کبھی کبھی انسان اتنا بے بس ہوجاتا اور ضرورتمند ہو جاتا ہے کہ کسی محافظ کو بھی مسیحا کی ضرورت پڑجاتی ہے۔
کراچی میں ایک ایسے ہی کورٹ پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل ہیں جو خود اپنی خوشیوں کی حفاظت نہیں کر پارہے ہیں۔
پولیس وردی کے پیچھے نظر آنے والے مضبوط انسان آخر ایک باپ بھی ہوتے ہیں، جو اپنے بچوں کی مشکلات دیکھ کر شدید پریشانی کے باعث تڑپ اُٹھتے ہیں۔
کورٹ پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل سعید خان کا 6 سالہ بیٹا توصیف خون کی ایک ایسی مہلک بیماری میں مبتلا ہے، جس نے سارے گھر کی خوشیوں کو گہنا ڈالا ہے۔
کم وسائل کے باوجود کانسٹیبل سعید اپنے بیٹے کے علاج کے لئے ہر شہر کے ہر اس اسپتال گیا، جہاں توصیف کے علاج کی امید نظر آئی، بے حسی یہ کہ محکمہ پولیس کے فرائض جس کے لئے سپاہی زندگی کی بازی لگادیتے ہیں وہاں سے بیٹے کے علاج کے لئے ناکافی رقم بھی کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے کے بعد ملی۔
تھوڑی بہت تعلیم حاصل کرنے والے سعید نے انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے ڈاکٹروں سے رابطہ کیا اور بالآخر ترکی کے ایک اسپتال نے اسے علاج میں کامیابی کی 80 سے 90 فیصد کامیابی کی امید دلائی ہے۔
سعید خان کے مطابق علاج کے لئے 1 کروڑ 30 لاکھ کی رقم درکار ہے جو میری 38 ہزار کی تنخواہ میں نا ممکن ہے۔
بیماری سے کمزور ہوتا توصیف زندگی کے رنگینیوں سے دور ہوتا جارہا ہے، خواہش ہے کہ اگر زندگی کی شمع جلتی رہی تو بڑا ہوکر درد کشا بنوں گا۔
خون کی اس پیچیدہ بیماری کا علاج پاکستان میں فی الحال میسر نہیں ہے، دوسری جانب پولیس کانسٹیبل سعید کے ننھے بیٹے توصیف نے یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ بڑا ہوکر ڈاکٹر طاہر شمسی بنے گا۔
سادہ سا دِکھنے والا یہ پولیس والا غربت سے پہلے ہی جنگ کررہا تھا لیکن بیٹے کی تکلیف نے اسے انتہائی مجبور کر دیا ہے۔
شہر بلکہ ملک بھر میں اس وقت ایسے کتنے ہی پولیس اہلکار ہوں گے جو اپنے گھر بار کو چلانے کے لئے کن مشکلات کا سامنا کر رہے ہوں گے۔