یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے!
بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
24 اپریل کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
پہلگام حملے کے تناظر میں انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل، واہگہ بارڈر بند اور سفارتی عملہ محدود کرنے سمیت متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ ادھر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کو ترکی بہ ترکی جواب دیں گے، یہ جواب کم نہیں ہو گا۔‘
بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
24 اپریل کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
،تصویر کا ذریعہReuters
گذشتہ روز انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملے میں 26 سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد آج پاکستان اور انڈیا سے جڑی اہم خبروں کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے:
انڈین ریاست کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کہا ہے کہ پہلگام میں ’دہشت گردانہ حملے‘ میں 26 لوگوں کی ہلاکت مرکزی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی ناکامی کی واضح مثال ہے۔
بی بی سی ہندی کے ایسوسی ایٹ صحافی عمران قریشی کے مطابق وزیر اعلیٰ سدرامیا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی اور پلوامہ حملے کی طرح یہاں بھی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی واضح ناکامی تھی۔‘
سدارامیا نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ مرکزی حکومت کو ملک کے لوگوں کی حفاظت اور ’دہشت گردوں‘ کو ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہییں۔
عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے بھی پہلگام میں ہوئے حملے کے حوالے سے پریس کانفرنس کرکے خفیہ ایجنسیوں پر سوال اٹھائے ہیں۔
سنجے سنگھ نے کہا ہے کہ ’یہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا ہے کہ سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنا بڑا دہشت گردانہ واقعہ ہوا تو ہماری انٹیلیجنس ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں؟ یہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔‘
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ انڈیا نے پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کے کوئی شواہد نہیں دیے اور اس طرح بغیر شواہد غصہ نکالنا غیر مناسب ہے۔
نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ انڈیا نے آج جو اعلانات کیے ہیں ان میں ناپختگی اور غیر سنجیدگی نظر آتی ہے۔ ’بدقسمتی سے انڈیا ہر واقعے کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتا ہے اور ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی بلیم گیم پاکستان کی طرف ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کے اقدامات کا جواب دینے کے لیے کل صبح نیشنل سکیورٹی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جس میں عسکری اور سول قیادت شامل گی اور ہم انڈیا کو ترکی بہ ترکی جواب دیں گے، یہ جواب کم نہیں ہو گا۔‘
انڈس واٹر ٹریٹی کے حوالے سے اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اس پر ہمارے کافی دیر سے انڈیا کے ساتھ مسائل چل رہے ہیں اور ورلڈ بینک بھی انوالو ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا کے پاس شواہد ہیں تو انھیں سامنے لائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انڈیا نے (اگر اس کے پاس شواہد ہیں) تو ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہائپ کریٹ کی ہے۔
انڈیا کے الزامات کے حوالے سے نائب وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ہم ہر فروم پر بایٹرل پارٹنرز کے ساتھ بھی یہ معاملہ اٹھائیں گے۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان انڈیا کی جانب سے اعلان کردہ اقدمات کا فوری ردعمل نہیں دینا چاہتا اور جمعرات کو قومی سلامتی کمیٹی میں اس سلسلے میں ایک جامع جواب دینے پر بات ہو گی۔
جیو ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں جو واقعہ پیش آیا وہ قابلِ مذمت ہے اور دہشت گردی کی کسی بھی طرح سے حمایت نہیں کی جا سکتی۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر بات کرتے ہوئے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ انڈیا بہت دیر سے نکلنا چاہ رہا ہے، ان کا خیال ہے کہ اس معاہدے میں رہنا ان کے مفاد میں نہیں ہے تاہم وہ اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان انڈیا کےکسی بھی حملے کا بھرپور جواب دینے کی سو فیصد پوزیشن میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ فضائی حدود کی خلاف ورزی پر ابھینندن کی شکل میں دیا گیا جواب انڈیا کو یاد ہو گا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ کلبھوشن جیسا ’ایک اور بندہ‘ پاکستان نے ایران افغان سرحد پر پکڑا ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے کہا کہ ’بلوچستان میں دہشت گردی کے تانے بانے انڈیا سے ملتے ہیں۔‘ ان کے مطابق ’انڈیا کی سرپرستی میں بلوچستان میں دہشت گردی ہو رہی ہے، جو کچھ جعفر ایکسپریس واقعے میں ہوا سب کو پتا ہے، علیحدگی پسندوں کو انڈیا نے پناہ دی ہے، بلوچستان کے علیحدگی پسند انڈیا میں جا کر علاج کراتے ہیں، ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے تانے بانے بھی انڈیا کے ساتھ ملتے ہیں، اس کے کئی ثبوت ہیں۔‘
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ انڈیا پہلگام واقعے پر دوسروں پر الزام دھرنے کے بجائے خود احتسابی کرے۔ انھوں نے کہا کہ ’تفتیش کر کے ذمہ داروں کو تلاش کرے، پاکستان پر الزام لگانا نامناسب بات ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ امکان بھی ہے کہ پہلگام حملہ خود انڈیا کا ’فالس فلیگ آپریشن‘ ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی انڈیا سے بھی تو پوچھے کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں تو وہاں کئی عشروں سے موجود سات لاکھ فوج کر کیا رہی ہے؟‘
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی ہو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے، پاکستان دہائی سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے۔‘ انھوں نے سوال اٹھایا کہ جو دہشت گردی کا شکار ہیں وہ کیسے دہشت گردی کو فروغ دیں گے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کی افواج ہر جگہ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہMEA India
انڈیا نے پہلگام حملے کے بعد پاکستان سے تقریباً ستر برس پرانے سندھ طاس معاہدے کو فوری طور پرمعطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سلامتی سے متعلق کابینہ کی اعلی اختیاراتی کمیٹی کی میٹنگ کے بعد اس میں کیے گے۔ فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے خارجہ سیکریٹری وکرم مصری نے کہا کہ اٹاری واہگہ بارڈر کو فوری طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی شہریوں کو سارک معاہدے کے تحت جو ویزا دیا جاتا تھا اسے بھی ختم کیا جا رہا ہے اور جو پاکستانی شہری اس وقت انڈیا میں ہیں انھیں 48 گھنٹے کے اندر ملک سے چلے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔
وکرم مصری نے کہا کہ دلی میں واقع کئی پاکستانی سفارتی عملے کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک سے چلے جانے کے لیے کہا گیا ہے۔
پاکسپانی ہائی کمیشن سے اپنے سفارتی عملے کی تعد اد 55 سے گھٹا کر 30 کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
انڈیا نے اسلام اباد میں واقع ڈیفنس، نیوی اور ایئر ایڈوئزر اور پانچ سپورٹ عملے کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
خارجہ سیکریٹری کی یہ نیوز کانفرنس کابینہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد رکھی تھی اور اس میں صحافیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ خارجہ سکریٹری کے بیان کے بعد سوال نہیں کر سکیں گے۔
سلامتی سے متعلق کابینہ کی ہائی پاورڈ کمیٹی کی میٹنگ وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پر شام چھ بجے شروع ہوئی اور تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی۔
،تصویر کا ذریعہPTI
اس اجلاس کی صدارت وزیر اعظم مودی نے کی۔
اس میں پہلگام حملے اور ممکنہ جوابی کارروائی کے تمام پہلوؤں پر غور کیا۔ اس میٹنگ میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ ، وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر خارجہ ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اے کے ڈوبال، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار اور دیگر اعلیٰ اہلکار شریک ہوئے۔
قومی سلامتی کے کسی بڑے مسلے پر یہی کمیٹی کوئی فیصلہ کرتی ہے۔ اس سے پہلے انڈیا کے وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے انڈین فضائیہ کی ایک تفریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت پہلگام حملے کے صرف مرتکبین کو ہی نہیں انھیں بھی نہیں بخشے گی جو اس سازش کے پیچھے ہیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انھیں بہت جلد بھرپور جواب دیا جائے گا۔
وزیر دفاع نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا جمعرات کی شام ایک اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات اور اس سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال کے بارے میں انھیں آگاہ کیا جائے گا۔
انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں پہلے بھی بڑے واقعات ہوئے ہیں لیکن ان واقعات میں زیادہ تر سکیورٹی فورسز پر حملے کیے گئے ہیں۔
منگل کو پہلگام میں جو حملہ ہوا ہے اس میں بڑی تعداد میں سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حملے میں 25 انڈین اور ایک نیپالی شہری ہلاک ہوا ہے۔
بے فصور سیاحوں کی ہلاکت پر کشمیر سمیت پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ انڈین میڈیا میں پہلگام کے حملے کے لیے پاکستان کو براہ راست ذمے دار قرار دیا جا رہا ہے۔ دفاعی ماہرین مختلف ٹی وی چینلز پر بحث ومباحثے میں پاکستان کے خلاف کارروائی کی باتیں کر رہے ہیں۔
ایک موثر اور فیصلہ کن جوابی کارروائی کے لیے حکومت پر دباؤ بہت زیادہ ہے۔ میڈیا کی طرح طرح کی قیاس آرائیوں کے درمیان ملک کی فضا میں کشیدگی اور بے چینی کے آثار محسوس کیے جا رہے ہیں۔
انڈیا کی جانب سے پہلگام میں حملے کے تناظر میں پاکستان کے حوالے سے سخت اقدامات کے اعلان کے بعد پاکستان کے وزیراعظم شہبازشریف نے جمعرات کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔
نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے پیغام میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس 24 اپریل کی صبح ہو گا جس میں انڈیا کے اقدامت پر ردعمل کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
،تصویر کا ذریعہAFP
پہلگام حملے کے تناظر میں انڈیا نے جہاں پاکستان سے اپنے تعلقات سے متعلق متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے وہیں سندھ طاس معاہدے کو بھی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اب انڈیا اس معاہدے پر عملدرآمد کا پابند نہیں رہا ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
انڈیا اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدہ ستمبر 1960 میں عمل میں آیا تھا۔
اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔ انڈیا کے آبی وسائل کے سابق وزیر سیف الدین سوز کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے سبھی معاہدوں میں یہ سب سے کامیاب اور با اثر معاہدہ ہے۔‘
سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔ اس کے تحت ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔
انڈیا کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول انڈیا کے ہاتھ میں دیا گیا۔ انڈیا کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل، واہگہ بارڈر بند اور سفارتی عملہ محدود کرنے سمیت متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
انڈیا میں موجود پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کابینہ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اب کسی پاکستانی شہری کو انڈیا کا ویزا نہیں دیا جائے گا۔
انڈیا نے پاکستان میں اپنے ہائی کمیشن سے ڈیفنس، نیوی اور ایئر ایڈوائزرز کو ان کے اہل خانہ سمیت واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ عہدے ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
انڈیا کے دارالحکومت دلی میں پاکستان کے تین ملٹری اتاشی ناپسندیدہ قرار دیے گئے اور انھیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سلامتی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ انڈیا اب سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بعد اس معاہدے پر عملدرآمد کا پابند نہیں رہا ہے۔
سلامتی کمیٹی کے مطابق پاکستانیوں کے سارک ویزے بھی منسوخ کر دیے ہیں۔ انڈیا نے اپنے عملے کے پانچ سپورٹ سٹاف کو بھی اسلام آباد سے بلا لیا ہے۔
انڈیا نے دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کو 55 سے کم کر کے 30 کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور دلی نے اسلام آباد میں اپنے ہائی کمیشن کا عملہ 55 سے کم کر کے 30 تک کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے جمو اور کشمیر میں جمعرات کی سہ پہر کو آل پارٹیز اجلاس طلب کر لیا ہے۔
عمر عبداللہ نے ایک خط کے ذریعے کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کو اس اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ یہ حملہ ایک علاقے یا پارٹی کے لیے صدمے کا باعث نہیں بلکہ یہ جموں اور کشمیر پر لگایا گیا زخم ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’بطور عوامی نمائندے اور جمہوری اقدار کے پاسداران مجھے یقین ہے کہ یہ ہم سب کا ایک اجتماعی فرض ہے کہ ہم تمام تر جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اکٹھے ہو کر (ان حملوں کا) جواب دیں۔‘
عمر عبدااللہ نے لکھا کہ یہ اجلاس ایک آواز بننے میں مدد دے گا اور ہمارا یہ بننے والا اتحاد جموں اور کشمیر کے عوام کی طاقت اور یکجہتی کا اظہار ہوگا۔
،تصویر کا ذریعہPTI
پہلگام حملے پر غور کے لیے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں اس وقت سکیورٹی اجلاس ہو رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہPTI
انڈین میڈیا کے مطابق یہ سکیورٹی سے متعلق کابینہ کی کمیٹی ہے جس کا اجلاس جاری ہے۔
،تصویر کا ذریعہPTI
اس اجلاس میں مودی کے علاوہ ان کے وزرا اور انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر شریک ہیں۔
یہ اجلاس وزیراعظم کی رہائش گاہ پر ہو رہا ہے۔ اس اجلاس کی مزید تفصیلات کا ابھی انتظار ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا کے قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے پہلگام میں ہونے والے حملے پر اپنے ردعمل میں وزیراعظم مودی پر کڑی تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا کشمیر میں امن کی بحالی کے بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے حکومت کو ہر صورت اس واقعے کی ذمہ داری لینی چاہیے۔
راہل گاندھی کی جماعت کے رہنما ملیلکرجن نے کہا ہے کہ یہ ہلاکتیں انسانیت پر بدنما داغ ہیں۔
تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے سٹالن نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور اسے ضمیر جنھجھوڑنے والا وحشیانہ فعل قرار دیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
مغربی بنگال کی وزیر خارجہ ممتا بینرجی نے کہا ہے کہ ان کی ریاست سے تعلق رکھنے والے تین متاثرین کی لاشیں لانے کے لیے ان کی حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
کشمیر میں انڈین آرمی کے نادرن کمانڈ کے سابق سربراہ ڈی ایس ہودا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ عسکریت پسندوں نے نئی حکمت عملی اختیار کر لی ہے، جس کے تحت اب وہ ان علاقوں تک رسائی حاصل کر کے حملے کر رہے ہیں جو گذشتہ 15 برس سے نسبتاً پرامن تھے۔‘
،تصویر کا ذریعہPTI
انڈین حکام نے پہلگام حملے کے تین مشتبہ حملہ آوروں کے خاکے جاری کر دیے ہیں۔ انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق انڈیا کی ایجنسیوں نے پہلگام میں سیاحوں پر فائرنگ کر کے قتل کرنے والے مشتبہ افراد کے خاکے جاری کیے ہیں۔
اس حملے میں انڈین نیوی کے ایک افسر سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ حکام نے کہا ہے کہ ان افراد کے نام آصف فوجی، سلیمان شاہ اور ابو طلحہ ہیں۔ حکام کے مطابق یہ افراد اپنی عرفیت موسی، یونس اور آصف استعمال کر رہے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں بچ جانے والوں سے پوچھ کر ان حملہ آوروں کے خاکے بنائے گئے ہیں۔
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے بیان میں ان حملوں کا زوردار اور پھرپور جواب دینے کا اعلان کیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ ’میں ملک کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ پہلگام کے واقعہ کے سلسے میں انڈین حکومت ہر وہ قدم اٹھائے گی جو ضروری اور حالات کے مطابق ہو گا۔
انڈین وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ ’ہم صرف ان لوگوں تک نہیں پہنچیں گے جنھوں نے اس واردات کو انجام دیا ہے ۔ ہم ان تک بھی پہنچیں گے جنھوں نے پس پردہ ہندوستان کی سرزمین پر ایسی ناپاک سازشیں رچی ہیں۔
انڈین فضائیہ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ’انڈیا ایک اتنی پرانی تہزیب اور اتنا بڑا ملک ہے جس کو ایسی کسی بھی دہشتگردانہ کارروائیوں سے کسی بھی صورت میں ڈرایا نہیں جا سکتا ہے۔‘
راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ’ایسی حرکتوں کے ذمے دار لوگوں کو آنے والے کچھ ہی وقت میں زور دار طریقے سے نظر آئے گا یہ میں ملک کے عوام کو یقین دلاتا ہوں۔‘
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے مختلف قصبوں میں مظاہرین پہلگام حملے کی مذمت کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئی ہے۔
سرینگر میں مقامی تاجروں نے شہر کے لال چوک میں احتجاج کیا۔ آج کشمیر میں شٹرڈاؤن ہڑتال ہے۔
بی بی سی کی نامہ نگار یوگیتا لیمایا نے سرینگر کے لال چوک سے اس احتجاج کے بارے میں بتایا کہ یہاں تاجروں کی بڑی تعداد ہاتھوں میں کالے جھنڈے لے کر نکلے ہیں۔
وہ اس حملے کی مذمت کر رہے ہیں اور انھوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں جن پر یہ درج ہے کہ ’معصوم لوگوں کو مارنا بند کرو‘۔
یوگیتا لیمایا کے مطابق یہ وہ جگہ جہاں عام طور پر لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے کیونکہ یہ اس سیزن کا ’پیک ٹائم‘ ہے اور وہ سرینگر کے دل میں واقع لال چوک میں کلاک ٹاور کے ساتھ تصویریں بنا رہے ہوتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ ایک خاص طریقہ کار بن گیا ہے کہ جب بھی کشمیر میں کوئی حملہ ہوتا ہے تو انڈیا اس کا الزام پاکستان پر عائد کر دیتا ہے اور پاکستان اس کی تردید کرتا ہے۔ یہاں ایک بار پھر پرانا طریقہ ہی نظر آ رہا ہے اور دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید سردمہری پیدا ہو رہی ہے۔
میں نے اس پر امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی سے پوچھا کہ کیا اب ان دو پڑوسی ممالک کے تعلقات از سر نو بحال نہیں ہو سکتے ہیں؟
انھوں نے جواب دیا کہ یہ حالیہ قابل مذمت حملے انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
حسین حقانی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا ایک اپنا سائیکل یا چکر ہے۔ جب کبھی انڈیا میں کوئی دہشتگردی کا حملہ ہوتا ہے تو پھر انڈیا کی طرف سے ایسا ردعمل سامنے آتا ہے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو جاتا ہے، پھر عالمی دباؤ کے نتیجے میں صورتحال میں بہتری آ جاتی ہے اور پھر دونوں ممالک کے تعلقات حملے سے پہلے والی جگہ پر واپس آ جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس وقت اس بات کے امکان نہیں ہیں کہ تعلقات ایسی جگہ تک پہنچ جائیں کہ پھر جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو سکے۔ مگر اس وقت اس بات کے امکانات بھی نہیں ہیں کہ اس سے تعلقات میں کوئی بہتری آئے گی۔‘
دوسرے الفاظ میں یہ سکرپٹ اسی طرح سے دردناک ہو سکتا ہے اور پھر ایک بار دونوں ملکوں کے تعلقات میں تعطل پیدا ہوجائے۔ اس وقت یہ سائیکل چل رہا ہے اور بظاہر کوئی بہتری کے امکانات بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔
ہم پہلگام میں حملے کی جگہ سے کوئی 60 کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔ صحافیوں کو سکیورٹی حصار سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں یہ ہدایات ہیں کہ صحافیوں کو اس جگہ سے آگے نہیں جانے دینا ہے۔ تاہم سویلین کی اس جگہ نقل و حرکت پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
پولیس کی طرف سے اس پابندی کے بعد ہمارے لیے اس ہسپتال تک پہنچنا ناممکن ہو گیا ہے جہاں پر زخمی اور متاثرہ افراد زیر علاج ہیں۔
کچھ صحافی رات کو پابندی نافذ ہونے سے قبل اس ہسپتال تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
کشمیر سے آزادانہ رپورٹنگ کرنا ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے۔ خاص طور پر گذشتہ پانچ برس سے جب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کی گئی ہے تب سے مقامی صحافیوں کو متعدد پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ آزادانہ طور پر یہاں سے رپورٹنگ نہیں کر سکتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہInformation department, Agra
امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے اپنی فیملی سمیت بدھ کو تاج محل کے دورے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پہلگام کے مقام پر سیاحوں پر ہونے والے حملے سے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے جو بھی معاونت ہم دے سکتے ہیں اس وقت ہم وہ دے رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان کی انڈین وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی آج اس حوالے سے بات ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ پہلگام میں سیاحوں پر ایک ایسے وقت پر حملہ ہوا ہے جب امریکی صدر انڈیا کے چار روزہ دورے پر آئے ہیں۔ جے ڈی وینس اور ان کی اہلیہ نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔
دہلی میں نیپال کے سفارتخانے نے تصدیق کی ہے کہ منگل کے روز انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مارے جانے والوں میں ایک نیپالی شہری بھی شامل ہے۔
سفارتخانے کا کہنا ہے کہ مارے جانے والا شہری مغربی نیپال کے علاقے بٹوال کا رہائشی تھا جو فیملی کے ساتھ چھٹیاں منانے کشمیر آیا ہوا تھا۔
مرنے والے کی شناخت سدیپ نیوپانے کے نام سے ہوئی ہے جو کہ ایک طالب علم تھے۔
سدیپ کے رشتے دار ددھیرام نیوپانے کا کہنا ہے کہ سدیپ اپنی والدہ، بہن اور بہنوئی کے ساتھ انڈیا گئے تھے۔ ددھیرام کے مطابق خاندان کے باقی تینوں افراد محفوظ ہیں۔
دہلی میں نیپال کے سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن سریندر تھاپا کا کہنا ہے کہ حملے میں سدیپ کی والدہ بھی زخمی ہوئی ہیں تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے معروف اخبارات کی جانب سے صفحات کو سیاہ رنگ میں شائع کیا گیا۔
انڈیا کے زیرانتظار کشمیر سے شائع ہونے والے گریٹر کشمیر، رائزنگ کشمیر، کشمیر عظمیٰ اور تعمیلِ ارشاد سمیت انگریزی اور اردو اخبارات کا پس منظر 23 اپریل کو سیاہ رنگ میں سامنے آیا۔ اخبارات کی سرخیاں اور اداریے سرخ اور سفید رنگ میں شائع کیے گئے۔
واضح رہے کہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں منگل کے روز ہونے والے عسکریت پسندوں کے حملے میں 26 سیاح ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
اس حملے کے بعد آج یعنی بدھ کے روز پورے خطے میں ہڑتال کی کال دی گئی اور تمام خارجی اور داخلی راستوں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔