جیسے جیسے ٹیکنالوجی کی دنیا ترقی بڑھتی جا رہی ہے، نئے نئے اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز۔ لیپ ٹاپ اور مختلف ایپس سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں کچھ ایپس یا ٹیکنالوجی تو ایسی ہوتی ہے کہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے۔
مگر دوسری جانب اسی ٹیکنالوجی کا ممکنہ طور پر غلط استمعال کرنے والے، یعنی ہیکرز، بھی سب کچھ اپنے قابو میں کرنے کے لئے غیر قانونی طریقے آزما رہے ہیں۔
یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہیکرز کے پاس پورے کمپیوٹرز، موبائل ایپلیکیشنز کو ہیک کرنے کے ایک نہیں بلکہ متعدد طریقے ہوتے ہیں جنہیں وہ کچھ وقت میں ہی اپنے قابو میں کر لیتے ہیں۔
اب پیغامات بھیجنے اور موصول ہونے والی مشہور ترین موبائل ایپ واٹس ایپ کو ہی دیکھ لیں۔ اس ایپ کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ یہ محفوظ ہے اور اسے ہیک نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن ایک پاکستانی سرکاری ملازم کے ساتھ حال ہی میں کچھ ایسا واقعہ پیش آیا جس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ واٹس ایپ بھی باآسانی ہیکرز کی گرفت میں جاسکتا ہے۔
ہیکرز کا شکار بننے والے حسن فرضی ایک سرکاری افسر ہیں جنہوں نے بتایا کہ گذشتہ دنوں انہیں ایک فون کال موصول ہوئی جس کے بعد وہ اپنا موبائل استعمال نہیں کر پا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کورونا وائرس کے باعث ہم اپنے اکثر دفتری کام واٹس ایپ پر کرتے ہیں، خاص طور پر جب ہمیں ای میل کی سہولت میسر نہیں ہوتی تو ہم بہت سے دستاویزات اور دفتری معاملات واٹس ایپ پر ہی شئیر کرتے ہیں اور واٹس ایپ ہمارے لئے بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا دو تین دن پہلے میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ میں نے اپنے موبائل میں ایک فائل ڈاؤن لوڈ کرنے کی کوشش کی مگر مجھے لگا کہ میں اسے ڈاؤن لوڈ نہیں کر پا رہا ہوں۔
اس سے قبل مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی، میں نے کال اٹھائی جس کے بعد مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے فون کا کنٹرول میرے ہاتھ سے نکل گیا ہو، نہ میں کوئی نمبر ڈھونڈ پا رہا تھا نہ کوئی ایپ ٹھیک طرح اوپن ہو رہا تھا۔
حسن نے بتایا کہ اس کے بعد مجھ سے کچھ دوستوں نے رابطہ کیا کہ انہیں میرے واٹس ایپ سے دھمکی آمیز یا نازیبا پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔
’میرے ایک دوست کو میرے نمبر سے ایک پیغام بھیجا گیا اور میری طرف سے 30 ہزار روپے کا مطالبہ کیا گیا۔ میں سمجھ گیا کہ میرا واٹس ایپ اب کوئی اور استعمال کر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے اسی وقت اپنے تمام دوستوں اور اہلخانہ کو بتایا کہ اگر انہیں میرے واٹس ایپ سے کوئی میسج موصول ہو تو وہ اسے فوراً نظر انداز کر دیں۔
اس کے بعد حسن نے اپنے دفتر والوں کو فوری اطلاع دی جس کے بعد انہوں نے اس سارے واقعے کے خلاف کارروائی کی اور کچھ دیر بعد انہیں دفتر کی جانب سے واٹس ایپ کو ہٹا کر دوبارہ سے انسٹال کرنے کا کہا گیا۔
اس واقعے کا نقصان یہ ہوا کہ میرے واٹس ایپ میں جو کچھ بھی اہم دستاویزات، دفتری بات چیت کے وائس میسیجز، تصاویر سب کچھ ڈلیٹ ہو گیا میرے پاس بیک اپ بھی نہیں تھا اس لیے میرے لئے یہ سب بے حد تکلیف دہ اور ذہنی دباؤ کا سبب بنا۔