پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایل او سی پر امن کا وہ بند دروازہ جو چھ سال بعد دو لاشوں کے لیے کُھلا

امن کا پُل

،تصویر کا ذریعہPakistan Army

  • مصنف, ماجد جہانگیر
  • عہدہ, بی بی سی ہندی

انڈیا اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر تعمیر کردہ ’کمان امن سیتو‘ کو جسے ’فرینڈشپ بریج‘ بھی کہا جاتا ہے، حال ہی میں چھ سال بعد دو لاشوں کی انڈیا واپسی کے لیے کھولا گیا۔

یہ پل انڈیا کے زیرِِ انتظام کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے علاقے اوڑی میں ایل او سی پر واقع ہے جس کی ایک جانب انڈین فوج اور دوسری جانب پاکستانی فوج تعینات ہے۔

اسے کھولنے کی ضرورت اس وقت پڑی جب اوڑی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کی دریائے جہلم میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے اور دریا کی تُند و تیز لہریں ان دونوں کی لاشیں بہا کر پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر لے آئیں جہاں کئی دنوں تک جاری رہنے والی تلاش کے بعد دونوں کی شناخت مُمکن ہو سکی۔

لاشوں کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر واپس بھجوانے کے لیے دونوں ممالک کی افواج کے درمیان بات چیت ہوئی جس کے بعد چھ سال سے بند ’کمان امن سیتو‘ یعنی ’امن کا پُل‘ کے دروازے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔

معاملہ تھا کیا؟

امن کا پُل

،تصویر کا ذریعہIndian Army

مذکورہ لڑکا اور لڑکی پانچ مارچ 2025 کو دریا میں گرے تھے اور مقامی پولیس اور ایس ڈی آر ایف کی ٹیم نے کئی دنوں تک دونوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں مل سکی اور کامیابی ہوتی بھی کیسے کیونکہ دریا ان کی لاشیں بہا کر سرحد پار لے جا چکا تھا۔

ہلاک شدگان کی شناخت 22 سالہ یاسر حسین شاہ اور 21 سالہ عائشہ بانو کے طور پر کی گئی۔

ان میں سے عائشہ بانو کی لاش پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چناری سیکٹر سے 19 مارچ کو ملی تھی اور مقامی لوگوں کی اطلاع پر انتظامیہ نے لاشُ کو تحویل میں لے لیا تھا۔

مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اس کے دو دن بعد یعنی21 مارچ کو یاسر کی لاش چناری سیکٹر کے قریب چکوٹھی کے علاقے سے ملی۔

لاشوں کی برآمدگی کی اطلاع ملنے کے بعد انڈیا اور پاکستان کی افواج نے ایک دوسرے سے رابطہ کیا اور انھیں اہلِ خانہ کے پاس واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

22 مارچ 2025 کو پاکستانی فوج نے دونوں لاشوں کو انڈین فوج کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد انتظامیہ اور پولیس کی موجودگی میں دونوں کی میتوں کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔

انڈیا کے فوجی حکام کی جانب سے جاری ہونے والے ایک تفصیلی بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’20 مارچ 2025 کو فوج کے جوانوں نے دریائے جہلم میں تیرتی ہوئی ایک لاش دیکھی اور اسے دریا سے نکالنے کی بھرپور کوشش بھی کی مگر دریائے جہلم کی تیز لہروں نے انھیں ایسے کرنے کا موقع نہیں دیا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’لاش بہہ کر لائن آف کنٹرول کے پار پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے چکوٹھی سیکٹر میں پہنچ گئی۔ اس کے بعد فوج نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستانی حکام سے رابطہ کیا اور لاشوں کو نکالنے کی کوششیں شروع کیں۔ دونوں لاشیں مل جانے کے بعد فوج نے انھیں اہل خانہ کے حوالے کردیا۔‘

لواحقین کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟

امن کا پُل

،تصویر کا ذریعہPhoto by Firdous Nazir/NurPhoto via Getty Images

لڑکی کے والد محبت خان نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ’ان کی بیٹی واقعے کے دن صبح 10 بجے گھر سے نکلی تھی۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’میری بیٹی عائشہ کی والدہ نے اسے جانے سے روکا، لیکن وہ راضی نہیں ہوئی۔ جب وہ کافی دیر تک واپس نہیں آئی تو اُن کی تلاش میں میرا بیٹا اُسے ڈھونڈنے نکلا۔ میرے بیٹے نے عائشہ کو یاسر کے ساتھ دیکھا۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا۔‘

محبت خان نے دونوں کے درمیان تعلق پر کہا کہ وہ اس بارے میں کُچھ نہیں جانتے اور نہ ہی انھیں اس بارے میں کوئی اندازہ تھا۔ مرنے والے لڑکے یعنی یاسر کے گھر والوں نے یہ بھی کہا کہ انھیں واقعے سے پہلے ان کے درمیان کسی ممکنہ تعلق کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔

ان کے ایک قریبی رشتہ دار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم ان کے رشتے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ واقعے کے دن یاسر صبح تک گھر پر ہی تھا۔ تاہم وہ گھر سے کب نکلا اور یہ سب کیسے ہوا اس بارے میں ہمیں کُچھ نہیں پتہ۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا ’اب کم از کم اس بات کا تو سکون ہے کہ اب ہلاک ہوجانے کے بعد ہی سہی مگر وہ اپنے گھر واپس تو آیا ہے اب ہم نے اُسے گھر کے قریب ہی دفن کر دیا ہے۔‘

اس معاملے میں پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات کے مطابق یہ ’محبت کا معاملہ لگتا ہے۔‘

اوڑی کے ایس ڈی پی او طارق احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب تک سامنے آنے والے حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ معاملہ خاموش ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم معاملے کی وضاحت تو تحقیقات کے بعد ہو گی۔‘

’کمان امن سیتو‘ یعنی ’امن کا پُل‘ کب بند ہوا؟

کمان امن سیتو کو پہلی بار سنہ 2005 میں سرحد کے دونوں طرف رہنے والے خاندانوں کی نقل و حرکت کے لیے کھولا گیا تھا۔ اس پل کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا آغاز بھی سنہ 2008 میں ہوا تھا۔

اسے ’امن کا پل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سرحد کے دونوں طرف ہزاروں خاندان آباد ہیں لیکن ان خاندانوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں سے اجازت لینی پڑتی ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے بعد سنہ 2019 میں ’کمان امن سیتو‘ یعنی ’امن کا پُل‘ کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ فروری سنہ 2019 میں پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا جس میں تقریباً 40 جوان مارے گئے تھے۔

اس حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے تعلقات میں پہلے سے موجود تناؤ میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔

اس کے بعد سے اس پل کے ذریعے لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت بھی روک دی گئی تھی۔

انڈیا کی وزارت داخلہ کی جانب سے اُس وقت جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ’اس راستے یعنی امن کے پُل کوہتھیار، منشیات اور جعلی کرنسی بھیجنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘