اس صفحے کو مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا
بی بی سی پر نئی خبروں اور تجزیوں کے لیے یہاں کلک کریں!
بلوچستان ہائیکورٹ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ یہ درخواست ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ کی جانب سے سپریم کورٹ کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ اور عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے۔
بی بی سی پر نئی خبروں اور تجزیوں کے لیے یہاں کلک کریں!
،تصویر کا ذریعہministry of interior
وزارت داخلہ نے جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بتایا ہے کہ غیر قانونی طور پر ایران اور یورپ جانے کی کوشش کرنے والے 50 ہزار افراد کے پاسپورٹس بلیک لسٹ کردیے گئے ہیںگ
وزیر داخلہ محسن نقوی نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران تحریری جواب میں بتایا کہ ایران اور یورپ میں غیر قانونی داخلے کی کوشش کرنے والے 50 ہزار افراد کے پاسپورٹس بلیک لسٹ کیے گئے ہیں۔
تحریری جواب میں انھوں نے بتایا کہ ان افراد کے پاسپورٹس بلیک لسٹ کرنے کی سفارش ایف آئی اے بلوچستان نے کی تھی، ان افراد کے پاسپورٹ غیر قانونی داخلے، جعلی پاسپورٹ ،فراڈ اور انسانی سمگلنگ کے الزامات کے تحت بلیک لسٹ کیے گئے ہیں۔
محسن نقوی نے کہا کہ متعلقہ افراد بلیک لسٹ سے ہٹانے کے لیے ڈی جی پاسپورٹ کے پاس مروجہ طریقہ کار کے مطابق اپیل کر سکتے ہیں۔
وزارت داخلہ نے آن لائن فراڈ سے متعلق تحریری جواب میں بتایا کہ سال 2024 میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے 13 ہزار 722 انکوائریاں رجسٹرڈ کیں، آن لائن فراڈ میں ملوث افراد کے خلاف 832 مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں ایک ہزار 212 افراد گرفتار اور 17 مقدمات کے حتمی فیصلے کیے گئے ہیں۔
وزارت داخلہ کے مطابق آن لائن فراڈ میں ملوث افراد سے 65 کروڑ سے زائد کی رقم برآمد کی گئی ہے۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان کوئٹہ کراچی ہائی وے پر رکاوٹوں کی وجہ سے لوگوں کو سفر کے حوالےسے شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اگرچہ کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان دشت کے علاقے کنڈ میسوری کے راستے گاڑیوں کی آمدورفت بحال ہوگئی ہے لیکن ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو آمدورفت میں بہت زیادہ تاخیر ہورہی ہے۔
بلوچستان کے ضلع نوشکی سے آنے والے ایک شہری اویس احمد نے بتایا کہ گزشتہ روز ٹریفک اتنی زیادہ تھی کہ انھیں ایک منٹ چلنے کے بعد کم از کم 10 منٹ رکنا پڑتا تھا۔
ضلع کوئٹہ اور ضلع مستونگ کے درمیان کوئٹہ کراچی کے درمیان مرکزی شاہراہ پر رکاوٹیں سرکاری حکام کی جانب سے اس دھرنے کی وجہ سے کھڑی کی گئی ہیں جو کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماوں اور کارکنوں کی رہائی کے لیے بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام 28 مارچ سے دیا جارہا ہے۔
وڈھ میں شاہراہ کو بند کرنے والے چار زخمی مظاہرین میں سے ایک چل بسا
ادھر ضلع خضدار کے علاقے وڈھ میں گزشتہ پیر کو اس حوالے سے شاہراہ کو بند کرنے والے جو چار مظاہرین زخمی ہوئے تھے ان میں سے عنایت اللہ نامی شخص زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کا الزام ہے کہ یہ شخص سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے زخمی ہوا تھا تاہم سرکاری حکام نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔
’آدھے گھنٹے کی بجائے کوئٹہ پہنچنے میں پانچ گھنٹے لگے‘
اویس احمد اپنی گاڑی میں گزشتہ روز ضلع نوشکی سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئے۔ جب وہ شام کو ضلع مستونگ کے علاقے لک پاس پہنچے تو کوئٹہ کراچی شاہراہ لک پاس ٹنل کے راستے بدستور بند تھی جس پر انھوں نے کوئٹہ پہنچنے کے لیے کنڈ میسوری کے راستے کا انتخاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دشت کے علاقے کنڈمیسوری کے راستے اگرچہ راستہ کھلا تھا لیکن اس پر ٹریفک بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے انھیں کوئٹہ پہنچنے میں بہت زیادہ تاخیر ہوگئی کیونکہ ایک منٹ چلنے کے بعد 10 منٹ تک ان کو رکنا پڑتا تھا۔
اویس احمد کے مطابق لک پاس سے کوئٹہ شہر تک مین شاہراہ کے زریعے پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ تک لگتا ہے لیکن متبادل راستے سے ٹریفک بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو پانچ گھنٹہ لگے۔
،تصویر کا ذریعہMaqbool Jaffar
بلوچستان ہائیکورٹ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
یہ درخواست ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ کی جانب سے سپریم کورٹ کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ اور عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی۔
ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس اعجاز سواتی اور جسٹس عامر رانا پر مشتمل بینچ نے درخواست کی سماعت کی جس کے دوران علی احمد کرد ایڈوکیٹ اور ساجد ترین ایڈوکیٹ سمیت متعدد وکلا درخواست گزار کی جانب سے پیش ہوئے۔
کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا نے دوران سماعت موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری غیر قانونی اوربدنیتی پر مبنی ہے۔
انھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان عدنان بشارت نے یہ اعتراض اٹھایا کہ آئین کے آرٹیکل پانچ کے تحت درخواست کے ساتھ حلفیہ بیان جمع کرانا ضروری ہے جو کہ اس درخواست کے ساتھ جمع نہیں کرایا گیا۔
درخواست گزار کے وکلا کی استدعا پر حلفیہ بیان جمع کرانے کے لیے کچھ دیر کے لیے عدالت نے درخواست کی سماعت ملتوی کی ۔ جب دوبارہ درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو وکلا نے عدالت میں ڈاکٹر ماہ رنگ کا حلفیہ بیان جمع کرایا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے درخواست پر مختلف اعتراض اٹھاتے ہوئے عدالت سے اسے مسترد کرنے کی استدعا کی۔
فریقین کے وکلا کے دلائل کے بعد ہائیکورٹ کے فاضل بینچ نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا۔
درخواست کی سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کامران مرتضٰی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے خیال میں سرکاری کی جانب سے غلط آرڈر پاس کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کیس پر بحث ہوگئی ہے اور اچھے کی امید رکھتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان سٹاک ایکسچینج میں جمعرات کے روز تیزی کا رجحان غالب رہا۔ مارکیٹ میں کاروبار کے اختتام پر 2036 پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد کے ایس ای 100 انڈیکس 116189 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا۔
جمعرات کی صبح مارکیٹ میں کاروبار کا آغاز مثبت انداز میں ہوا اور ٹریڈنگ کے پہلے چند منٹوں میں انڈیکس میں 3000 پوائنٹس کا اضافہ دیکھا گیا تاہم بعد میں پرافٹ ٹیکنگ کی وجہ سے حصص کی فروخت کی گئی۔
مارکیٹ تجزیہ کار حصص بازار میں اضافے کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ پر جوابی ٹیرف نہ لگانے والے ملکوں کو نوے دن کی رعایت قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر سٹاک مارکیٹوں میں تیزی دیکھی گئی ہے جبکہ پاکستان نے بھی جوابی ٹیرف نہیں لگایا تھا۔
تجزیہ کار محمد سہیل کے مطابق عالمی سطح پر سٹاک مارکیٹوں میں تیزی کے رجحان نے پاکستان سٹاک ایکسچینج پر بھی اثر ڈالا جس کی وجہ سے کاروبار مثبت رجحان رہا ہے۔
تجزیہ کار محمد سہیل کے مطابق سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی وجہ تو بنیادی طور پر عالمی مارکیٹ میں تیزی ہے جو امریکی صدر کی جانب سے جوابی ٹیرف نہ لگانے والے ملکوں کو دی گئی رعایت ہے جس نے اس مثبت رجحان کو فروغ دیا۔
دوسری جانب تجزیہ کار شہر یار بٹ نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان کے لیے ایک موقع پیدا ہوا ہے کیونکہ چین پر بہت زیادہ ٹیرف لگا ہے اور ٹیکسٹائل کمپنیوں کے لیے مستقبل میں امریکی مارکیٹ میں بہتری کا امکان ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ریکو ڈک کے حوالے سے خبروں نے آئل اینڈ گیس کے شعبے کی کمپنیوں کے حصص کی خرید وفروخت میں تیزی دیکھی گئی جس نے کاروبار کو فروغ دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چار افغان بھائیوں کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے سے متعلق درخواست میں آئی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کو 16 اپریل کو ذاتی حثیت میں طلب کرلیا ہے۔
۔جمعرات کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محمد آصف نے جنوری 2024 سے اسلام آباد سے لاپتہ چار افغان بھائیوں کی بازیابی کے لیے والدہ گل سیما کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار کے مفید خان نے دلائل میں کہا کہ درخواست گزار کے بیٹے ایک سال سے زائد سے لاپتہ ہیں۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث ہیں جو ریاست مخالف ہو۔ آخر جو لوگ فوٹیج میں نظر آرہے ہیں ان کو کیوں تفتیش میں شامل نہیں کیا جا رہا۔
پولیس حکام نے عدالت کے روبرو کہا کہ ہم نے گل سیما والدہ کو بلایا تھا ان کا بیان لینے کے لیے۔ ہر اینگل سے چیک کر رہے ہیں۔ جس کے نام سم ہے ہے اس کو بھی چیک کیا ہےگ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں ہر طرح کا تعاون کر رہے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ 10 ماہ گزر گئے تفتیشی کے بیان کے بعد بھی کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ ویڈیو موقف موجود ہیں، شخصیات کلئیر ہیں،فوٹیج میں چہرے واضح ہیں پنجاب پولیس ملوث ہے۔ آئی جی اسلام آباد کو پتہ ہونا چاہیئے کہ انکی ماتحت پولیس کیا کر رہی ہے۔ فریقین کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا جائے۔
درخواست گزار کے وکیل نے سیکرٹریز دفاع و داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے کہا کہ پہلے آئی جیز کو بلا لیتے ہیں ان کو سن کر پھر دیگر فریقین کو بلا لیں گے۔
’جس کا بندہ لاپتہ ہوتا ہے وہ ہر پل مرتا ہے‘: اسلام آباد ہائی کورٹ
دوران سماعت لاپتہ بیٹوں کی والدہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئیں۔ جس کے بعد جسٹس آصف نے ریمارکس دیے کہ یہ اگر آپ کے یا میرے ساتھ ہو تو احساس ہوتا ہے، آپ لوگ آکر کہہ دیتے ہیں ہمیں علم نہیں۔
جسٹس محمد آصف نے ریمارکس میں کہا کہ ’میں بلوچستان تھا وہاں بھی پہلے کہتے تھے ہمارے پاس نہیں مگر پھر وہیں سے برآمد ہوتے تھے،کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟
جسٹس محمد آصف نے کہا کہ لاپتہ بیٹوں کی والدہ باربار میری عدالت میں آتی ہیں۔ جس کا بندہ لاپتہ ہوتا ہے وہ ہر پل زندہ رہتا ہے، ہر پل مرتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اس کیس میں ہم جے آئی ٹی بنا دیتے ہیں کہ اس میں کس کس کو شامل کیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا اور سماعت 16 اپریل تک ملتوی کر دی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق حکومت کی اپیل پر سماعت میں جمعرات کے روز بھی خواجہ حارث کے دلائل جاری رہے جبکہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں شامل جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس میں استفسار کیا ہے کہ ’کنٹونمنٹ کے اندر شاپنگ مالز بن گئے ہیں، اگر میں زبردستی اندر داخل ہوں تو کیا میرا بھی ملٹری ٹرائل ہوگا؟‘
دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے اگر ممنوع جگہوں پر جانے پر ملٹری ٹرائل شروع ہوئے تو کسی کا بھی ملٹری ٹرائل کرنا بہت آسان ہو گا، ملٹری ٹرائل کے لیے آزادانہ فورم کیوں موجود نہیں؟
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال مندو خیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شاہد بلال پر مشتمل سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔
دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اپیل کے حوالے سے کل ہم نے اٹارنی جزل سے بھی پوچھا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ شق 175 کے پارٹ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا، خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ سلمان اکرم راجہ نے سارے دلائل ہی شق 175 پر ہی دیے ہیں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا 175 سے ہٹ کر بھی سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی اجازت ہے؟ خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ محرم علی اور لیاقت حسین کیس میں یہ تمام چیزیں موجود ہیں، آرمڈ فورسز سے تعلق والا پوائنٹ ایف بی علی سے ہی نکلا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ جو کمی ایف بی علی میں تھی وہ آج بھی ہے، خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ جو آپ کہہ رہے ہیں وہ نو رکنی بینچ کی رائے ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ڈیفنس آف پاکستان اور ڈیفنس سروسز آف پاکستان دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ سول ڈیفنس کا ملک کے ڈیفنس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس میں جرم اس نوعیت کا ہونا چاہیے جو آرمڈ فورسز پر اثر کرے، سروس میں تو سارے ممبر آف آرمڈ فورسز آجاتے ہیں، 8 تھری اے میں دیکھیں ڈسپلن کی بات ہو رہی ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا ممنوع جگہ پر داخل ہونا بھی خلاف ورزی میں آتا ہے؟ کنٹونمنٹ کے اندر شاپنگ مالز بن گئے ہیں، اگر کسی دن مجھے اندر جانے کی اجازت نا ملے تو کیا ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ آج کل کنٹونمنٹ میں فوڈ کورٹ اور بہترین مالز بنا دیے گئے ہیں، لاہور، کوئٹہ، گوجرانوالہ میں کینٹ کے علاقے ہیں، ایسے میں تو سویلین انڈر تھریٹ ہوں گے، 1967 کی ترمیم کے بعد ٹو ڈی ٹو کا کوئی کیس نہیں آیا، یہ پہلا کیس ہے جو ہم سن رہے ہیں۔
خواجہ حارث نے عدالت کے رو برو کہا کہ ایسا تب ہوگا جہاں کسی علاقے کو ممنوع قرار دیتے ہوئے اسے نوٹیفائی کیا گیا ہو، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ممنوع جگہوں میں کون کون سی جگہیں آتی ہیں؟ اس کی تعریف پڑھ دیں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے اگر ممنوع جگہوں پر جانے پر ملٹری ٹرائل شروع ہوئے تو کسی کا بھی ملٹری ٹرائل کرنا بہت آسان ہو گا، کوئٹہ کینٹ میں تو آئے روز اس نوعیت کے جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں چھ سے سات کینٹ ایریاز ہیں، وہاں ایسا تو نہیں ہے کہ مرکزی شاہراہوں کو بھی ممنوع علاقہ قرار دیا گیا ہو۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا ہم سپریم کورٹ کے پانچ سے چھ ججز کلفٹن کینٹ کے رہائشی ہیں، وہاں تو ممنوع علاقہ نوٹیفائڈ نہیں ہے، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ مجھے ایک مرتبہ اجازت نامہ نہ ہونے کے سبب کینٹ ایریا میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
انھوں نے ریمارکس میں مزید کہا کہ ڈیفنس آف پاکستان کی تعریف میں جائیں تو سپریم کورٹ، پارلیمنٹ، ریلوے اسٹیشنز بھی ڈیفنس آف پاکستان کی تعریف میں آتے ہیں، پاکستان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ تو شروع سے موجود ہے، کیا ملٹری کورٹس میں زیادہ سزائیں ہوتی ہیں، اس لیے کیسز جاتے ہیں؟ آرمی ایکٹ درست قانون ہے، جب سے آئین میں آرٹیکل 10 اے آیا، پہلے والی چیزیں ختم ہو گئیں، ملٹری ٹرائل کے لیے آزادانہ فورم کیوں نہیں ہے؟
خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا ہم آئین کے پابند ہیں، آئین کہتا ہے ملٹری ٹرائل کو بنیادی حقوق کے تناظر میں نہیں جانچا جا سکتا۔
عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت 15 اپریل تک ملتوی کردی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث جواب آئندہ سماعت پر بھی جواب الجواب میں دلائل جاری رکھیں گے۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق حکومت کی اپیل پر سماعتوں کا پس منظر
خیال رہے کہ نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور فوجی تنصیبات سمیت کئی سرکاری عمارتوں پر حملے کیے گئے تھے۔
نو مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق پارلیمان نے قرارداد منظور کی تھی جس کے بعد وفاقی حکومت نے ان افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی منظوری دی تھی۔
کتوبر 2023 میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے عام شہریوں کے خلاف مقدمات سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں اور چھ ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل کے بعد جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے دسمبر 2024 میں معاملے کی سماعت کے بعد فوجی عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلے سپریم کورٹ میں شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے حوالے سے زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انھیں سزا سنا کر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
،تصویر کا ذریعہEPA
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لین جیان نے کہا ہے کہ امریکی محصولات پر چین کا ردعمل ’اختتام تک جاری رہے گا‘ اور بیجنگ کسی کو بھی ’چینی عوام کے مفادات کو محروم کرنے یا تجارتی نظام کو کمزور کرنے‘ کی اجازت نہیں دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ’ذاتی مفادات‘ کے لیے کام کر رہا ہے اور محصولات کو زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے اور ’خود غرضی کے حصول‘ کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ رویہ قوانین پر مبنی تجارتی نظام کو کمزور کرتا ہے اور عالمی اقتصادی نظام کو غیر مستحکم بھی کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اقدام پوری دنیا کے خلاف ہے۔‘
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان جیان نے مزید کہا کہ ایسے اقدامات ’ناکامی کی جانب لے کر جانے والے ہوتے ہیں‘ اور یہ کہ اس وقت امریکہ بین الاقوامی برادری کے مفادات پر اپنے مفادات کو ترجیح دے رہا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ کم از کم 155 چینی شہری جنگ میں روس کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
ان کا یہ بیان اس ہفتے کے اوائل میں دو چینی جنگجوؤں کے پکڑے جانے کے بعد سامنے آیا ہے جو کیئو کا پہلا سرکاری الزام ہے کہ چین روس کو افرادی قوت بھی فراہم کر رہا ہے۔
بدھ کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے زیلنسکی نے اپنے اس دعوے کا اعادہ کیا کہ ان کی حکومت کی جانب سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر اس تنازعے میں ’مزید کئی‘ چینی شہری ملوث ہیں۔
اس سے قبل چین کی جانب سے اس بات کی تردید کی تھی کہ اس کے بہت سے شہری روس کے لیے لڑ رہے ہیں اور کہا تھا کہ ’اس دعوے میں کوئی صداقت نہیں ہے۔‘
تاہم بیجنگ کی جانب سے ابھی تک یوکرین کے صدر زیلنسکی کے اس تازہ ترین دعوے سے متعلق کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
یوکرین کے صدر نے مزید کہا کہ ’روس سوشل میڈیا کی مدد سے چینی شہریوں کو فوج میں بھرتی کر رہا ہے اور بیجنگ اس بارے میں سب جانتا ہے۔‘
زیلنسکی کے مطابق ’مبینہ طور پر بھرتی ہونے والے افراد یوکرین میں میدان جنگ میں بھیجے جانے سے قبل ماسکو میں تربیت حاصل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں ایسا کرنے کے ملیے ادائیگیاں بھی کی جاتی ہیں۔‘
یوکرین کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’یورپ میں جاری اس جنگ میں روس کی جانب سے چین کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی براہ راست یا بالواسطہ شمولیت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ پوتن جنگ کے خاتمے کے علاوہ کچھ بھی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘
امریکہ نے یوکرین کی جانب سے پیش کی جانے والی ان رپورٹس کو ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
غزہ شہر کے مشرقی حصے میں ایک کثیر المنزلہ رہائشی عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے میں بچوں سمیت کم از کم 29 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام سول ڈیفنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’اسرائیلی جنگی طیاروں نے منگل کی صبح شیجیا کے علاقے میں الحواشی مسجد کے قریب علاقے کو نشانہ بنایا۔‘
ابتدائی طور پر ایجنسی کی جانب سے جاری کی جانے والی تفصیلات میں بتایا گیا کہ 23 افراد ہلاک ہوئے ہیں لیکن اس نے متنبہ کیا ہے کہ اس کے پہلے امدادی اہلکار ملبے تلے دبے دو درجن افراد کی تلاش کر رہے ہیں۔ شام کو اس نے اعلان کیا کہ 15 لاشیں برآمد کی گئی ہیں، تاہم انھوں نے ہلاکتوں کی تازہ ترین تعداد نہیں بتائی۔
تاہم اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ’اُن کی جانب سے حماس کے ایک اہم مرکز کو نشانہ بنایا گیا جو علاقے میں حملوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کا ذمہ دار تھا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں جن میں ’درست ہتھیاروں‘ کا استعمال بھی شامل ہے۔
اسرائیلی فوج نے حماس پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ ’وہ جان بوجھ کر شہری آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرکے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔‘
تاہم اسرائیلی فوج کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ اس حالیہ حملے میں حماس کی ایک سینئر شخصیت کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
شیجیا کی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ’چھوٹے بچوں کی دھول سے ڈھکی لاشوں کو امدادی کارکن ملبے سے نکال رہے ہیں۔‘
26 سالہ ایوب سلیم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’منگل کی صبح تباہ ہونے والی رہائشی عمارت کے ارد گرد کا علاقہ خیموں، بے گھر افراد اور دیگر رہائشی مقامات سے بھرے ہوئے ہیں۔‘
٭ جنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں کے پیچھے چھپی نتن یاہو کی حکمت عملی اور نیا امریکی منصوبہ
ان کا کہنا تھا کہ ’اس علاقے کو ’متعدد میزائلوں‘ سے نشانہ بنایا گیا اور ’چھروں نے چار سمتوں میں پرواز کی اور متعدد لوگوں کو نقان پہنچایا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مزائل حملوں کی وجہ سے علاقے میں پھیل جانے والی دھول اور مٹی کی وجہ سے کُچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا، صرف لوگوں کی چیخیں سُنائی دے رہی تھیں اور یہ سب ایک ہولناک منظر پیش کر رہا تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہAFP
حماس نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ’خونی قتل عام‘ کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے اسرائیلی فوج کی جانب سے علاقے کے بیشتر مقامات کو خالی کرنے کا حکم دیے جانے کے بعد شیجیا کے ہزاروں باشندے یہاں سے نقل مکانی کر گئے تھے اسرائیلی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ وہ ’دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے‘ کو تباہ کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے والی ہے۔‘
لیکن رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ’بدھ کے روز جس علاقے پر بمباری کی گئی ہے وہ علاقہ انخلا کے سامنے آنے والا حکم نامہ میں درج نہیں تھا، اس لیے بہت سے خاندان وہاں رہ گئے تھے۔‘
ایک رہائشی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ بے گھر افراد کے لئے ایک محفوظ علاقہ ہے، پھر بھی اسرائیلی فوج کی جانب سے اسے میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔‘
شیجیا کے ایک بزرگ شہری نے بی بی سی عربی کے غزہ لائف لائن پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بچوں کو کیوں مارا گیا؟ کیا وہ اسرائیلی فوج پر راکٹ فائر کرتے ہیں؟‘
اس سے قبل منگل کے روز غزہ کی حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں کم از کم 33 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘
18 مارچ کو حماس کے خلاف اسرائیل کی فضائی اور زمینی مہم دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 1،482 تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اُن کے طیاروں نے گزشتہ روز غزہ بھر میں دہشت گردوں کے 45 سے زائد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جن میں ہتھیار بنانے کے مقامات اور راکٹ لانچر چلائے جانے والے مقامات شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ تین ہفتوں کے دوران مزید تین لاکھ 90 ہزار افراد غزہ میں بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے دو تہائی علاقے کو اسرائیلی فوج نے ’نو گو زون‘ قرار دیا ہے یا انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ڈومینیکن ریپبلک کے دارالحکومت سینٹو ڈومنگو میں نائٹ کلب کی چھت گرنے سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 184 تک جا پہنچی ہے تاہم 150 سے زائد افراد اس حادثے میں زخمی ہوئے ہیں۔
مرنے والوں میں ایک صوبائی گورنر اور سابق میجر لیگ بیس بال کے کھلاڑی اوکٹیو ڈوٹیل بھی شامل ہیں۔ 51 سالہ ڈوٹیل ملبے سے نکالے جانے کے بعد ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئے۔
حادثے کے وقت سینکڑوں لوگ کلب میں موجود تھے۔ تقریباً 400 امدادی کارکن اب بھی زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کر رہے ہیں جبکہ ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
اس حادثے کے بعد سے اب تک تو کسی کو بھی ملبے سے زندہ نہیں نکالا جا سکا ہے تاہم امدادی کارروائیوں میں مصروف اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ’ملبے میں اب بھی زندہ بچ جانے والوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ڈائریکٹر خوان مینوئل مینڈیز کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی چیز سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہاں ملبے کے ایک ایک انچ پر جانے کی کوشش میں ہیں تاکہ اس آفت میں پھنسے ہوئے لوگوں کے اہل خانہ کوئی اچھی خبر دی جا سکے۔‘
یہ واقعہ منگل کے روز جیٹ سیٹ نائٹ کلب میں مقبول گلوکار روبی پیریز کے کنسرٹ کے دوران پیش آیا۔ بتایا جا رہا ہے روبی پیریز بھی ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ڈومینیکن ریپبلک کے صدر لوئس ابینادر نے اس حادثے پر تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہEPA
دی اکانومسٹ کے جیو پولیٹیکس ایڈیٹر ڈیوڈ رینی کے مطابق چین ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے محصولات عائد کیے جانے کے بعد بہت احتیاط سے منصوبہ بندی کر رہا ہے اور اس کے ہتھیاروں میں قلیل مدتی اور طویل مدتی جوابی اقدامات موجود ہیں۔
رینی نے بی بی سی کے نیوز آور پروگرام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بیجنگ نے ٹرمپ کی صدارتی مہم کے دوران ہی یہ اشارے دیا تھا کہ وہ چین کو نشانہ بنانے جا رہے ہیں۔‘ رینی حال ہی میں چین کے دارالحکومت میں تھے جہاں انھیں چینی حکام اور سکالرز سے بات کرنے کا موقع ملا۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’چین منصوبہ بندی کرنا پسند کرتا ہے۔ چین طویل مدتی یعنی پانچ سال تک کے منصوبوں کو پسند کرتا ہے۔ اس کے لیے اس تجارتی لین دین کرنے والے امریکی صدر سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہے۔‘
دی اکانومسٹ کے جیو پولیٹیکس ایڈیٹر ڈیوڈ رینی کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک طویل عرصے سے بہت احتیاط سے اس ساری صورتحال کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ (چین) مختصر مدت کے لیے امریکی اقدامات سے نمٹنے کے لیے مخصوص دفاعی قسم کی تیاریاں کر رہا ہے اور برآمدات پر اس ناقابل یقین حد تک زیادہ انحصار سے دور اپنی پوری معیشت کو از سر نو تشکیل دینے اور دوبارہ متوازن کرنے کی طویل مدتی کوششیں کر رہا ہے۔‘
رینی کہتے ہیں کہ ’امریکہ سے سویابین پر چینی محصولات کا معاملہ پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ یہ ٹیکس امریکہ کے وسط مغرب میں ٹرمپ کے حمایتی اڈے کو ہدف بناتا ہے اور بیجنگ اسے برازیل اور ارجنٹائن سے حاصل کر سکتا ہے۔‘
رینی کہتے ہیں کہ ’بیجنگ کی سوچ کا محور اس وقت یہ ہے کہ وہ کون سے ایسے اقدامات ہیں کہ جو ٹرمپ کے ووٹروں کو مُشکل میں ڈال کر ٹرمپ کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
چین نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں ایک اور شکایت درج کرائی ہے جس میں ٹرمپ پر ’غنڈہ گردی‘ اور دھمکانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
چینی وزارتِ تجارت نے بدھ کے روز کہا کہ ’واشنگٹن ٹیرف میں 50 فیصد اضافہ کر کے غلطی پر غلطح کر رہا ہے۔ امریکی اقدامات بلکہ اُن کی جانب سے ’غنڈہ گردی‘ کو اجاگر کرتے ہیں امریکہ بس دیگر بڑی معشیتوں پر دھونس جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
وزارتِ تجارت کے ترجمان نے کہا کہ ’بیجنگ ڈبلیو ٹی او کے قوانین کے مطابق اپنے جائز حقوق اور مفادات کا مضبوطی سے تحفظ کرے گا اور کثیر الجہتی تجارتی نظام اور بین الاقوامی اقتصادی و تجارتی نظام کو مضبوطی سے برقرار رکھے گا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا چین 125 فیصد امریکی ٹیرف کو برداشت کر سکتا ہے؟اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ صرف ایک ہفتہ قبل چین پر امریکی محصولات 20 فیصد تھے۔
اس کے بعد سے محصولات 104 فیصد اور اب ٹرمپ کے تازہ ترین اعلان کے بعد چین پر امریکہ کی جانب سے عائد کیے جانے والے محصولات 125 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔
اگرچہ یہ اعداد و شمار انتہائی حیران کن ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اُن چینی کاروباری اداروں کے لیے حد سے بہت زیادہ ہیں کہ جو امریکہ کو سامان برآمد کرکے منافع کمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
آکسفورڈ اکنامکس کنسلٹنسی سے تعلق رکھنے والی لوئس لو کہتی ہیں کہ ’ان سطحوں پر اضافی ٹیرف سے ہونے والے نقصان میں بہت حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔‘
کارنیل یونیورسٹی میں تجارتی پالیسی میں مہارت رکھنے والے پروفیسر ایشور پرساد کہتے ہیں کہ ’کمپنیوں کو چینی صارفین کو سامان فروخت کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے کیونکہ دیگر ممالک پہلے ہی چینی برآمدات کے سیلاب کو روکنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’برآمدات چین کی معیشت کے لئے بہت اہم ہیں، لہذا یہ پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ کھپت کو فروغ دیں۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بدھ کی شب پولیس موبائل پر حملے میں تین اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگئے۔
پولیس حکام کے مطابق یہ واقعہ بدھ کی شب نیو سریاب پولیس سٹیشن کی حدود میں پیش آیا۔
نیو سریاب پولیس کے ایک اہلکار نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ مستونگ روڈ پر پولیس موبائل میں چار اہلکار معمول کی گشت پر تھے کہ ایک ہوٹل کے قریب دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار مسلح افراد نے ان پر حملہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چاروں اہلکار حملے کی زد میں آئے۔
ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ محمد بلوچ نے بتایا کہ حملے میں تین اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔
ہلاک ہونے والے تینوں اہلکاروں کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ اس واقعے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔
حکومتِ بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور واقعے کے حوالے سے تحقیقات کے لیے شواہد اکھٹے کیے جارہے ہیں۔
دراِیں اثنا وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے سریاب روڈ پر پولیس موبائل پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’واقعے میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ریاست کمزور نہیں بلوچستان میں امن کو تباہ کرنے والوں کو سخت ترین جواب دیا جائے گا اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر ٹیرف 125 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ جو کہ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
یہ معلومات اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر شیئر کرتے ہوئے ٹرمپ نے چین پر عالمی منڈیوں کا احترام نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’چین کی جانب سے عالمی منڈیوں کے احترام میں کمی کی بنیاد پر میں امریکا کی جانب سے چین پر لگائے گئے ٹیرف کو بڑھا کر 125 فیصد کر رہا ہوں، جو فوری طور پر نافذ العمل ہو جائے گا۔ امید ہے کہ چین جلد ہی سمجھ جائے گا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کو معاشی طور پر مسلسل نقصان پہنچانے کے دن ختم ہو چکے ہیں جو کہ قابل قبول نہیں ہے۔‘
اس کے علاوہ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ 90 دن کے ’توقف‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان 90 دنوں کے دوران چین کے علاوہ تمام ممالک پر یکساں 10 فیصد ریسی پروکل ٹیرف عائد کیا جائے گا، یا دیگر مُمالک کو رعایت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
امریکی وزیرِ خزانہ نے کہا ہے کہ کینیڈا اور میکسیکو، جو پہلے کچھ اشیا پر 25 فیصد تک ٹیرف عائد کیا گیا تھا کو بھی اب 10 فیصد کے بیس لائن ٹیرف میں شامل کر دیا گیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا یورپی یونین بھی اس رعایت میں شامل ہے یا نہیں۔
اس سے قبل چین نے امریکہ کی جانب سے عائد کیے جانے والے 104 فیصد ٹیرف کا جواب دیتے ہوئے امریکہ پر لگائے جانے والے ٹیرف کو 50 فیصد بڑھا کر 84 فیصد کر دیا تھا۔
چین کی وزارت خزانہ نے امریکہ سے آنے والی تمام اشیا پر یہ اضافی ٹیرف لگانے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خاتون رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کے مطالبے کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پیش رفت نہ ہونے پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام احتجاجی دھرنا لک پاس کے مقام پر13ویں روز بھی جاری رہا۔
بی این پی کے سربراہ سردار اخترمینگل کی سربراہی میں اس دھرنے کے شرکا کو 28 مارچ کو کوئٹہ پہنچنا تھا لیکن سرکاری حکام کی جانب سے شاہراہوں اور راستوں کو بند کرنے کی وجہ سے انھوں نے وہاں دھرنا دیا۔
دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب آنے سے روکنے کے لیے نہ صرف سرکاری حکام کی جانب سے کوئٹہ اور کراچی کے درمیان شاہراہ کو لک پاس ٹنل پر مکمل طور پر بند کیا گیا بلکہ تین دیگر متبادل راستوں پر بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
ان رکاوٹوں کی وجہ سے دو شاہراہوں کوئٹہ اور کراچی اور کوئٹہ تفتان شاہراہ پر عام لوگوں کو سفر کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تاہم چھ اپریل کے بعد سے دشت کے متبادل راستے سے گاڑیوں کو آمدورفت کے لیے چھوڑ دیا گیا لیکن ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے لک پاس سے مین ہائی وے سے کوئٹہ شہر تک آدھے سے پونے گھنٹے کا فاصلہ دشت کے راستے گھنٹوں میں طے ہورہا ہے۔
اگرچہ چھ اپریل کے بعد لانگ مارچ کے شرکا نے تاحال دوبارہ کوئٹہ کی جانب مارچ کا اعلان نہیں کیا ہے تاہم اس کے باوجود دھرنے کے شرکا کی کوئٹہ کی جانب مارچ کے خدشے کے پیش نظر کوئٹہ اور لک پاس کے درمیان پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات ہے۔
28 مارچ سے لیکر اب تک دھرنے کے شرکا اور حکومت کے درمیان دو مرتبہ باضابطہ مذاکرات ہوئے لیکن ڈیڈلاک ختم نہیں ہوسکا۔
،تصویر کا ذریعہ@pmln_org
بلوچستان کے مسئلے پر ڈاکٹر مالک اور نواز شریف کی ملاقات
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے بعد بلوچستان میں جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹرمالک بلوچ کی قیادت میں نیشنل پارٹی کے ایک وفد نے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف سے لاہور میں ملاقات کی۔
جاتی امرا میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدی نے بتایا کہ بلوچستان میں گزشتہ دنوں سے پیدا شدہ پیچیدہ صورتحال ، سیاسی و معاشی عدم استحکام، پسماندگی سمیت دیگر اہم قومی و سیاسی نوعیت کے مسائل پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے میاں نوازشریف کو بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے مختلف تجاویز دیں اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچستان میں دیگر سیاسی کارکنوں کی گرفتاری اور ان کی رہائی کے لیے بی این پی مینگل کے احتجاجی لانگ مارچ اور دھرنا کے حوالے سے مذاکرات میں پیدا ہونے والی ڈیڈ لاک کی صورتحال سے آگاہ کیا اور انھیں بلوچستان کے سیاسی و دیگر مسائل کے حل کرنے کے حوالے سے کردار ادا کرنے کے لیے گزارشات کیں۔
نیشنل پارٹی کے رہنما نے کہا کہ میاں نواز شریف نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کردار ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور وزیراعظم اور دیگر حکام سے مشاورت سے اقدامات اٹھانے کی بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ میاں نوازشریف اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان کے معاملات کو لمحہ فکریہ قرار دیتے ہوئے اس کے فوری حل پر اتفاق کیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
چین کی وزارتِ خزانہ نے امریکہ سے درآمد ہونے والی تمام اشیا پر 84 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
چین کی وزارت حزانہ کے مطابق ان نئے محصولات کا اطلاق 10 اپریل سے ہو گا۔
چین کی جانب سے امریکہ پر 84 فیصد ٹیرف کے اعلان کے بعد پہلے سے گراوٹ کا شکار ہونے والی یورپی کمپنیاں مزید نیچے چلی گئی ہیں۔
دوسری جانب چین کے امریکی درآمدات پر 84 فیصد محصول عائد کرنے کے اعلان کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے در عمل میں کاروباری اداروں کو ترغیب دی ہے کہ یہ امریکہ منتقل ہونے کا درست وقت ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر لکھتے ہوئے کہا کہ ’یہ آپ کی کمپنی کے لیے امریکہ میں منتقل کرنے کا بہترین وقت ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’زیرو ٹیرف اور تقریباً فوری طور پر الیکٹریسٹی یا انرجی کے کنکشنز اور منظوری، جہاں نہ ماحولیات کے باعث تاخیر نہ انتظار۔ پھر دیر نہ کریں۔ ‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’چین کا ردعمل امریکی کمپنیوں کے لیے دھچکہ ہے‘: سٹیفین مک ڈونیل کا تجزیہ
چین کی وزارتِ خزانہ کے حالیہ اعلان کے مطابق امریکہ سے آنے والی تمام اشیا پر 34 فیصد سے بڑھا کر 84 فیصد ٹیرف کا اطلاق کیا گیا ہے۔
یقیناً یہ ہر اس امریکی کمپنی کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے جو اس وسیع منڈی میں سامان فروخت کرنا چاہتے ہیں اور بلاشبہ یہ خبر منڈیوں میں مزید ہلچل پیدا کرے گی اور خاص طور پر امریکہ میں۔
ممکن ہے بیجنگ کی جانب سے مزید اقدامات بھی سامنے آئیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی حکومت پیچھے ہٹنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
بیجنگ پہلے ہی خبردار کر چکا تھا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی اشیا پر امریکی ٹیرف کو 104 فیصد تک بڑھانے کا ارادہ پایہ تکمیل تک پہنچایا تو چین سخت جوابی اقدامات کرے گا اور اب ہم اس ردِعمل کی شروعات دیکھ رہے ہیں۔
چین میں ریاستی میڈیا کے رپورٹرکو سوشل میڈیا پر ان ممالک کا مضحکہ اڑاتے دیکھا جا رہا ہے جو واشنگٹن سے ٹیرف ختم کرنے کی التجا کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سب ٹرمپ کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔
اس کے برعکس بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ کثیرالجہتی تجارتی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ جہاں قوانین سب پر یکساں لاگو ہوتے ہوں۔
اس موقف پر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک مثلا تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویتنام کی حمایت مل سکتی ہے جنھیں امریکی ٹیرف کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق حکومت کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے سات رکنی بینچ میں شامل جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر کسی کو فئیر ٹرائل کا حق دیتے ہیں اس میں مسئلہ کیا ہے؟ ادارہ خود شکایت کنندہ ہے، وہ کیسے کیس سن سکتا ہے؟
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس میں سوال اٹھایا کہ کیا وفاق اور صوبوں کو اپنی عدالتوں پر اعتماد نہیں ہے؟ اگر عدالتیں ہی ختم ہوگئیں تو پھر کیا ہوگا؟
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق وفاق کی اپیل کی سماعت کی۔
آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندو خیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر، جسٹس شاہد بلال بینچ کا حصہ تھے۔
دوران سماعت اٹارنی جزل منصور اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پتا چلا ہے کہ عدالت نے مجھے طلب کیا تھا، جب کورٹ مارشل ٹرائل ہوتا ہے تو اس کا پورا طریقہ کار ہے، ملٹری ٹرائل کیسے ہوتا ہے یہ پورا ریکارڈ عدالت کے پاس ہے، اگر کسی کو سزائے موت ہوتی ہے تب تک اس پر عمل نہیں ہوتا جب تک اپیل پر فیصلہ نا ہو جائے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ ہم اپیل کی بات اس لیے کر رہے ہیں کہ کیونکہ یہ بنیادی حق ہے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ خواجہ حارث دلائل مکمل کریں تو ہی مزید بات کی جائے گی۔
اٹارنی جنرل کے مطابق کلبھوشن کیس میں ایک مسئلہ اور تھا۔ سیکشن تھری میں فئیر ٹرائل اور وکیل کا حق ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے آئین میں بنیادی حقوق دستیاب ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت وہ مسلہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا جب فل کورٹ میں یہ معاملہ آیا تھا تو وہ بھی 18ویں ترمیم کے بعد آیا تھا، عدالت نے ہی تین آپشنز دیے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے وہ تین آپشنز موجود ہیں، اپیل کا حق ہے یا نہیں یہ بتائیں۔ بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اس وقت ہمارا فوکس اپیل پر نہیں تھا۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ ہم پر تو لوگ فیصلوں کی وجہ سے صرف پچاس فیصد اعتماد کرتے ہیں، اگر عدالتیں ہی ختم ہوگئیں تو پھر کیا ہوگا؟
اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا جوڈیشل سسٹم کا حصہ آپ بھی ہیں میں بھی ہوں، ہم نے مل کر اس سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرنے والوں کو تو قانون شہادت کا علم ہی نہیں ہوگا، ملٹری کورٹس میں شواہد کو غلط بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے آپ کیسے انصاف اور شفاف ٹرائل کی بات کر رہے ہیں، ملٹری کورٹس میں کلاشنکوف رکھ کر تو فیصلہ کیا جاتا ہے، حکومت سویلینز کو اپیل کا حق دے گی تو کونسا مسئلہ پیدا ہوگا؟
دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے سویلین کے کورٹ مارشل کے لیے آپ کو آئینی ترمیم کرنی چاہئے تھی۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا بات یہ نہیں کہ جرم کتنا سنگین ہے، ہوسکتا ہے کہ سخت اور خوفناک جرم ہو، اگر دہشت گرد بھی جرم کرتا ہے تو کیا بنیادی حقوق ہوتے ہیں یا نہیں؟
خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا فوجی اہلکاروں کے بھی بنیادی حقوق معطل ہوتے ہیں، کیا وہ پاکستانی شہری نہیں؟
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے فوج کے ممبران تو دانستہ طور پر فوج میں شمولیت کرتے ہیں ان کو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق معطل ہوں گے، بنیادی حقوق کا معطل ہونا تو جرم سے منسلک ہے، یہ بھی فوجی چوائس ہوتی ہے کہ وہ جرم کرے یا نہ کرے۔
عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر کل دوبارہ سماعت ہو گی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق حکومت کی اپیل پر سماعتوں کا پس منظر
خیال رہے کہ نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور فوجی تنصیبات سمیت کئی سرکاری عمارتوں پر حملے کیے گئے تھے۔
نو مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق پارلیمان نے قرارداد منظور کی تھی جس کے بعد وفاقی حکومت نے ان افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی منظوری دی تھی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اکتوبر 2023 میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے عام شہریوں کے خلاف مقدمات سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں اور چھ ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل کے بعد جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے دسمبر 2024 میں معاملے کی سماعت کے بعد فوجی عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلے سپریم کورٹ میں شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے حوالے سے زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انھیں سزا سنا کر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
،تصویر کا ذریعہ@GovtofPakistan
پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کے فروغ اور نئے ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کے لیے اعلی سطحی وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعظم کی ہدایات پر اس وفد میں معروف کاروباری شخصیات اور ایکسپورٹرز بھی موجود ہوں گے۔
وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت ملکی برآمدات میں اضافے اور امریکہ کی جانب سے درآمدات پر لگائے گئے نئے ٹیرف پر جائزہ لینے کے لیے اجلاس بدھ کے روز اسلام آباد میں منعقد ہوا.
یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد ممالک سے امریکہ میں درآمد ہونے والی اشیا پر نئے ٹیرف (ٹیکس) کے نفاذ کا اعلان کیا تھا اور ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کو بھی شامل کرتے ہوئے اس کی امریکہ برآمد کی گئی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا کہا گیا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان پر نئے ٹیرف کا نفاذ ایک ایسے وقت میں ہو گا جب پاکستان کی معیشت کو مختلف مسائل کا شکار ہے جس میں سے ایک درآمدات میں اضافہ بھی ہے۔ پاکستان کو زیادہ درآمدات کی وجہ سے ایک بڑے تجارتی خسارے کا سامنا ہے اور اسے کم کرنے کے لیے برآمدات میں بڑے اضافے کی ضرورت ہے۔
بدھ کے روز وزیرِ اعظم کو اجلاس میں امریکہ کی جانب سے لگائے گئے نئے ٹیرف پر، اسٹئیرنگ کمیٹی اور ورکنگ گروپ کی رپورٹ اور مستقبل کا مجوزہ لائحہ عمل پیش کیا گیا.
وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیہ کے مطابق وفد کو امریکہ کی جانب سے درآمدات پر لگائے گئے نئے ٹیرف پر مذاکرات کے بعد مستقبل کے لیے باہمی طور پر مفید لائحہ عمل طے کرنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق اس اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ امریکہ پاکستان کے تجارتی تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں. حکومت، امریکہ کے ساتھ تجارتی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کی خواہاں ہے.
اجلاس کو مختلف متبادل لائحہ عمل پیش کئے گئے. اجلاس کو بتایا گیا کہ امریکہ میں پاکستانی سفارتخانہ مسلسل امریکی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے.
وزیرِ اعظم کی امریکہ کے ساتھ اس حوالے سے مذاکرات کیلئے وفد کی تشکیل کے دوران معروف کاروباری شخصیات اور برآمد کندگان کی شمولیت یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
بدھ کے روز جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے خیبرپختونخوا میں 2005 کے زلزلے سے متاثرہ سکولوں کی بحالی کے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت خیبرپختونخوا کے سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری پلاننگ اینڈ ورکس عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ بچے درختوں کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، حکومتی سطح پر امور کی انجام دہی ہونی چاہیے۔
خیبر پختونخوا کے سیکرٹری تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ زلزلے سے تین ہزار سے زائد سکول متاثر ہوئے تھَے۔
ان کا کہنا تھا کہ سکولوں کی تعمیر کیلئے فنڈز کے کے مسائل درپیش ہیں۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے محکمے کو فنڈز نہیں دیے جا رہے۔
خیبر پختونخوا کے سیکرٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ چار اپریل کو صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد فنڈز دیے جا چکے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس سے سوال کیا کہ کیا فنڈز جاری ہو چکے ہیں۔
سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس نے فنڈز ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ایک ارب 23 کروڑ روپے کے فنڈز جاری ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق 49 سکولوں کی بحالی کا کام رہتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ سکولوں کی بحالی کے لیے ڈبل یا تین شفٹوں میں کیوں کام نہیں کیا جاتا جیسے انڈر پاس یا بائی پاس تعمیر کرتے وقت کیا جاتا ہے۔
عدالت نے سکولوں کی بحالی کے لیے مکمل پلان طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
تقریباً 20 سال قبل آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو گئے تھے۔ اکتوبر 8 کے زلزلے میں خیبر پختونخوا میں تین ہزار سے زائد سکولوں کو نقصان پہنچا تھا۔