یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا
بی بی سی پر نئی خبروں اور تجزیوں کے لیے یہاں کلک کریں!
ایرانی سفارت خانہ نے اس واقعے کو ’غیر انسانی اور بزدلانہ مسلح کارروائی‘ قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان میں جن آٹھ پاکستانیوں کو مسلح افراد کی جانب سے قتل کیا گیا، ان کا تعلق صوبہ پنجاب سے بتایا گیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق وہ ایرانی حکام سے رابطے میں ہیں۔
بی بی سی پر نئی خبروں اور تجزیوں کے لیے یہاں کلک کریں!
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ اور صبغت اللہ شاہ سمیت دیگر رہنماوں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان کے مختلف شہروں میں اتوار کو مظاہرے کیے گئے۔
بلوچستان کے 20 شہروں میں کیے جانے والے ان احتجاجی مظاہروں کی کال بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دی تھی جس کے نتیجے میں کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں اور احتجاج کیا گیا۔
کوئٹہ شہر میں ریلی کے شرکا نے سریاب کے علاقے میں شیخ زید ہسپتال سے کسٹمز کے علاقے تک مارچ کرنا تھا لیکن پولیس کی بھاری نفری کی تعیناتی کی وجہ سے کوئٹہ میں ریلی نہیں نکالی جاسکی۔
تاہم دیگر شہروں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ریلیوں اور مظاہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
ریلیوں اور مظاہروں کے شرکا نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنمائوں اور کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب لک پاس پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر خواتین کی رہائی کے لیے دھرنا بھی جاری ہے۔
ضلع کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے لک پاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام دھرنا اتوار کو 16ویں روز جاری رہا۔
28 مارچ سے جاری اس دھرنے کے شرکا کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دیگرخواتین رہنماوں اور کارکنوں کی رہائی کے لیے کوئٹہ تک لانگ مارچ کرکے یہاں دھرنا دینا تھا۔
تاہم سرکاری حکام کی جانب سے شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے لانگ مارچ کے شرکا کوئٹہ کی جانب نہیں آسکے اور لک پاس پر دھرنا دیا جو کہ تاحال جاری ہے۔
اس دھرنے کی وجہ سے 28 مارچ سے لک پاس ٹنل کے راستے کوئٹہ کراچی اور کوئٹہ تفتان شاہراہ پر گاڑیوں کی آمدورفت بند ہے تاہم دو متبادل راستوں سے گاڑیوں کی آمد ورفت بحال ہوگئی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماوں کی عدم رہائی اور دیگر مسائل کے حوالے سے پیر کے روز آل پارٹیز کانفرنس طلب کی ہے۔
یہ آل پارٹیز کانفرنس لک پاس کے علاقے میں دھرنا کے مقام پر منعقد ہوگا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترمینگل کا کہنا ہے کہ حکومت معاملات کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے اس لیے ہم نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں خواتین رہنماوں کی گرفتاری کے معاملے کے علاوہ بلوچستان کے دیگر سنگین مسائل زیرغور آئیں گے ۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایران میں آٹھ پاکستانیوں کی ہلاکت پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ’پاکستان ایران سرحد سے تقریباً 230 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صوبہ سیستان بلوچستان کی مہرستان کاؤنٹی میں کل آٹھ پاکستانی شہری المناک طور پر ہلاک ہوئے ہیں۔‘
دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ’ہمارے مشن نے پہلے ہی ان کی شناخت کی تصدیق کے لیے قونصلر رسائی کی درخواست کی ہے۔‘
دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کی قیادت اور عوام اس المناک واقعے پر گہرے دکھ اور غم میں مبتلا ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے سوگوار خاندانوں کے لیے گہرے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی ہدایات پر تہران میں ہمارا سفارت خانہ اور زاہدان میں ہمارا قونصل خانہ جامع تحقیقات کے لیے ایرانی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے اور متاثرین کی باقیات کی پاکستان واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔
دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان ایران میں اپنے شہریوں کے غیر انسانی اور بزدلانہ قتل کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ہم معاملے کی تحقیقات اور متاثرین کی باقیات کی بروقت واپسی میں ایرانی فریق کے مکمل تعاون کی امید کرتے ہیں۔
دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ’مزید اپ ڈیٹس جیسے ہی میتوں کی شناخت اور ان کی المناک موت کا باعث بننے والے حالات کے حوالے سے اضافی تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔‘
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستانی دفترِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی حکومت ایرانی حکام سے رابطے میں ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت خان کا کہنا تھا کہ ’واقعے سے آگاہ ہیں اور حقائق سامنے آنے پر باضابطہ بیان جاری کیا جائے گا اور مصدقہ معلومات کے بعد ہی مؤقف اختیار کریں گے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان، ایرانی حکام سے تفصیلات حاصل کر رہا ہے اور اسی حوالے سے تہران میں پاکستانی سفارتخانہ ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ زاہدان میں بھی پاکستانی قونصل خانہ ایرانی حکام سے رابطے میں ہے۔
واضح رہے کے اس سے قبل پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان کے علاقے مہرستان میں آٹھ پاکستانیوں کے قتل پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی حکومت سے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایران کے سیستان بلوچستان کے ضلع مہرستان میں آٹھ پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری کا دعویٰ ایک غیر معروف تنظیم کالعدم بی این اے یعنی بلوچ نیشنلسٹ آرمی کی جانب سے کیا گیا ہے۔
سرکاری سطح پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے دعوے کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی ہے تاہم ایران کے کسی علاقے سے پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے حوالے اس تنظیم کی ذمہ داری قبول کرنے کا غالباً یہ پہلا واقعہ ہے۔
تاہم بلوچستان میں ماضی میں اس تنظیم کی جانب سے بعض واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس تنظیم کے نام سے آخری مرتبہ تشدد کے کسی بڑے واقعے کے حوالے سے ذمہ داری قبول کرنے کا جو دعویٰ سامنے آیا تھا وہ پاکستان کے شہر لاہور کے گنجان آباد اور مصروف انارکلی بازار میں جنوری سنہ 2022 میں دھماکے کا تھا جس میں تین افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوئے تھے۔
اس غیر معروف تنظیم کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوری سنہ 2022 میں کالعدم بلوچ ریپبلیکن آرمی (گلزار امام گروپ) اور کالعدم یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام سے کالعدم بی این اے کی تشکیل کی گئی۔
اس کے پہلے سربراہ کے طور پر بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع پنجگور سے تعلق رکھنے والے ’گلزار امام شنبے‘ کا نام سے سامنے آیا۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تشدد کی زیادہ تر کارروائیوں کی ذمہ داریاں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی، کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بی ایل اے اور بی ایل ایف سمیت دیگر مسلح تنظیموں کے اتحاد براس یعنی بلوچ راجی آجوئی سنگر کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔
تاہم کالعدم بی این اے کی جانب سے مکران ڈویژن کے دو اضلاع پنجگور اور کیچ سے تشدد کے چند ایک واقعات کی ذمہ داری قبول کی جاتی رہیں۔
اپریل سنہ 2023 میں بی این اے کے پہلے سربراہ گلزار امام کی گرفتاری ظاہر کی گئی اور اس حوالے سے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ کہا گیا کہ انھیں بلوچستان میں شدت پسندوں کے خلاف ہونے والے ایک آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا۔
اس سے قبل سنہ 2022 کے آخر میں گلزار امام کے بارے میں بی این اے کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ گلزام امام پاکستانی اداروں کی تحویل میں ہیں جبکہ اس حوالے سے ایسی اطلاعات بھی سامنے آتی رہیں کہ گلزار امام کو ترکیہ سے حراست میں لیے جانے کے بعد پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا۔
گلزار امام شنبے کی گرفتاری کے بعد بلوچستان کے ضلع مستونگ سے تعلق رکھنے والے سرفراز بنگلزئی کا نام اس تنظیم کے دوسرے سربراہ کے طور پر سامنے آیا لیکن انھوں نے گزشتہ سال ہتھیار ڈال دیے تھے جسے پاکستانی حکام کی جانب سے ان کی جانب سے قومی دھارے میں شامل ہونے کا نام دیا گیا۔
مذکورہ تنظیم کی جانب سے طویل عرصے بعد ایران کے کسی علاقے میں اپنی نوعیت کے کسی بڑی کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ ہے تاہم ابھی تک ایران اور پاکستان میں سرکاری سطح اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
،تصویر کا ذریعہTasnim News
ایران نے اپنے صوبے سیستان و بلوچستان میں آٹھ پاکستانی شہریوں کی ہلاکت پر مذمتی بیان جاری کیا ہے۔
ایک بیان میں اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانہ نے اس واقعے کو ’غیر انسانی اور بزدلانہ مسلح کارروائی‘ قرار دیا ہے۔
اس نے واقعے کی تفصیلات دیے بغیر محض یہ کہا کہ ’دہشت گردی پورے خطے میں ایک دیرینہ اور مشترکہ خطرہ ہے جس کے ذریعے غدار عناصر بین الاقوامی دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پورے خطے میں سلامتی اور استحکام کو نشانہ بناتے ہیں۔‘
ایرانی سفارتخانے سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس ناخوشگوار واقعے کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔‘
اس سے قبل پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’ایران کے علاقے مہرستان میں آٹھ پاکستانیوں کی ہلاکت کے حوالے سے پاکستان کی حکومت ایرانی حکام سے رابطے میں ہیں۔‘
ترجمان دفتر خارجہ شفقت خان کا کہنا تھا کہ ’واقعے سے آگاہ ہیں اور حقائق سامنے آنے پر باضابطہ بیان جاری کیا جائے گا اور مصدقہ معلومات کے بعد ہی موقف اختیار کریں گے۔‘
ادھر ایک بیان میں کالعدم تنظیم بلوچستان نیشنل آرمی (بی این اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایران کے علاقے مہرستان میں 8 پاکستانیوں کی ہلاکت کے حوالے سے جاری ہونے والے پاکستانی دفترِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت ایرانی حکام سے رابطے میں ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ شفقت خان کا کہنا تھا کہ ’واقعے سے آگاہ ہیں اور حقائق سامنے آنے پر باضابطہ بیان جاری کیا جائے گا اور مصدقہ معلومات کے بعد ہی مؤقف اختیار کریں گے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان، ایرانی حکام سے تفصیلات حاصل کر رہا ہے اور اسی حوالے سے تہران میں پاکستانی سفارتخانہ ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ زاہدان میں بھی پاکستانی قونصل خانہ ایرانی حکام سے رابطے میں ہے۔
واضح رہے کے اس سے قبل پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان کے علاقے مہرستان میں آٹھ پاکستانیوں کے قتل پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی حکومت سے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران میں آٹھ پاکستانیوں کی ہلاکت سے متعلق اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟
ایرانی خبر رساں ادارے ’حال وش‘ کی جانب سے ایران کے علاقے مہرستان میں آٹھ پاکستانیوں کی ہلاکت کے حوالے سے جاری تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ ان آٹھ پاکستانیوں کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے اور وہ ایران میں گاڑیوں کی مرمت کا کام کرتے تھے۔
خبر رساں ادارے نے مقامی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی خبر میں لکھا ہے کہ مہرستان کے گاؤں میں جب لاشوں کو جائے وقوعہ سے برآمد کیا گیا تو ہلاک ہونے والے تمام پاکستانیوں کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے۔
ایک بیان میں کالعدم تنظیم بلوچستان نیشنل آرمی (بی این اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم ایرانی دفتر خارجہ نے تاحال اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی حکام کی جانب سے ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی میتوں کی وطن واپسی کے لیے ایران حکام سے رابطے کی کوشش جاری ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
حماس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے حملے میں غزہ شہر کے اہم طبی مرکز کے انتہائی نگہداشت اور سرجری کے شعبے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
حملے کی آن لائن پوسٹ کی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو منزلہ عمارت کو میزائلوں سے نشانہ بنائے جانے کے بعد الاہلی بپٹسٹ ہسپتال سے بڑے شعلے اور دھواں اٹھ رہا ہے۔ میزائلوں کا نشانہ بننے والے ہسپتال میں زیر علاج لوگوں، اُن کے لواحقین اور طبی عملنے کو پریشانی کے عالم میں یہاں وہاں جان بچانے کے لیے بھاگتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک مقامی صحافی نے بتایا کہ اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ایک ڈاکٹر کو فون کیا اور انخلا کی وارننگ دی۔
حماس نے اس حملے کو اسرائیل کی جانب سے ’ہولناک جرم‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان اطلاعات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
سول ایمرجنسی سروس کے مطابق کسی جانی نقصان کی تاحال اطلاع نہیں ملی ہے۔
ہسپتال میں کام کرنے والے مقامی صحافی نے بتایا کہ ’اسرائیلی فوج کے ایک افسر نے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر کو فون کیا اور انھیں فوری طور پر ہسپتال خالی کرنے کو کہا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہسپتال کے ڈاکٹر کو فون کرنے والے اسرائیلی فوج کے افسر نے کہا کہ ’تمام مریضوں اور بے گھر افراد کو محفوظ فاصلے پر جانا ہوگا اور ایسا کرنے کے لیے آپ کے پاس صرف 20 منٹ ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر جاری فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عملہ اور مریض عمارت سے باہر نکل رہے ہیں جبکہ باہر ابھی بھی اندھیرا ہے۔
خواتین اور بچوں سمیت درجنوں فلسطینیوں کو ہسپتال کے اندر ایک صحن سے بھاگتے ہوئے بھی دیکھا گیا جہاں وہ پناہ کی تلاش میں تھے۔
غزہ کی پٹی کے شمالی حصے میں الشفا میڈیکل کمپلیکس اور ہسپتالوں کی تباہی کے بعد الاہلی اب بھی غزہ شہر میں واحد ہسپتال ہے جو ان مُشکل حالات میں اب بھی کام کر رہا ہے۔
حماس کے زیر انتظام سرکاری میڈیا آفس نے اپنے بیان میں اس حملے کی مذمت کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل الاہلی اسپتال کو نشانہ بنا کر ایک ہولناک جرم کا ارتکاب کر رہا ہے جہاں سیکڑوں مریض اور طبی عملہ رہائش پذیر ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) کی سربراہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ غزہ فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کی وجہ سے ’زمین پر جہنم‘ بن چکا ہے۔
میرجانہ سپولجارک کا یہ بیان اسی روز سامنے آیا کہ جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے متنبہ کیا تھا کہ ’اسرائیل کے ہتھکنڈے غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن چُکے ہیں۔‘
آئی سی آر سی جنیوا کنونشنز کا محافظ ہے جو جنگ میں بین الاقوامی طور پر متفقہ ضابطہ اخلاق ہے اور عام طور پر صرف متحارب فریقوں سے خفیہ طور پر بات کرتا ہے جب اسے لگتا ہے کہ خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
تاہم اب میرجانہ سپولجارک نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بین الاقوامی قانون کی کھلم کُھلا خلاف ورزی ہے۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 18 مارچ کو جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک اسرائیلی بمباری میں 1542 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے بھی انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں جس کی وجہ سے تقریباً چار لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ میں خوراک، طبی سامان اور دیگر تمام اشیا کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت قابض طاقتوں کو جیسا کہ اسرائیل غزہ میں ہے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ شہریوں کو خوراک اور ادویات ملیں اور ہسپتالوں اور طبی کارکنوں کی حفاظت کی جائے۔ کنونشن میں مقبوضہ علاقوں سے پوری آبادی کی جبری منتقلی پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
میرجانہ سپولجارک نے مزید کہا کہ ’فوجی مقاصد کے حصول کے لیے شہریوں کو مشکلات کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے وہ کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کے گھر ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی جانب سے تصدیق کیے گئے 36 حالیہ فضائی حملوں میں ہلاک والے فلسطینیوں میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
تاہم اسرائیل ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا رہا ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے سمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور کچھ دیگر الیکٹرانک آلات کو عالمی ٹیرف منصوبے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے، جس میں چینی درآمدات پر عائد 125 فیصد محصولات بھی شامل ہیں۔
ایک نوٹس میں امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پٹرول نے کہا ہے کہ ان اشیا کو زیادہ تر ممالک پر ٹرمپ کے 10 فیصد عالمی ٹیرف اور اس سے کہیں زیادہ بڑے چینی درآمدی ٹیکس سے باہر رکھا جائے گا۔
یہ ٹرمپ کی جانب سے چین پر محصولات میں کسی قسم کی پہلی بڑی چھوٹ ہے، ایک تجارتی تجزیہ کار نے اسے ’گیم چینجر‘ قرار دیا ہے۔
سنیچر کے روز میامی کے دورے کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اگلے ہفتے کے اوائل میں استثنیٰ کی مزید تفصیلات دیں گے۔
انھوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے اقدامات میں بہت واضح ہیں اور اپنے مُلک ے لیے ان اقدامت سے بہت پیسہ جمع کر رہے ہیں۔‘
امریکی انتظامیہ کی جانب سے یہ اقدام امریکی ٹیک کمپنیوں کے ان خدشات کے بعد سامنے آیا ہے کہ جس میں اُن کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ گیجٹس کی قیمت آسمان کو چھو سکتی ہے، کیونکہ ان میں سے بہت سی چیزیں چین میں بنائی جاتی ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے اشارہ دیا ہے کہ یہ استثنیٰ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دیا گیا ہے کہ کمپنیوں کے پاس پیداوار کو امریکہ منتقل کرنے کے لیے زیادہ وقت ہو۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کرولین لیوٹ نے ایک بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ سیمی کنڈکٹر، چپس، سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ جیسی اہم ٹیکنالوجیز کی تیاری کے لیے چین پر انحصار نہیں کر سکتا۔
صدر کی ہدایت پر یہ کمپنیاں جلد از جلد امریکہ میں اپنی مینوفیکچرنگ شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ کے مطابق امریکہ آئی فونز کی ایک بڑی مارکیٹ ہے جبکہ ایپل نے گزشتہ سال اپنے سمارٹ فونز کی فروخت کا نصف سے زیادہ حصہ لیا۔
رپورٹ میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایپل کے 80 فیصد آئی فونز چین میں بنائے جاتے ہیں جبکہ بقیہ 20 فیصد بھارت میں بنائے جاتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیل کے وزیر دفاع نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج جلد ہی غزہ کے زیادہ تر حصوں میں اپنی کارروائیوں کو ’بھرپور‘ طور پر وسعت دینے کے ساتھ ساتھ ان میں شدت لائے گی۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سنیچر کی صبح سے اب تک اسرائیلی فوج کی تازہ کارروائیوں میں 21 فلسطینی ہلاک اور 64 زخمی ہوئے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق اس کے بعد سے اب تک غزہ میں 50,933 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اپنے بیان میں مزید یہ بھی کہا کہ ’اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں ایک ’سکیورٹی زون‘ پر قبضہ مکمل کر لیا ہے جس سے رفح اور خان یونس شہروں کو الگ کر دیا گیا ہے۔‘
اسرائیلی فوج نے خان یونس اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے افراد کو یہاں سے نکل جانے کا کہا ہے۔ انخلا کے احکامات کے ساتھ جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسرائیلی فوج غزہ سے میزائل داغے جانے کے جواب میں ایک شدید حملے کی تیاری کر رہی ہے۔‘ واضح رہے کہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر مزائل داغے جانے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
اسرائیل نے دو ماہ کی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد 18 مارچ کو حماس کے خلاف اپنی کارروائی دوبارہ شروع کی۔ اس کے بعد سے اس نے غزہ کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور غزہ کے لاکھوں شہریوں کو ایک بار پھر بے گھر کر دیا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ’18 مارچ سے جاری کارروائی کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ غزہ میں قید باقی 59 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے جن میں سے 24 کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔‘
سنیچر اسرائیل کاٹز نے کہا تھا کہ ’آئی ڈی ایف نے ’موراگ‘ پر قبضہ مکمل کر لیا ہے جو رفاہ اور خان یونس کے درمیان واقع ایک سابق یہودی بستی ہے۔ اس سے موراگ کے درمیان کا پورا علاقہ اسرائیلی سکیورٹی زون کا حصہ بن گیا ہے۔‘
کاٹز نے حماس کو متنبہ کیا کہ ’آئی ڈی ایف کی سرگرمی جلد ہی غزہ کے بیشتر علاقوں میں اضافی مقامات تک تیزی سے پھیل جائے گی اور ان علاقوں میں لوگوں کو شورش زدہ علاقوں کو خالی کرنا پڑے گا۔‘
،تصویر کا ذریعہAFP
تاہم حماس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے حوالے سے کہا ہے کہ ’اسرائیلی افواج کی اس کارروائی میں نہ صرف بے سہارا فلسطینی شہری ہلاک ہوئے ہیں بلکہ یرغمالیوں کی قسمت بھی ’غیر یقینی‘ کا شکار ہو گئی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے گزشتہ ماہ خبردار کیا تھا کہ ’انخلا کے احکامات بین الاقوامی قوانین کی تعمیل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ متاثرہ افراد کو رہائش فراہم کرنے یا حفظان صحت اور غذائیت کی تسلی بخش صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان کے علاقے مہرستان میں آٹھ پاکستانیوں کے قتل پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی حکومت سے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
ایرانی خبر رساں ادارے ’حال وش‘ کی جانب سے اس واقعے سے متعلق جاری تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے آٹھ پاکستانیوں کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے اور وہ ایران میں گاڑیوں کی مرمت کا کام کرتے تھے۔
خبر رساں ادارے نے مقامی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی خبر میں لکھا ہے کہ مہرستان کے گاؤں میں جب لاشوں کو جائے وقوعہ سے برآمد کیا گیا تو ہلاک ہونے والے تمام پاکستانیوں کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے۔
ایک بیان میں کالعدم تنظیم بلوچستان نیشنل آرمی (بی این اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم ایرانی دفتر خارجہ نے تاحال اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی حکام کی جانب سے ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی میتوں کی وطن واپسی کے لیے ایران حکام سے رابطے کی کوشش جاری ہے۔
سنیچر کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’ایرانی حکومت ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرنے کے بعد قرار واقعی سزا دے اور اس بہیمانہ اقدام کی وجوہات عوام کے سامنے لائے۔‘
پاکستانی وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ دہشتگردی کا ناسورخطے میں موجود تمام ممالک کے لیے تباہ کن ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے وزارتِ خارجہ کو ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کے اہلِ خانہ سے رابطہ کرنے اور ایران میں پاکستانی سفارتخانے کو انکی میتوں کی باحفاظت واپسی کے لیے اقدامات کرنے کی بھی ہدایات دی ہیں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ایران کے صوبہ سیستان میں آٹھ پاکستانی شہریوں کے قتل کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اس افسوسناک واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے پاکستانی شہریوں کے لواحقین سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کیا اُن کا کہنا تھا کہ ہم دکھ کی گھڑی میں ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
دوسری جانب پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہمیں اس المناک واقعے کا علم ہے اور ہم ایرانی حکام سے رابطے میں ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
عمان کے دارالحکومت مسقط میں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی پہلی نشست کے اختتام کے بعد وائٹ ہاؤس کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’بات چیت مثبت اور تعمیری‘ رہی ہے۔
خیال رہے مسقط میں مذاکرات میں ایرانی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ عباس عراقچی جبکہ امریکی وفد کی قیادت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق سٹیو وٹکوف نے ایران کو بتایا کہ ’انھیں ہدایات ملی ہیں کہ اگر ممکن ہو سکے تو مخالفین (ایران اور امریکہ) کے درمیان اختلافات کو بات چیت اور سفارتکاری کے ذریعے حل کیا جائے۔‘
’یہ معاملات بہت پیچیدہ ہیں اور آج نمائندہ خصوصی وٹکوف کی براہ راست گفتگو باہمی فائدے پر مبنی نتائج حاصل کرنے کی راہ کی طرف ایک مثبت قدم تھا۔‘
وائٹ ہاؤس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے لیے اگلا اجلاس اگلے سنیچر کو ہوگا۔
خیال رہے اس سے قبل ایرانی وزارتِ خارجہ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ کہ وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف کے درمیان ’بالواسطہ مذاکرات کے اختتام کے بعد عمانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں چند منٹ بات چیت ہوئی۔‘
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق ’ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف نے باہمی احترام پر مبنی تعمیری ماحول میں اپنی اپنی حکومتوں کے مؤقف اور دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔‘
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق امریکہ اور ایران کے مذاکرات کاروں نے اگلے ہفتے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ حکومت دھرنے کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے حوالے سےسنجیدہ نہیں ہے، اس لیے ان کی پارٹی کی جانب سے پیر کے روز آل پارٹیز کانفرنس طلب کی گئی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی عدم رہائی کے خلاف لکپاس کے علاقے میں دھرنا سنیچر کو 15ویں روز بھی جاری رہا۔
دھرنے کے شرکا کو روکنے کے لیے کوئٹہ، کراچی ہائی وے پر سرکاری حکام کی جانب سے جو رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تھیں ان کو تاحال نہیں ہٹایا گیا ہے۔ لیکن لکپاس پر پرانے روڈ سے چھوٹی گاڑیوں کی آمدورفت بحال ہوگئی ہے۔
پیپلزپارٹی کے وزرا اور اراکین اسمبلی کے بعد مخلوط حکومت میں شامل مسلم لیگ ن کے وزرا اور اراکین اسمبلی نے ترجمان حکومت بلوچستان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس کے دھرنے کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف کا سامنا ہے۔
تاہم بلوچستان نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ لکپاس ٹنل کو دھرنے کے شرکا نے نہیں بلکہ حکومت نے بند کیا ہے۔
’حکومت کی غیر سنجیدگی پر آل پارٹیز کانفرنس بلا ئی‘
سنیچر کو میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ لکپاس پر ان کا دھرنا گزشتہ 15 روز سے جاری ہے۔
’ہمارا واحد مطالبہ یہ تھا کہ گرفتار خواتین کو چھوڑ دیا جائے۔ اگر اس مطالبے کو تسلیم کیا جاتا تو ہم یہاں سے واپس جاتے، چونکہ حکومت معاملات کو حل نہیں کرنا چاہتی ہے اس لیے ہم نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی ہے جس میں دھرنے کے شرکا کے مطالبات کے علاوہ بلوچستان کے دیگر سنگین مسائل زیرغور آئیں گے اور ان کے حل کے لیے غور کیا جائے گا۔‘
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ ریاست کو بلوچستان کے مسائل سے دلچسپی نہیں ہے بلکہ ’اسے بلوچوں کے وجود سے مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں آج پانچواں فوجی آپریشن چل رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ آج پہاڑوں پر ہیں وہ بھی پہلے ان ہی سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے ہیں لیکن ’جب آپ کسی کی بات نہیں سنیں گے اور بات سننے کے بجائے لوگوں کو لاپتہ کریں گے اور ان کی لاشیں پھینکیں گے تو لوگوں کے پاس کونسا راستہ بچے گا؟‘
’آج تین چار خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے کل یہ زیادہ ہوسکتی ہیں ۔ اس لیے خواتین کے معاملے پر خاموش رہ کر ہم اپنی آئندہ کی نسلوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتے۔‘
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ انھوں نے بیک ڈور کے ذریعے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کو کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا اور اگر پیپلز پارٹی کے وزرا سچے ہیں تو پھر ان کو چاہیے کہ وہ یہ مطالبات لوگوں کے سامنے پیش کر دیں۔
،تصویر کا ذریعہReuters
عمان کے وزیرِ خارجہ بدر البوسعیدی کا کہنا ہے کہ مسقط میں ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف کے درمیان ملاقات ’ دوستانہ ماحول‘ میں ہوئی جس کا مقصد ’خطے میں اور بین الاقوامی سطح پر سکیورٹی اور استحکام کا حصول ہے۔‘
سنیچر کو ایکس پر ایک پوسٹ میں عمان کے وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’مجھے فخر ہے کہ آج مسقط میں ہم نے ایرانی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر سید عباس عراقچی اور امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی سٹیو وٹکوف کی میزبانی کی اور مذاکرات کے عمل کو شروع کرنے کے معاملے پر ثالثی کی جس کا مقصد ایک منصفانہ اور دیرپا معاہدے کا حصول ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات میں بطور ثالث اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
خیال رہے اس سے قبل ایرانی وزارتِ خارجہ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ کہ وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف کے درمیان ’بالواسطہ مذاکرات کے اختتام کے بعد عمانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں چند منٹ بات چیت ہوئی۔‘
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق ’ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف نے باہمی احترام پر مبنی تعمیری ماحول میں اپنی اپنی حکومتوں کے مؤقف اور دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔‘
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق امریکہ اور ایران کے مذاکرات کاروں نے اگلے ہفتے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہEntekhab
ایران کی وزارتِ خارجہ کہنا ہے کہ مسقط میں ایرانی اور امریکی وفود کے درمیان مذاکرات کی پہلی نشست کا اختتام ہوگیا ہے اور فریقین نے اگلے ہفتے بھی بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
بی بی سی فارسی کے مطابق ایرانی وزارتِ خارجہ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف کے درمیان ’بالواسطہ مذاکرات کے اختتام کے بعد عمانی وزیر خارجہ کی موجودگی میں چند منٹ بات چیت ہوئی۔‘
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق ’ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف نے باہمی احترام پر مبنی تعمیری ماحول میں اپنی اپنی حکومتوں کے مؤقف اور دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔‘
ایران کی وزارتِ خارجہ کے مطابق امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات تہران پر عائد پابندیاں ہٹانے اور جوہری مذاکرات کے حوالے سے تھے۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق امریکہ اور ایران کے مذاکرات کاروں نے اگلے ہفتے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
عمان کے دارالحکومت مسقط میں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔
ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ان کا ملک ایک ’شفاف معاہدہ‘ چاہتا ہے۔
خیال رہے اس سے قبل سابق امریکی صدر براک اوبامہ کے دورِ اقتدار میں بھی ایران اور امریکہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر معاہدہ ہوا تھا، تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں اس معاہدے کو ختم کر دیا تھا۔
ایران نے اس سے قبل اب تک اس معاہدے پر دوبارہ مذاکرات سے انکار کیا تھا۔
یہاں یہ بات واضح نہیں ہے کہ مسقط میں ہونے والے مذاکرات کے دوران امریکی اور ایرانی مذاکرات کار ایک کمرے میں بیٹھیں گے بھی یا نہیں لیکن پھر بھی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کو ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
آج ہونے والے اجلاس میں مذاکرات کے طریقہ کار پر گفت و شنید ہو گی۔
ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اس مرحلے پر بالواسطہ مذاکرات ہی بہتر ہوں گے۔
صدر ٹرمپ کے نمائندے سٹیو وٹکوف مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت کر رہے ہیں اور وہ کہہ چکے ہیں کہ امریکی حکام براہ راست مذاکرات کو ترجیح دیں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیکن یہاں سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ فریقین کے لیے کس قسم کا معاہدہ قابلِ قبول ہوگا۔ امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دیں گے۔
دوسری جانب ایران کو ایک ایسے معاہدے کی امید ہے جس سے اس کا جوہری پروگرام محدود تو ہوجائے لیکن مکمل طور پر بند نہ ہو اور اس کے بدلے میں وہ پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔
عباس عراقچی کہتے ہیں کہ: ’ہمارا ارادہ ایک ایسے شفاف اور باعزت معاہدے تک پہنچنا ہے جہاں فریقین کسی ایک بات پر متفق ہو جائیں، امید کی جا سکتی ہے کہ ابتدائی طور پر فریقین میں اتفاق ہو جائے گا اور اس سے مذاکرات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ساتھ مسقط آنے والے وفد میں ’ایسے ماہرین موجود ہیں جو ماضی میں بھی اس معاملے پر مذاکرات میں حصہ لے چکے ہیں۔‘
امریکی وفد کی قیادت کرنے والے سٹیو وٹکوف روس اور یوکرین مذاکرات کا بھی حصہ ہیں اور جمعے کو انھوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے بھی ملاقات کی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ مہینے متحدہ عرب امارات کے ذریعے ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کو ایک خط لکھا تھا اور کہا تھا کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے اور اس پر اسرائیل یا امریکہ کے کسی بھی متوقع حملے کو روکنے کے لیے مذاکرات چاہتے ہیں۔
امریکی صدر نے گذشتہ پیر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے موقع پر ایران سے مذاکرات کا اشارہ دیا تھا اور کہا تھا کہ ’ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار کبھی نہیں ہوں گے۔‘
انھوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر ایران کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوتا تو امریکہ فوجی طاقت کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔ دوسری جانب ایران نے متعدد مرتبہ کہا ہے کہ وہ دباؤ کے نتیجے میں مذاکرات نہیں کرے گا۔
گذشتہ پیر کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ عمان میں ہونے والا اجلاس ایک بڑی پیش رفت ہے اور اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو یہ ’ایران کے لیے بہت بُرا دن ہوگا۔‘
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں سنیچر کی دوپہر زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے زلزلہ پیما مرکز کے مطابق پانچ اعشارعہ پانچ کی شدت سے آنے والے زلزلے کا مرکز راولپنڈی سے 60 کلومیٹر نارتھ ویسٹ تھا۔
زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی گہرائی 12 کلومیٹر تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد کے علاوہ پنجاب میں راولپنڈی، چکوال، چنیوٹ، حسن ابدال، اٹک، میانوالی جبکہ خیبر پختونخوا میں سوات، بونیر، لوئر دیر، لکی مروت، مالاکنڈ، مہمند، اور گرد و نواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔
زلزلہ پیما مرکز کے مطابق 12 بج کر 31 منٹ پر زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جنھیں چند سیکنڈ تک محسوس کیا جاتا رہا۔
ادارے کے مطابق زلزلے کے جھٹکے 12 بجکر 31 منٹ پر محسوس کیے گئے۔
ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق زلزلے کا مرکز راولپنڈی شمال مغرب جبکہ گہرائی 12کلومیٹر تھی۔ترجمان پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پنجاب بھر کی انتظامیہ عمارتوں کی چیکنگ میں مصروف ہے تاہم پنجاب کے کسی بھی علاقے سے جانی و مالی نقصان کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔
ڈی جی پی ڈی ایم ا کے مطابق زلزلہ کے آفٹر شاکس سے نمٹنے کے لیے مشینری اور عملے کو الرٹ رکھا گیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے صوبے پنجاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں 13 اپریل سے شدید گرمی کی لہر کا امکان ہے۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق جنوبی پنجاب میں درجہ حرارت معمول سے 6 سے 8 ڈگری سینٹی گریڈ زائد رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے جبکہ بالائی پنجاب میں 14 تا 18 اپریل درجہ حرارت معمول سے 4 تا 6 ڈگری زیادہ رہنے کا امکان ہے۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کے ریلیف کمشنر نبیل جاوید کی کمشنرز و ڈی سیز کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق رات کے وقت بھی موسم معمول سے زیادہ گرم رہنے کی توقع ہے۔ تاہم گرمی کی شدت کے باعث گرد آلود ہواؤں اور طوفان کا خطرہ بھی ہے۔
ریلیف کمشنر پنجاب نبیل جاوید کا کہنا ہے کہ ’ہیٹ ویو سے بچوں، خواتین اور بزرگ شہریوں کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ دھوپ میں غیر ضروری سرگرمیوں سے گریز اور ہائیڈریٹ رہنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پی ڈی ایم اے پنجاب کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ریسکیو 1122 کو ہیٹ سٹروک اور پانی کی کمی سے متاثرہ افراد کی مدد کیلئے الرٹ رہنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں امدادی کیمپ، صاف پانی، ORS اور ابتدائی طبی امداد کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کا بھی کہا گیا ہے۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کا اپنے بیان میں مزید کہنا ہے کہ گرمی کی شدت میں اضافے سے شمالی علاقوں میں برف پگھلنے کی رفتار بھی بڑھ سکتی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بیجنگ محصولات پر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ میں کیوں نہیں آرہا؟ اس سوال کے جواب میں چین کے رہنما یہ کہ چُکے ہیں کہ وہ کسی بھی دباؤ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں، اس بیجنگ انتظامیہ نے بار بار ٹرمپ انتظامیہ پر ’غنڈہ گردی‘ کا لیبل بھی لگایا ہے۔ تاہم چین ہی دُنیا میں وہ مُلک ہے کہ جو کسی بھی دوسرے ملک کی مدد کے بغیر ایسا کرنے کی ہمت اور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
محصولات یا ٹیرف کی اس جنگ کے شروع ہونے سے پہلے چین کے پاس امریکہ کو فروخت یا برآمدات کا حجم خاصہ بڑا تھا لیکن یہ اس کی جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد تھا۔
کمیونسٹ پارٹی واضح طور پر ایک ایسے وقت میں امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں پھنسنے کو ترجیح نہیں دے گی جب وہ رئیل سٹیٹ کے بحران، حد سے زیادہ علاقائی قرضوں اور نوجوانوں کی مسلسل بے روزگاری کے بعد اپنے کافی معاشی مسائل سے نکلنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
تاہم اس کے باوجود حکومت نے اپنے عوام سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے حملوں کا مقابلہ کرنے کی مضبوط پوزیشن میں ہے۔
وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے اپنے محصولات واضح طور پر امریکی برآمد کنندگان کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔
ٹرمپ اپنے حامیوں کو یہ کہتے رہے ہیں کہ چین پر محصولات عائد کر کے اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا آسان ہو گا لیکن یہ انتہائی گمراہ کن ثابت ہوا ہے۔
بیجنگ ہتھیار ڈالنے والا نہیں ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے جمعے کے روز ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز سے کہا کہ ’ان کے ملک اور یورپی یونین کو ٹرمپ انتظامیہ کے یکطرفہ ’غنڈہ گردی‘ پر مبنی طور طریقوں کے خلاف مشترکہ طور پر مزاحمت کرنی چاہیے۔‘
جس کے جواب میں سانچیز نے کہا کہ ’امریکہ کے ساتھ چین کی تجارتی کشیدگی یورپ کے ساتھ اس کے تعاون میں رکاوٹ نہیں بننی چاہئے۔‘
ان کی یہ ملاقات چین کے دارالحکومت میں اس وقت ہوئی کہ جب بیجنگ نے ایک بار پھر امریکہ کی مصنوعات پر محصولات میں اضافہ کیا تھا حالانکہ اس نے کہا ہے کہ وہ امریکی محصولات میں مزید اضافے کا جواب نہیں دے گا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
آئندہ ہفتے شی جن پنگ ملائشیا، ویتنام اور کمبوڈیا کا دورہ کریں گے۔ یہ وہ تمام ممالک ہیں جو ٹرمپ کے محصولات سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
ان کے وزرا جنوبی افریقہ، سعودی عرب اور انڈیا کے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ تجارتی تعاون پر بات چیت کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ چین اور یورپی یونین مبینہ طور پر چینی کاروں پر یورپی محصولات کو ممکنہ طور پر ختم کرنے کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں جس کی جگہ کم از کم قیمت مقرر کی جائے گی۔
مختصر یہ کہ آپ جہاں کہیں بھی نظر ڈالیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چین کے پاس آپشنز موجود ہیں۔
اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں سپر پاورز کی جانب سے باہمی ٹیرف میں یہ اضافہ اب تقریباً بے معنی ہوتا جا رہا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی ان کے درمیان زیادہ تر تجارت کو ختم کرنے کے نقطہ کو عبور کر چکے ہیں۔
لہٰذا دونوں سمتوں میں ٹیرف میں اضافہ بس کی علامت کی طرح ہی ہو گیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
وائٹ ہاؤس کے ایک پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں۔‘
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری پریس بیان جس کا عنوان تھا کہ ’صدر ٹرمپ کا ٹیرف کیوں ضروری ہے‘ میں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ تجارتی پالیسیاں کئی دہائیوں سے امریکہ کو ناکام بنا رہی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’امریکی صنعت کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے‘ پہلے ہی کام جاری ہے۔
جنوری میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کئی ممالک اور بڑی کمپنیاں امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے پر غور کر رہی ہیں یا اس کا عہد کر رہی ہیں۔
بیان میں جن مثالوں کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں سے ایک امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل ہے جس نے فروری میں امریکہ میں تربیت سازی اور آلات کی تیاری کے لیے پانچ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا کہا تھا۔