جعفر ایکسپریس: یرغمالیوں اور خودکُش حملہ آوروں کی موجودگی میں پیچیدہ فوجی آپریشنز کیسے اور کن بنیادوں پر کیے جاتے ہیں؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, فرحت جاوید
- عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
منگل کی دوپہر بلوچستان کے علاقے بولان پاس کے قریب ’جعفر ایکسپریس‘ پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملے کے لگ بھگ 36 گھنٹوں بعد پاکستانی فوج کی جانب سے بدھ کو رات گئے یرغمالی مسافروں کو بازیاب کروانے کی غرض سے کیے گئے آپریشن کے مکمل ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔
جب پاکستانی فوج کی جانب سے کلیئرنس آپریشن کے خاتمے اور ’تمام مغوی مسافروں کی بازیابی‘ کا اعلان کیا گیا تو بہت سے افراد نے اس آپریشن کی تکمیل میں تاخیر سے متعلق سوالات کیے، جبکہ فوج اور حکومت کے عہدیداروں کی جانب سے اس ضمن میں وضاحتیں بھی دی گئی ہیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں یرغمالی صورتحال کے باعث بہت احتیاط سے یہ آپریشن کرنا پڑا تاکہ کسی بھی مسافر کو نقصان نہ ہو۔
فوج کے ترجمان نے اس دوران میزبان سے گزارش کر کے ایک ویڈیو بھی چلوائی۔ انھوں نے کہا کہ ’ویڈیو میں دیکھیں تو آپ کو تین مختلف رنگوں کے تین بلاک نظر آئیں گے، یہ وہ جگہ ہے جس کے بارے میں ہم آپ کو سکیورٹی ذرائع سے خبر بھی دے رہے تھے کہ انھوں (شدت پسندوں) نے ٹولیوں کے اندر مسافروں کو بٹھا رکھا تھا۔‘
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس کے درمیان میں اُن کے ساتھ خودکش بمبار بیٹھے ہوئے تھے، یہی وجہ تھی کہ ہم بہت احتیاط سے اور آہستگی سے جا رہے تھے۔‘
فوج کے ترجمان نے بتایا کہ ’بدھ کو فائنل کلئیرنس آپریشن میں ایس ایس جی کے جوانوں نے خودکش بمباروں کو ہلاک کیا اور ایس ایس جی کے کمانڈوز کی کارروائی کے بعد یرغمال مسافر وہاں سے بھاگے۔‘
اسی طرح پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ آپریشن 36 گھنٹوں پر محیط اس لیے رہا کیونکہ مغویوں کی صورتحال ہو تو اس میں سے بغیر کسی جانی نقصان کے نکلنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ ہماری فورسز کی مہارت ہے کہ انھوں نے آپریشن کے دوران کوئی جانی نقصان نہیں ہونے دیا۔‘
ان بیانات کے بعد یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر یرغمالیوں کی موجودگی کے باعث آپریشنز میں تاخیر کیوں ہوتی ہے اور کیا ایسی صورتحال میں ایک ریگولر فوجی آپریشن ممکن ہوتا ہے؟
بی بی سی نے اس بارے میں سابق فوجی اہلکاروں سے بات کی جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ ایسے کسی بھی واقعے، جس میں شہریوں کو یرغمال بنایا گیا ہو، میں ہونے والی فوجی کارروائی مکمل طور پر مختلف طریقے سے کی جاتی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ فوج کو ایک ایسا آپریشن کرنا پڑے جس میں یرغمالیوں کی زندگی بھی بچانی ہو۔ ایسے آپریشنز میں ریگولر ٹروپس یعنی عام فوجی دستوں کی بجائے افواج کے ایس ایس جی کمانڈوز حصہ لیتے ہیں۔
سابق افسران کے مطابق پاکستان آرمی کے سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے اینٹی ٹیررسٹ یونٹ کی ’ضرار کمپنی‘ یرغمالیوں کی بازیابی اور انسداد دہشت گردی کے مشن میں مہارت رکھتی ہے اور انھوں نے ہی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی طرف سے ہائی جیک کی گئی اس ٹرین اور اس کے مسافروں کی بازیابی ممکن بنائی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک سابق ایس ایس جی اہلکار نے بتایا کہ ’یرغمالیوں کی بازیابی کے فوجی آپریشنز انتہائی پیچیدہ اور حساس نوعیت کے ہوتے ہیں۔‘ ان کا مزید کہا تھا کہ اِن آپریشنز میں ’جدید انٹیلیجنس، محتاط حکمت عملی اور نہایت مہارت کے ساتھ فوجی کارروائی‘ شامل ہوتی ہے۔
اُن کے مطابق ’جب یرغمال بنانے کی کوئی کارروائی سامنے آتی ہے تو سب سے پہلے انٹیلیجنس ادارے جیسے کہ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی علاقے کا مکمل تجزیہ کرتے ہیں۔ پہلے یہ مشکل کام تھا اور مخبروں کی مدد سے کیا جاتا تھا، مگر اب ڈرون، سیٹلائٹ مانیٹرنگ نے بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔‘
اُن کے مطابق اِن ذرائع سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ علاقے کی نوعیت کیا ہے، دہشت گردوں کے پاس کتنے ہتھیار ہیں، وہ کہاں کہاں موجود ہیں اور یرغمالیوں کی صورتحال کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعض پیچیدہ صورتوں میں اگر ممکن ہو تو مذاکرات کی کوشش بھی کی جاتی ہے تاکہ یرغمالیوں کو بغیر فوجی کارروائی کے بازیاب کروایا جا سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن اگر مذاکرات ناکام ہو جائیں یا یرغمالیوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو تو پھر فوج ایک براہ راست آپریشن کی تیاری کرتی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اِن سابق فوجی افسر، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، نے بتایا کہ پاکستانی فوج کی ’ضرار کمپنی ان آپریشنز کی تیاری انتہائی مہارت کے ساتھ کرتی ہے۔ ہماری تمام پلاننگ کی بنیاد زیرو کیژویلٹی ہے یعنی کوئی ایک بندہ بھی ہلاک نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا ہمارا احتساب کا نظام بھی ہے اور ایک بھی یرغمالی کی جان چلی گئی تو طویل انکوائری بھگتنا پڑتی ہے اور اس منصوبہ بندی میں شامل تمام افراد جوابدہ ہوتے ہیں۔‘
لیکن ان افسران کے مطابق ایسے آپریشنز میں سکیورٹی فورسز کے لیے سب سے بڑا چیلنج اُس وقت پیش آتا ہے جب دہشت گردوں کی جانب سے ’یرغمالیوں کو انسانی ڈھال‘ کے طور پر استعمال کیا جائے۔
یاد رہے کہ سکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ جعفر ایکسپریس کے واقعے میں بھی شدت پسند یرغمالیوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کر رہے تھے۔
سابق فوجی اہلکار کے مطابق ’اس لیے آپریشن میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ فورسز کو انتہائی محتاط طریقے سے کارروائی کرنا پڑتی ہے تاکہ یرغمالیوں کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔‘
’بعض اوقات دہشت گرد یرغمالیوں کو دھمکی کے طور پر قتل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ فورسز کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ بعض معاملات میں حملے کے مقام پر خودکش بمبار موجود ہوتے ہیں یا بارودی سرنگیں بچھائی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے بم ڈسپوزل سکواڈ بھی آپریشن کے ساتھ ساتھ اس ایریا کو کلیئر کرتا ہے۔‘
سابق فوجی اہلکاروں سے اکٹھی کی گئی معلومات کے مطابق یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے کیے جانے والے فوجی آپریشنز میں سب سے پہلے علاقے کو مکمل طور پر گھیرے میں لیا جاتا ہے اور سنائپرز (ماہر نشانے بازوں) کو تعینات کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی خطرناک موومنٹ کو روکا جا سکے۔
ان کے مطابق اس کے بعد ضرار کمپنی کے اہلکار مخصوص مقامات سے اندر داخل ہونے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تاکہ دہشت گردوں کو فرار ہونے یا یرغمالیوں کو نقصان پہنچانے کا موقع نہ ملے۔ انھوں نے بتایا کہ حملے کے دوران فورسز بعض اوقات فلیش بینگز، سموک گرینیڈز اور صوتی دھماکوں کا استعمال بھی کرتی ہیں تاکہ دہشت گردوں کو الجھایا جا سکے اور یرغمالیوں کی محفوظ بازیابی ممکن ہو سکے۔
انھوں نے کہا کہ اس موقع پر خودکش بمباروں کو سب سے پہلے نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ وہ کوئی بڑا نقصان نہ پہنچا سکیں، جبکہ دیگر دہشت گردوں کو مارنے یا گرفتار کرنے کے بعد یرغمالیوں کو بحفاظت نکالا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی فوج کے مطابق جعفر ایکسپریس کے بازیابی کے آپریشن میں ایس ایس جی کے کمانڈوز، ایف سی اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت پاکستانی فضائیہ نے بھی حصہ لیا جبکہ ’آپریشن کے آغاز میں سب سے پہلے خودکش حملہ آوروں کو مارا گیا۔‘
پاکستان میں ماضی میں کئی یرغمالیوں کی بازیابی کے بڑے آپریشنز کیے جا چکے ہیں۔
اِن میں سنہ 2009 میں جی ایچ کیو حملہ، سنہ 2014 میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پشاور پر شدت پسندوں کا حملہ اور سنہ 2016 میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایسا بھی ہوا ہے کہ جیلوں میں قیدیوں نے اہلکاروں کو یرغمال بنایا جن کی بازیابی کے لیے آپریشن کرنا پڑا۔
دس اکتوبر 2009 کی صبح دس مسلح افراد نے پاکستانی فوج کے راولپنڈی میں واقع ہیڈ کوارٹر یعنی جی ایچ کیو پر دستی بموں اور دیگر ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا۔ خود کش جیکٹس پہنے یہ مسلح افراد جی ایچ کیو کے بیرونی گیٹ پر تعینات محافظوں کو ہلاک کر کے جی ایچ کیو میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے جہاں انھوں نے جی ایچ کیو کے بیسیوں ملازمین کو کئی گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔
حملہ آوروں کے خلاف فوجی کمانڈوز کی کارروائی کے دوران دس میں سے نو حملہ آور ہلاک ہوئے تھے اور عقیل عرف ڈاکٹر عثمان نامی شدت پسند کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس حملے میں گیارہ فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے تھے۔
اس آپریشن میں بھی ضرار کمپنی نے 22 گھنٹے کی طویل کارروائی کی تھی اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروانے کا اعلان کیا تھا۔

اسی طرح اے پی ایس حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسندوں نے سکول پر حملہ کر کے طلبا اور اساتذہ کو یرغمال بنایا، جس کے نتیجے میں بچوں سمیت تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ اس آپریشن میں بھی طلبا یرغمال تھے جنہیں بازیاب کرائے جانے کے دوران تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا تاہم اس دوران کافی جانی نقصان ہوا۔
سنہ 2016 میں خیبرپختونخوا کے شہر چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے چار شدت پسندوں کو دو گھنٹے کی کارروائی کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق فوجی افسر نے کہا کہ پاکستان میں یرغمالیوں کی بازیابی کے آپریشنز کو مسلسل نئے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ ’شدت پسندوں کی جانب سے جدید طریقوں کا استعمال، خودکش بمباروں کا بڑھتا ہوا خطرہ اور سرحد پار سے ہونے والی کارروائیاں شامل ہیں۔‘
اُن کے مطابق بعض گروہ یرغمالیوں کو سودے بازی کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان کے بدلے میں قیدیوں کی رہائی یا تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہری علاقوں میں ہونے والے حملے بھی فورسز کے لیے ایک پیچیدہ صورتحال پیدا کر دیتے ہیں کیونکہ وہاں بڑی تعداد میں عام شہری موجود ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی سپیشل فورسز کی ضرار کمپنی اور ایس ایس جی کے اہلکار جدید ترین ہتھیاروں، انٹیلیجنس ٹیکنالوجی اور جنگی مہارت رکھتے ہیں، جس کے باعث یرغمالیوں کو محفوظ طریقے سے نکالنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اور اس بار بلوچستان میں ہونے والا یہ آپریشن جو بظاہر خاصا پیچیدہ تھا، کامیابی سے مکمل کیا گیا ہے۔‘