کا جواب طلب کیا۔
فیس بک پر 'جوشِ جنون' نامی پیج نے اس بچہ کی ویڈیو شیئر کی جس کے کیپشن میں بچہ کے الفاظ دوہراتے ہوئے لکھا کہ 'میرا مرغا گندا پانی پینے سے مر گیا، ہم بھی مر جائیں گے'۔
اس ویڈیو پر بڑی تعداد میں لوگوں نے تبصرے کیے۔
فیصل حیات نامی صارف نے لکھا کہ 'پی پی پی نے تو سندھ کی حکومت کا خون چوس لیا ہے، انہوں نے کسی کو کیا روٹی، کپڑا اور مکان دینا ہے؟'
مہتاب صابری نامی صارف نے اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ 'بلاول اور زرداری کو شرم آنی چاہیے۔ یہ صرف ایک جگہ کی بات ہے، سندھ میں ایسی کئی جگہیں ہیں۔ انسانیت کی تذلیل کر رہے ہیں یہ لوگ'۔
تاہم بچہ کی وائرل ویڈیو کے بعد پاک آرمی میدان میں آئی اور بچے کی مدد کی۔ انہوں نے علاقہ کی صفائی کروائی اور بچہ کو تحائف بھی دیے۔
اس پر ٹوئٹر کی صارف حنا نے سوال کیا کہ 'سب انہوں نے ہی کرنا ہے تو سیاست دان صرف کرپشن کے لیے ہیں؟'
دوسری جانب بچہ کی روتی آنکھوں نے اینکر اقرار الحسن کا بھی دل موم کردیا۔ اقرار نے ٹوئٹر پر اپنا پیغام بچے کو مخاطب کرتے ہوئے سندھی زبان میں جاری کیا۔
اقرار نے لکھا کہ 'تم پہلاج (میرے بیٹے) کی عمر کے ہو، میری خواہش ہے کہ پاکستان کا ہر پہلاج اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ صاف ستھرے ماحول میں پلے بڑھے۔ تمہاری تعلیم کی ذمہ داری آج سے میری ہے، خوب سارا پڑھو، سندھ کا نام روشن کرو، پاکستان کا نام روشن کرو'۔
اقرار الحسن کی اس انسانیت کو سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بے حد سراہا جا رہا ہے۔
لیکن کچھ اہم سوال ایسے ہیں، جو تاحال عوام کے ذہنوں میں موجود ہیں۔
٭ کب تک سندھ کے حالات یوں ہی خستہ حال رہیں گے؟
٭ آخر کب تک عوام حکمرانوں کے انصاف کا انتظار کرتی رہے گی؟
٭ کیا کبھی وہ دن آئے گا کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداران اپنے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں گے؟
٭ عوام کا خیال کب تک سماجی کارکن اور سماجی ادارے کرتے رہیں گے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہر شہری کے ذہن میں موجود ہیں، لیکن کوئی ایسا نہیں جو ان کے جوابات دے سکے۔