جب میری والدہ ٹھیک سے چل بھی نہیں پاتی تھیں اور شرمندگی محسوس کرتی تھیں تو ابو ہمیشہ ان کا۔۔۔ ایک بیٹی نے اپنے ماں باپ کی محبت کی داستان دلچسپ انداز سے پیش کردی

ہماری ویب  |  Sep 01, 2020

یوں تو ہم نے لازوال محبت کی کئی کہانیاں پڑھ رکھی ہوں گی لیکن آج کے دور میں پرخلوص محبت ملنا اور آخری سانس تک اسے نبھانا ناممکن سا لگتا ہے۔

گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیسبک پر ایک خاتون نے اپنے ماں باپ کی محبت کی کہانی بیان کی جسے پڑھنے کے بعد ہر آنکھ اشکبار ہوگئی، کہانی دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ خاتون نے کہانی کے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ کی کچھ یادگار تصاویر بھی شیئر کیں۔

وہ لکھتی ہیں: 'ان (والد) کی پانچ بیٹیاں تھیں اور جب بھی وہ گھر آتے تھے تو ہم بہنیں لائن میں کھڑی ہوتی تھیں تاکہ انھیں بوسہ دے سکیں۔ لیکن ابو سب سے پہلے ہماری امی کو چومتے تھے، کیونکہ وہ ان کی پہلی محبت تھیں'۔


خاتون نے اپنی تحریر میں لکھا کہ 'چھٹی والے روز ہم سب گاڑی میں سوار ہو کر لانگ ڈرائیو پر جاتے تھے۔ ابو گھنٹوں تک گاڑی چلاتے تھے اور ہماری امی کے لیے گانے گاتے تھے۔ ہمارے لیے یہ بالکل عام بات تھی کیوںکہ ہمیں اس کی عادت ہوچکی تھی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یہ عام بات نہیں سمجھی جاتی۔ ہماری فیملی اکٹھی ہوتی اور کبھی گانے گائے جاتے تو ابا میری امی کی طرف ہی دیکھ کر پرانے رومانٹک گانے گاتے تھے اور امی کو یہ سب بہت پسند تھا۔ امی ابو کے پسند کے کپڑے پہنتیں اور لال رنگ کی خوبصورت لپ اسٹک لگاتی تھیں، اور بالکل ویسے بال بناتیں جیسے ابو کو پسند تھے۔ یہاں تک کہ وہ بیماری میں بھی ایسا ہی کرتی تھیں'۔


وہ لکھتی ہیں کہ 'میری امی کو دماغ کا کینسر تھا، ہر سرجری کے بعد امی مزید بیمار ہوتی گئیں۔ جب امی ٹھیک سے چل بھی نہیں پاتی تھیں اور اپنی ٹانگوں کے لڑکھڑانے کی وجہ سے شرمندگی محسوس کرتی تھیں تو ابو ان کا ہمیشہ ہاتھ تھام کر چلتے تھے چاہے وہ کہیں بھی جا رہے ہوں۔ ابو ان کے بستر کے پاس بیٹھتے اور ان کے گالوں کو سہلاتے، اب کے سرہانے بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے تھے جب تک ان کے ہونٹ خشک نہ ہوتے'۔


'کبھی کبھی ابو کرسی پر بیٹھے بیٹھے سو جاتے تھے، لیکن جب آنکھ کھلتی تو وہ پھر سے تلاوت اور دعائیں پڑھنے لگتے۔ جب امی کی آخری سانسیں تھیں اور ان کی روح قبض ہو رہی تھی تو ابو، امی کے قریب آکر بولے ''تم اکیلی نہیں جاؤ گی، میں بھی تمھارے ساتھ آؤں گا''، میں نے یہ سن لیا تھا اور مجھے اس وقت شدید غصہ آیا کہ ہم باقی لوگ تو ہیں نا'۔


'ہم سب بچے جوان تھے۔ کچھ شادی شدہ اور بال بچے دار تھے۔ اور میرا خیال ہے کہ ابو کو لگتا تھا کہ ان کا اب کوئی اور نہیں ہے۔ ابو ہر روز امی کی قبر پر جاتے تھے۔ ابو نے قبرستان والوں کو درخواست دی کہ جب وہ مریں تو انہیں ان کی بیوی کے ساتھ والی جگہ پر دفن ہونے دیا جائے۔ اور ہر چند گھنٹے بعد ہم سے پوچھتے تھے ''کیا قبرستان والوں نے اجازت دے دی؟'' ابو بہت پریشان رہنے لگے تھے'۔

'جب دفن ہونے کا اجازت نامہ ہمارے گھر آیا تو مجھے بہت پریشانی ہوئی۔ لیکن ابو خاموش ہوگئے۔ اگلے دو دن ابو نے ایک لفظ تک نہیں بولا۔ تیسرے روز صبح ابو سامنے والے دروازے کی طرف آئے اور کہا کہ ''میری طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی''۔ میں ان کو جوتا پہنانے لگی تو وہ فرش پر گرگئے۔ جب تک ایمبولینس آئی ابو فوت ہوچکے تھے'۔


اور یوں ان کے ماں باپ دنیا میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے لیکن دونوں کی قبریں ساتھ ساتھ ہی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More