یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے!
بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
پانچ مارچ کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں چھاؤنی کے علاقے میں دو بم دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 12 ہو گئی ہے جبکہ 32 افراد زخمی ہیں۔
بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
پانچ مارچ کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
،تصویر کا ذریعہGetty Images
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں چھاؤنی کے علاقے میں دو بم دھماکوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 12 ہو گئی ہے جبکہ 32 افراد زخمی ہیں۔
کے پی پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے چھاؤنی کے اندر ہوئے، جہاں سیکیورٹی فورسز کلیئرنس آپریشن کر رہی ہیں۔ حکام کے مطابق دھماکوں کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ دور دراز کے علاقوں میں مکانات اور مساجد کو نقصان پہنچا جس میں عام شہریوں کا جانی نقصان ہوا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی چھاؤنی کے اندر لے جانے کی کوشش کی تاہم ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ سکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں میں سے کچھ کو چھاؤنی میں داخلے کی کوشش کے دوران نشانہ بنایا۔
ان دھماکوں کے نتیجے میں چھاؤنی کے قریب واقع دیہات کوٹ براڑہ کو زیادہ نقصان پہنچا ہے جہاں مکانات منہدم ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق جیش فرسان محمد نامی شدت پسند تنظیم نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے تاہم اس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
اس تنظیم کا تعلق کالعدم دہشت گرد گروپ حافظ گل بہادر سے ہے۔ ماضی میں بھی اس تنظیم نے شدت پسند حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔
جولائی 2024 میں بنوں میں ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی پاکستانی فوج کے سپلائی ڈپو کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی تھی۔ اس حملے میں پاکستانی فوج کے آٹھ اہلکار اور تین شہری ہلاک ہوئے تھے۔
بنوں ایم ٹی آئی کے ترجمان محمد نعمان نے بتایا ہے کہ شہر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے فوری انکوائری کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف کے مطابق، سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی کے باعث دہشت گرد اپنے مکمل منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے اور تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ دھماکوں کی شدت کے باعث قریبی مسجد کی چھت گرنے سے نمازیوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد کا تعین کیا جا رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں چھاؤنی کے علاقے میں دو دھماکے ہوئے ہیں جن میں حکام کے مطابق نو ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔
بنوں ایم ٹی آئی کے ترجمان محمد نعمان کے مطابق ضلعے کے دو سرکاری ہسپتالوں میں نو ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ زخمیوں کی تعداد 20 بتائی گئی ہے۔
حکام کے مطابق یہ ہلاکتیں چھتیں اور دیواریں گِرنے کے باعث ہوئی ہیں۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے واقعے کی مذمت کی ہے اور رپورٹ طلب کی ہے۔
ادھر ضلعی پولیس افسر بنوں ضیا الدین نے بی بی سی کو بتایا کہ دو دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں اور اس کے بعد فائرنگ ہو رہی ہے۔ اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ دھماکوں کی نوعیت کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق جیش فرسان محمد نامی شدت پسند تنظیم نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے تاہم اس کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اس تنظیم کا تعلق کالعدم دہشت گرد گروپ حافظ گل بہادر سے ہے۔ ماضی میں بھی اس تنظیم نے شدت پسند حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔
جولائی 2024 کے دوران بنوں میں ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی پاکستانی فوج کے سپلائی ڈپو کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی تھی۔ اس حملے میں پاکستانی فوج کے آٹھ اہلکار اور تین شہری ہلاک ہوئے تھے۔
ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ
بنوں ایم ٹی آئی کے ترجمان محمد نعمان نے بتایا ہے کہ شہر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ابتدائی طور پر چار زخمی ہسپتال لائے گئے ہیں اور ان چاروں زخمیوں کو دھماکے یا گولیوں کے زخم نہیں ہیں بلکہ خوف سے گرنے اور پتھر لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔
بنوں میں چھاؤنی کے علاقے کے قریب رہائشی صحافی محمد وسیم نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب لوگ افظاری کے لیے بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ خود اپنے گھر میں موجود تھے۔ ان کے مطابق دھماکہ ایسا تھا جیسے اپنے ہی گھر میں ہوا ہو حالانکہ دھماکے کا مقام ان سے کافی دور ہے۔
ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ دھماکہ چھاؤنی میں بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے کیا گیا ہے تاہم ایسی اطلاعات ہیں کہ شدت پسند حملہ آوروں میں کچھ کو چھاؤنی میں داخلے کی کوشش کے دوران سکیورٹی فورسز نے نشانہ بنایا۔
سوشل میڈیا اور کچھ صحافیوں کو ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم جیش فرسان محمد کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری کی پوسٹ بھیجی گئی ہے۔
عمران خان کی بہن علیمہ خان نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ان خبروں کو افواہ قرار دیا ہے جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کو کان کا انفیکشن ہوا تھا جو پھیل کر دماغ میں چلا گیا ہے۔
اڈیالہ جیل راولپنڈی کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں علیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان سے ملاقات ہوئی وہ بالکل صحت مند لگ رہے تھے انھیں نہیں پتہ باہر کس قسم کی افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کو کان میں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر پڑھ رہے ہیں کہ کان سے دماغ میں انفیکشن چلا گیا۔‘
انھوں نے افواہیں پھیلانے والے عناصر کو مخاطب ہو کر کہا کہ ’یہ کیا بتانا چاہتے ہیں کہ عمران خان کو کچھ ہو گیا ہے، عمران خان کو کچھ ہونا بھی نہیں چاہیے۔‘
تاہم انھوں نے یہ بتایا کہ عمران خان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عاصم یوسف اور فیصل ستار کو کئی ماہ سے عمران خان سے ملنے نہیں دیا گیا۔
علیمہ خان نے بتایا کہ بچوں کے ساتھ چار مہینے کے بعد کبھی بات کروا دیتے ہیں جبکہ یہ جیل مینول کے مطابق ضروری ہے کہ ان کی بچوں سے بات کروائی جائے۔
علیمہ خان نے بتایا کہ سلمان اکرم راجہ عمران خان کی ذاتی پٹیشنز کو دیکھیں گے۔ انھوں نے کہ عمران خان نے کہا ہے کہ یہ جو مرضی کر لیں میں ڈیل نہیں کروں گا۔
بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اڈیالہ جیل کے ایک اہلکار نے بتایا کہ عمران خان بالکل ٹھیک ہیں۔
دوسری جانب عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے عمران خان کو جیل میں سحر و افطار نہ دیے جانے کی بات غلط ہے۔
عمران حان سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ نیاز اللہ نیازی عمران خان کے ترجمان ہیں اور وہ ان کے ساتھ ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے بات کیا کریں گے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام
چین نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ اگر تجارتی جنگ کو جاری رکھے گا تو ہم ایک ’تلخ انجام‘ تک لڑیں گے۔
خیال رہے کہ چینی مصنوعات پر امریکہ نے 20 فیصد محصولات عائد کر دی ہیں۔
امریکی ٹیکس عائد ہونے کے بعد منگل کو ہی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزات خارجہ کے ترجمان لین جیان نے کہا کہ ’اگر امریکہ ٹیرف کی جنگ اسی طرح لڑے گا، تجارت کی جنگ، یا کسی اور قسم کی جنگ تو چین کی طرف سے اس کے تلخ انجام تک لڑائی لڑی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بیجنگ کی جانب سے امریکی محصولات کے جواب میں زرعت اور خوراک کی اشیا پر 15 فیصد ٹیکس عائد کیا جانا چین کے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔
تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن پر زور دیا ہے کہ وہ جلد ازجلد بات چیت کی جانب دوبارہ آئیں۔
اس سے پہلے یہ سامنے آیا تھا کہ کچھ زرعی اشیا کے خلاف بھی جوابی محصولات کا اعلان کرنے کے علاوہ بیجنگ نے امریکہ کی متعدد فضائی، ٹیکنالوجی اور دفاعی کمپنیوں کو نشانہ بنایا تھا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ کمپنیاں کیا کرتی ہیں۔
پہلا یہ کہ چین نے امریکہ کی 15 کمپنیوں کو ایسی اشیا خریدنے سے روک دیا جو کہ دو قسم کے استعمال میں بیک وقت لائی جا سکتی تھیں یعنی انھیں سول اور ملٹری دونوں طرح کی چیزوں کو بنانے میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔
پابندی کی زد میں آنے والی فرمز میں ایسی بھی شامل ہیں جو فوجی سامان بناتی ہیں جیسے کہ جنرل ڈائنیمکس لینڈ سسٹم، یہ فرم فوجی گاڑیاں ڈیزائن کرتی ہے اور بناتی بھی ہے، جیسے کہ میدان جنگ میں استعمال ہونے والے ٹینک جو امریکہ اور جنوبی کوریا استعمال کرتا ہے۔
دوسری فرم شیلڈ اے آئی ہے یہ سیلی کون ویلی کی دفاع سے متعلق فرم ہے جو کہ مصنوعی ذہانت کے لیے سافٹ وئیر بناتی جس کے ذریچے بغیر پائلٹ کے ائیر کرافٹ اور ڈرون بنائے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ چین نے دس امریکی فرمز کو ناقابل اعتماد اداروں کی فہرست میں شامل کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چین کے ساتھ اب مزید تجارتی سرگرمیاں یا پھر چین میں سرمایہ نہیں لگا سکیں گی۔
اس میں ہنٹنگن انگالز انڈسٹری شامل ہے۔ یہ امریکہ میں بحری جہاز بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس کے علاوہ پابندی کی زد میں آنے والوں میں ٹیکس اورے شامل ہے جو دفاع اور خفیہ کارروائیوں کے لیے عام ذرائع سے ملنے والی معلومات کا تجزیہ کرتی ہے۔
خیال رہے کہ کبھی کھبار جوابی کارروائی علامتی بھی ہوتی ہے کیونکہ یہ واصح نہیں ہے کہ یہ فرمز چین سے کس قدر درآمدات کرتی ہیں، اس لیے یہ یقینی طور پر بتانا کہ اس کا کتنا اثر ہوتا یہ مشکل ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
یورپی یونین کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن نے کہا ہے کہ یورپ کی دفاعی انڈسٹری کو مضبوط کرنے کے لیے اور فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے یورپی یونین کے نئے پلان میں 800 بلین یورو تک لگائے جا سکتے ہیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یورپ دفاع کے لیے مزید خرچ کرنے کے لیے تیار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یورپی یونین ممبر ممالک کے دفاعی اخراجات کے لیے مالیاتی مدد میں مزید وسعت دینے کی تجویز دے گا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ 150 بلین یورو کا قرض بھی اس مد میں دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا ہم پھر سے مسلح ہونے کے دور میں ہیں، یورپ اپنے دفاع کو بڑے پیمانے پربڑھانے کے لیے تیار ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ قلیل مدت میں ردعمل جیسے کہ یوکرین کی مدد کے لیے اور طویل مدت کی ضرورت جیسے کہ یورپ خود اپنی کی سکیورٹی کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکہ کی جانب سے چین، میکسیکو اور کینیڈا کی درآمدات پر ٹیرف لاگو ہو گیا ہے لیکن امریکی صدر مزید ٹیرف لگانے کی بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
بیرون ممالک سے امریکہ میں درآمد ہونے والی اشیا پر ٹیکس کا نفاذ ٹرمپ کے معاشی وژن کا ایک مرکزی حصہ ہے۔ صدر ٹرمپ ٹیکس کے اس نفاذ کو امریکی معیشت کو فروغ دینے، امریکی شہریوں کی ملازمتوں کے تحفظ اور ٹیکس کے ذریعے امریکہ کی آمدن بڑھانے کے ایک طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے امریکی شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس ٹیکس کی قیمت آپ کو نہیں بلکہ دوسرے ملک کو ادا کرنی ہو گی۔‘
اب تک سامنے آنے والی تفصیلات پر نظر ڈالتے ہیں۔
امریکہ دنیا بھر کے لیے 12مارچ سے ایلومینیم اور سٹیل کی درآمدات پر 25 فیصد ٹیکس لگانے کا پلان بنا رہا ہے۔ گذشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ ٹیرف ایک بڑی ڈیل ہیں اور یہ امریکہ کو دوبارہ سے امیر بنانے کی شروعات ہیں۔
صدر ٹرمپ 2 اپریل سے غیر ملکی زرعی اجناس پر بھی ٹیکس عائد کریں گے تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس مد میں کون سی مخصوص اشیا شامل ہیں اور کن کو اثتثنیٰ حاصل ہے۔
اس کے علاوہ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بیرونی ممالک سے درآمد کی جانے والی گاڑیوں پر بھی ٹیرف لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو کہ تقریباً 25 فیصد ہو گا۔
امریکی صدر نے تانبے اور لکڑی کی درآمدات کے حوالے سے بھی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔ ابھی اس حوالے سے تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ ان اشیا پر اگر ٹریف لگایا جائے گا تو کب تک لگایا جائے گا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دیے جانے والے احتجاجی دھرنوں کی وجہ سے چوتھے روز بھی صوبے کی تین اہم شاہراہیں بند ہیں۔
دھرنوں کے باعث کوئٹہ کراچی شاہراہ اور کوئٹہ پنجگور شاہراہ سوراب کے مقام پر بند ہے جبکہ کوئٹہ اور ایران کے سرحدی شہر تفتان کو ملانے والی شاہراہ ضلع مستونگ میں کردگاپ کے مقام پر بند ہے ۔
جن مقامات پر دھرنا دیا جارہا ہے وہ گزشتہ روز سے شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں پھنسے ہوئے افراد بالخصوص گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
کوئٹہ تفتان شاہراہ کو کردگاپ کے مقام پر سرپرہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے آٹھ سے زائد افراد کی بازیابی کے لیے بند کیا گیا ہے۔ لواحقین کے مطابق یہ افراد مختلف اوقات میں مبینہ طور پر لاپتہ کیے گیے ہیں۔
سوراب کے مقام پر کوئٹہ کراچی اور کوئٹہ پنجگور شاہراہ کو بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے زہری سے تعلق رکھنے والے نو افراد کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف بند ہے۔ ان میں سے بیشتر افراد کو رواں سال مبینہ طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کیمپ میں دو روز قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے پر لواحقین مختلف علاقوں میں شاہراہوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ حکومت شاہراہوں سمیت کسی بھی ایسے مقام پر لوگوں کے احتجاج کا حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں جس سے عام افراد کو تکلیف پہنچے۔
گزشتہ روز میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک مشکوک موضوع ہے اس کو حکومت کے خلاف ایک پروپیگینڈہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو دُپٹی کمشنر شاہراہوں کو کھلوانے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہوئے ہیں ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہیے، ٹرائل کہیں بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے۔
منگل کے روز جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی کے استفسار پر سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کل 105 ملزمان تھے جس میں سے 20 ملزمان رہا ہوئے۔
تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 20 کے بعد مزید 19 افراد رہا کیے گئے ہیں اور اس وقت 66 ملزمان جیلوں میں ہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ امریکہ میں رواج ہے کہ دلائل کے اختتام پر دونوں فریق کو پروپوز ججمنٹ کا حق دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورٹ مارشل کا بھی متبادل موجود ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہیے، ٹرائل یہاں ہو یا وہاں، کیا فرق پڑتا ہے۔
اپنے دلائل ختم کرتے ہوئے فیصل صدیقی نے کہا ٹرائل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ٹرائل آزاد ہے، دوسرا ملٹری میں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ نو مئی کے واقعات میں توڑ پھوڑ کے مقدمے درج ہیں۔ ان کے مطابق جہاں دفاع پاکستان کو خطرہ ہو، اس صورت میں شہریوں کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔
درخواستگزار بشریٰ قمر کے وکیل عابد زبیری نے سرسری طور پر اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے اپیل کا حق دینے کی قانون سازی کا بتایا گیا تھا اور حکومت کی جانب سے ہی عدالت میں موقف اپنایا تھا۔
بعد ازاں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ وکیل درخواستگزار بشریٰ قمر کے وکیل عابد زبیری کل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے اس بیان پر کہ اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم اور بانی پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی ہر منگل کو ملاقات کروئی جاتی ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر دائر توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی۔
منگل کے روز توہینِ عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے کی۔
سماعت کے دوران اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ عبد الغفور انجم عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
عمران خان کی جانب سے فیصل چودھری ایڈووکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ آیا عدالتی حکم پر عمل ہو رہا ہے؟
سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر مکمل عمل ہو رہا ہے اور اس بارے میں درخواست گزار کے وکیل کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
عبد الغفور انجم کا کہنا تھا کہ اگرچہ جیل رولز میں ایسی ملاقات کروانے کا ذکر موجود نہیں، اس کے باوجود عمران خان اور بشری بی بی کی ہر منگل کو ملاقات کروا رہے ہیں۔
اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے کہا فیصل صاحب، یہ تو آپ کو فیور دے رہے ہیں۔
فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ اس بارے میں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی جانب سے یقین دہانی آجائے کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی طرف سے نہیں، کسی اور سے آتا ہے۔
اس موقع پر سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم نے کہا کہ مسئلہ کہیں سے بھی نہیں آتا۔
قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا کہنا تھا کہ ہم یہاں بیٹھے ہیں، دیکھ لیں گے۔
عدالت نے فیصلے پر عمل درآمد کے بعد توہینِ عدالت کی درخواست نمٹا دی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سوموار کے روز امریکہ نے یوکرین کو دی جانے والی فوجی امداد روکنے کا اعلان کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکہ اپنی امداد کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ امداد مسئلے کے حل میں کردار ادا کر رہی ہے۔
جنگ میں یوکرین کو امریکی فوجی امداد تین ذرائع سے ملتی ہے ان میں امریکی صدر کی طرف سے ملنے والی براہ راست رقم، وزارت خارجہ کی فارن ملٹری فنانسنگ کے ذریعے ملنے والی امداد اور یوکرین سکیورٹی اسسٹنس انیشیٹیو (USAI) کے تحت ملنے والی امداد شامل ہے۔
پریزیڈینشل ڈرا ڈاؤن اتھارٹی صدر سے ملنے والی براہ راست فنڈنگ ہے۔ اس کے تحت امریکی فوج کو اپنے ذخائر سے یوکرین کو سپلائی بھیجنے کی اجازت ہے۔ سوموار کے روز ایک امریکی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فنڈ میں تقریباً 3.85 ارب ڈالرز موجود ہیں۔ یہ امداد جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وائٹ ہاؤس کرے گا۔
محکمہ خارجہ کی فارن ملٹری فنانسنگ سہولت کے تحت یوکرین کے لیے علیحدہ سے 1.5 ارب ڈالر کا فنڈ موجود ہے جو یوکرین کو گرانٹ یا براہ راست قرض کے طور پر جاری کیا جا سکتا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارک روبیو اس فنڈ کا جائزہ لے رہے ہیں۔
یوکرین سکیورٹی اسسٹنس انیشیٹو کے تحت یوکرین کو امریکی مینوفیکچررز کو ادائیگیوں کے لیے امداد دی جاتی ہے۔
فی الحال یہ واضح نہیں کہ امریکہ جانب سے یوکرین کو دی جانے والی امداد روکے جانے کے فیصلے سے یہ فنڈز کیسے متاثر ہوں گے۔
یوکرین کے لیے امریکی ہتھیار کتنے اہم ہیں؟
امریکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے دن یعنی 20 جنوری 2025 تک امریکہ یوکرین کو تقریباً 6.9 ارب ڈالرز کی فوجی امداد فراہم کر چکا تھا۔
اس بیان کے مطابق اگست 2021 سے جنوری 2025 کے درمیان امریکہ نے صدر کی جانب سے دیے گئے فنڈز کو 55 مرتبہ یوکرین کو فوجی امداد دینے کے لیے استعمال کیا۔ یہ رقم تقریباً 27.68 ارب ڈالرز بنتی ہے۔
یوکرین کو فارن ملٹری فنانسنگ کے ذریعے 4.65 ارب ڈالرز کی امداد دی جا چکی ہے۔
امریکہ کی جانب سے اب تک یوکرین کو جو ہتھیار فراہم کیے جا چکے ہیں ان میں ہاک ایئر ڈیفنس سروسز، 40 ہائی موبلٹی راکٹ سسٹمز، 155 ملی میٹر کے 200 ہووٹزر توپ خانے، 105 ملی میٹر کے 70 ہووٹزر توپ خانے،31 ابرامز ٹینک، 45 ٹی 72 بی ٹینک، 20 ایم آئی ہیلی کاپٹرز، دو ہارپون کوسٹل ڈیفنس سسٹم اور اینٹی شپ میزائل شامل ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ کی جانب سے یوکرین کو دی جانے والی دیگر امداد میں برقی آلات، طبی سامان، کیمیائی، حیاتیاتی، ریڈیولاجیکل، جوہری حفاظتی آلات، سردی سے بچاؤ کے آلات، ہتھیاروں کے سپیئر پارٹس اور دیگر سامان شامل ہیں۔
گذشتہ سال نومبر میں امریکہ نے یوکرین کو روس کے اندر محدود حملوں کے لیے آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم ایک سپرسونک بیلسٹک میزائل سسٹم ہے جسے ایک امریکی دفاعی کمپنی نے تیار کیا ہے۔
امریکہ سمیت کل 50 ممالک یوکرین کو امداد فراہم کر رہے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
صدر ٹرمپ سے معافی مانگیں؟ تمام تر باتوں کے باوجود معدنیات کے معاہدے پر دستخط کر دیں؟
ایسا لگتا ہے شاید ٹرمپ انتظامیہ یہی چاہتی ہے۔ وہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو اس ساری صورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ زیلنسکی پر امریکہ کا شکریہ ادا نہ کرنے کا جھوٹا الزام لگاتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے عسکری امداد روکنے کا واضح مقصد یوکرینی صدر پر دباؤ ڈالنا اور انھیں رعایتیں دینے پر مجبور کرنا ہے۔
لیکن صدر زیلنسکی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
گذشتہ سال ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے اس جانب اشارہ کیا تھا کہ یوکرین کے جن علاقوں پر روس قبضہ کر چکا ہے وہ اس کے پاس ہی رہیں گے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بقیہ یوکرین کو نیٹو کی رکنیت دی جائے۔
رواں مہینے انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ نیٹو کی رکنیت کے بدلے وہ صدارت چھوڑنے کے بھی تیار ہیں۔
لیکن صدر ٹرمپ نے یوکرین کے نیٹو اتحاد میں شمولیت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ ماسکو بھی یوکرین کو نیٹو میں شامل کیے جانے کا مخالف ہے۔
ٹرمپ نے کبھی یہ واضح نہیں کیا ہے کہ وہ روس جس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے سے کس قسم کی رعایتیں چاہتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGett
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ منگل کے روز سے میکسیکو اور کینیڈا کی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف کے اطلاق کے لیے ’تیاری مکمل ہے۔‘ اس اعلان کے ساتھ ہی امریکہ کے دونوں پڑوسیوں کے پاس واشنگٹن کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے کا وقت ختم ہو گیا ہے۔
ٹرمپ کے بیان سے شمالی امریکہ میں تجارتی جنگ کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ کینیڈا اور میکسیکو دونوں نے جوابی کارروائی کے طور پر امریکی مصنوعات پر محصولات عائد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کی جانب سے چینی درآمدات پر بھی اضافی 10 فیصد ٹیرف نافذ کیے جانے کی توقع ہے۔ اس سے امریکہ کے تینوں بڑے ٰتجارتی شراکت داروں کو چند ہفتے پہلے کی نسبت نمایاں طور پر زیادہ تجارتی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سوموار کے روز وائٹ ہاؤس میں بات کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کینیڈا اور میکسیکو کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا۔
’آپ جانتے ہیں کہ ٹیرف تیار ہیں۔ کل [منگل] سے ان کا اطلاق ہو جائے گا۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا، ’انھیں اپنے گاڑیوں کے پلانٹ اور دوسری چیزیں امریکہ میں بنانی پڑیں گی، اس صورت میں ان پر کوئی ٹیرف نہیں ہوگا۔‘
ٹیرف یا درآمدات پر ٹیکس کیا ہے؟
ٹیرف ایک اندورن ملک عائد کیے جانے والا ٹیکس ہے جو بیرون ممالک سے امریکہ پہنچنے والے سامان تجارت پر عائد کیا جاتا ہے۔ اور اس کا نفاذ درآمدات کی قیمت کے تناسب سے ہوتا ہے۔
لہذا 50 ہزار ڈالر کی قیمت والی ایک گاڑی کو امریکہ درآمد کرتے ہی اس پر 25 فیصد ٹیرف کے حساب سے چارج ہو گا، یعنی ایسی گاڑی کو 12،500 ڈالر چارج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ رقم ملک میں موجود اُس کمپنی کو ادا کرنا ہوتا ہے جو یہ سامان بیرون ممالک سے درآمد کرتی ہے نہ کہ وہ غیر ملکی کمپنی جو اس سامان کو برآمد یا ایکسپورٹ کرتی ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے، یہ ایک ڈائریکٹ ٹیکس ہے جو مقامی امریکی کمپنیوں کی جانب سے امریکی حکومت کو ادا کیا جاتا ہے۔
سنہ 2023 کے دوران امریکہ نے دنیا بھر سے لگ بھگ 3.1 کھرب ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں جو امریکی جی ڈی پی کے تقریباً 11 فیصد کے مساوی ہے۔ اور ان درآمدات پر عائد محصولات کی مد میں امریکی حکومت نے اس دورانیے میں 80 ارب ڈالر کمائے، جو کل امریکی ٹیکس محصولات کا تقریبا دو فیصد ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ یوکرین کو دی جانے والی عسکری امداد روک رہا ہے۔
سوموار کے روز وائٹ ہاؤس کے ایک نمائندے نے امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر سی بی ایس نیوز کو بتایا، ’صدر اس بارے میں واضح ہیں کہ ان کی توجہ امن پر مرکوز ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام پارٹنرز بھی ہمارے مقصد میں ہمارا ساتھ دیں۔ ہم اپنی امداد کو روک کر اس کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ امداد مسئلے کے حل میں کردار ادا کر رہی ہے۔‘
اس بارے میں سب سے پہلے خبر نشریاتی بلوم برگ نے دی تھی۔
بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اس وقت تک کے لیے یوکرین کی امداد روک رہا ہے جب تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کا تعین نہیں کر لیتے کہ یوکرین کے رہنما امن کے لیے سنجیدہ ہیں۔
بلوم برگ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق ایسے تمام فوجی ساز و سامان پر ہوگا جو ابھی راستے میں ہے یا پولینڈ میں مختلف ڈپو میں موجود ہے اور یوکرین نہیں پہنچا ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر نے کہا تھا کہ انھوں نے یوکرین کو دی جانے والی فوجی امداد روکنے کی بات نہیں کی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہم دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے یہ فیصلہ گذشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی ایک ناخوشگوار ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
میڈیا نمائندوں کے سامنے ہونے والی بات چیت میں اس وقت ماحول گرم ہوا جب امریکی صدر ٹرمپ نے یوکرینی صدر سے کہا کہ ’روس کے ساتھ معاہدہ کریں ورنہ ہم پیچھے ہٹ جائیں گے۔‘
جس کے جواب میں یوکرین کے صدر نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ’کوئی سمجھوتہ‘ نہیں ہونا چاہیے - لیکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کئیو کو روس کے ساتھ امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے رعایتیں دینا ہوں گی۔
ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے صدر زیلنسکی سے کہا کہ آپ کا ملک جنگ نہیں جیت رہا، آپ ہماری وجہ سے اس جنگ سے نکل سکتے ہیں۔ اگر آپ کی فوج کے پاس ہمارا دیا ہوا اسلحہ اور عسکری سازوسامان نہیں ہوتا تو یہ جنگ دو ہفتوں میں ہی ختم ہو جاتی۔
اس ملاقات کے دوران ٹرمپ نے زیلنسکی سے سوال کیا کہ ’کیا آپ نے ایک بار بھی امریکہ کا شکریہ ادا کیا؟ آپ کو امریکہ کا شکر گزار ہونا چاہیے، آپ کے پاس آپشز نہیں ہیں، آپ کے لوگ مر رہے ہیں، آپ کو فوجیوں کی کمی کا سامنا ہے۔‘
ٹرمپ نے زیلنسکی سے کہا کہ ’آپ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ مول لے رہے ہیں، آپ امریکہ کی توہین کر رہے ہیں۔‘
ملاقات کے دوران ایک موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر پر الزام لگایا تھا کہ وہ ’تیسری عالمی جنگ کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔‘
’ہم روسیوں کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں‘
امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارک روبیو نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ پوری دنیا میں واحد لیڈر ہیں جو یوکرین جنگ ختم کر سکتے ہیں۔
’ہم روسیوں کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا امن قائم کرنا ممکن ہے۔‘
امریکی جانب سے یوکرین کی فوجی امداد روکے جانے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے کسی اہلکار کا یہ پہلا عوامی تبصرہ ہے۔
،تصویر کا ذریعہSocial Media
بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کر کے 7 گاڑیوں اور کوسٹل ہائی وے پولیس کی ایک چوکی کو نقصان پہنچایا ہے۔
گوادر میں ضلعی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ حملہ کوسٹل ہائی وے پر پسنی اور اورماڑہ کے درمیان ماکولہ کے علاقے میں ہوا ہے۔
اہلکار کے مطابق مسلح حملہ آوروں نے سب سے پہلے اس علاقے میں کوسٹل ہائی وے پولیس کی ایک چوکی پر حملہ کر کے وہاں تعینات اہلکاروں سے اسلحہ چھین لیا۔
اہلکار نے بتایا کہ بعد میں مسلح افراد نے اس علاقے میں ناکہ بندی کی اور وہاں 7 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا جن میں کوسٹل ہائی وے پولیس کی بھی ایک گاڑی شامل تھی۔
کوسٹل ہائی وے کی سکیورٹی کی ذمہ داری کوسٹل ہائی وے پولیس کی ہے۔
کوسٹل ہائی وے پولیس کے ایس پی حفیظ امیر نے بتایا کہ حملہ آوروں نے کوسٹل ہائی وے پولیس کی ایک گاڑی کو نذر آتش کرنے کے علاوہ تین ایل پی جی ٹینکروں کو بھی نذر آتش کیا۔
انھوں نے بتایا کہ تین دیگر ایل پی جی ٹینکروں کے ٹائروں سے ہوا بھی نکال دی گئی اور اُنھیں ناکارہ کر دیا گیا۔
اہلکار کے مطابق ایل پی جی ٹینکرز کراچی سے ایران کی جانب جارہے تھے۔
خیال رہے کہ ٹینکروں میں ایران سے زیادہ تر سندھ اور پنجاب کے لیے ایل پی جی لایی جاتی ہے۔
ضلع گوادر میں کوسٹل ہائی وے پر پہلے بھی سکیورٹی فورسز پر حملوں کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
رواں سال بلوچستان میں مسلح افراد کی جانب سے ہائی ویز پر حملوں اور ناکہ بندی کا یہ چوتھا واقعہ ہے۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ ضلع کچھی میں بولان، ضلع بارکھان میں رڑکن اور ضلع قلات میں منگیچر میں ہائی ویز پر حملوں اور ناکہ بندی کے واقعات پیش آئے تھے۔
،تصویر کا ذریعہAshan Abbasi
شدید بارش اور برفباری سے شاہراہ قراقرم لینڈ سلائیڈنگ کے سبب کوہستان کے مقام سے بند جبکہ انتظامیہ نے ایبٹ آباد سے گلیات جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔
داسو کوہستان کے چیرمین غلام سعید کے مطابق اتوار کی شام شروع ہونے والا بارش کا سلسلہ اب تک وقفے وقفے سے جاری ہے۔ بارش کی وجہ سے داسو سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑک ہر قسم کی ٹریفک لیے بند ہو گئی۔
غلام سعید کا کہنا تھا کہ ’روڈ کی یہ حالت ہے کہ پیدل چلنا بھی خطرناک ہوچکا ہے۔ روڈ داسو سے آگے شیال کے مقام پر بند ہے۔ داسو ڈیم میں آنے والے روڈ کی جگہ پر نئی سڑک کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ سڑک پر اس ملبہ کی وجہ سے بھی ٹریفک بند ہو گئی۔‘
غلام سعید کا کہنا تھا کہ ’طویل کوشش کے بعد امدادی کارروائیوں میں مصروف انتظامیہ مسافروں کے لیے متبادل مقام سے روڈ بحال کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔‘
غلام سعید کا کہنا تھا کہ ’جو بھی مسافر لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں ان کے لیے داسو کے مقام پر سحری اور افطاری کا مناسب انتظام کیا گیا ہے جبکہ مسافروں کو رہائش بھی فراہم کی گئی ہے۔‘
دوسری جانب ضلع ایبٹ آباد کی انتظامیہ نے ایبٹ آباد سے گلیات جانے والی سڑک کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا ہے۔
ریسیکو انچارج نتھیاگلی احسان عباسی کے مطابق ’گلیات میں سحری کے وقت برفباری کا سلسلہ شروع ہوا اور اب تک کم از کم دو فٹ برف پڑ چکی ہے تاہم برفباری تاہم حال مسلسل جاری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’رمضان کی وجہ سے ہوٹل بند تھے۔ روڈ پر پھسلن بھی زیادہ ہے۔ اس وجہ سے روڈ کو بند کر دیا گیا ہے۔‘
واضح رہے کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے نے تین مارچ کو جاری وارننگ میں کہا گیا تھا کہ مری، ناران، گلیات میں درمیانے درجے سے لے کر شدید برفباری متوقع ہے جو 24 گھنٹے جاری رہ سکتی ہے۔
ادارے کی جانب سے ان علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور برفانی تودے گرنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا۔ تاہم مسافر اور سیاحوں کو ان علاقوں میں سفر کرتے ہوئے احتیاط کرنے اور غیر ضروری سفر سے منع کیا گیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہEPA
،تصویر کا ذریعہBBC Parliament
برطانیہ کے ایوانِ نمائندگان ہاؤس آف کامنز میں بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم سر کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ روس ایک ایسا ’سنگین خطرہ‘ ہے جو برطانیہ کے پانیوں اور آسمانوں میں منڈلا رہا ہے اور روس کی جانب سے این ایچ ایس پر سائبر حملے بھی کیے گئے ہیں اور ہماری گلیوں میں لوگوں کو قتل کرنے کی کوشش بھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ یوکرین کا مستقبل برطانیہ کی قومی سلامتی کے لیے نہایت اہم ہے۔‘
سٹارمر نے کہا کہ ’ہم یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ یہی درست فیصلہ ہے اور یہ ہمارے ملک کے مفاد میں بھی ہے۔‘
وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’دیرپا امن، مضبوط امن اور عدل کی بنیاد پر حاصل ہونے والا امن ہمارا مقصد ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ برطانیہ ایک امن معاہدہ حاصل کرنے کے لیے ’فرنٹ سے لیڈ‘ کرے گا۔
اتوار کی سمٹ کے بعد یہ تو معلوم ہوا کہ یوکرین کے دوست اب بھی موجود ہیں جو اس کی مدد کے لیے تیار ہیں اور یہ زیلینسکی کے لیے اہم ہے جو واشنگٹن میں امریکی صدر اور نائب صدر سے تکرار کے بعد شدید دباؤ میں تھے اور لندن میں ملنے والے استقبال پر خاصے پرجوش نظر آئے۔
آیا یہ دوست انھیں ایسی مدد فراہم کرنے کے قابل ہیں جو انھیں روس کو روکنے کے لیے چاہیے، یہ ایک الگ بحث ہے۔
اس میں وقت اور پیسہ درکار ہے، تاحال یہ یقینی نہیں ہے کہ انھیں اتنی مالی امداد ملے گی جتنی انھیں درکار ہے اور وقت تو واضح طور پر یوکرین کے لیے کم پڑتا جا رہا ہے۔
یہ وہ مسائل ہیں جن کا ادراک کیئر سٹارمر نے اپنے چار نکاتی منصوبے سے کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ یوکرین کو عسکری امداد کی فراہمی جاری رہنی چاہیے اور یہ فوری طور پر سب سے اہم بات ہے۔ دیگر تین نکات ایک ممکنہ امن معاہدے کے بارے میں ہیں اور یہ ایک ادھورا منصوبہ لگتا ہے۔
اس سب کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ روس کس حد تک تعاون کرتا ہے یا لڑائی ختم کرنے پر کس حد تک آمادہ ہے۔
ماسکو کی جانب سے لڑائی روکنے کی تجویز کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ کم سے کم چار خطوں (ڈونیٹسک، لوہانسک، خیرسون اور زاپورژیا) پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ یوکرین کے بہترین دوستوں نے بھی وہ باتیں کرنی چھوڑ دی ہیں جن کی یوکرین کو سب سے زیادہ ضرورت ہے یعنی فتح اور علاقائی سلامیت۔
اتوار کو لندن میں یوکرین جنگ کے حوالے سے ہونے والی سمٹ کے بعد جنگ بندی، سیزفائر یا امن معاہدے جیسے الفاظ سامنے آئے ہیں لیکن اس حوالے سے چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ کیا یورپ کی کمزور ہوتی افواج کے پاس یوکرین میں تعینات کرنے کے لیے ایسی فورس ہو گی جو روس کے لیے خوف کا باعث بن سکے؟ برطانیہ اور فرانس کے علاوہ وہ کون سے ممالک ہیں جو اپنی فوجیں یوکرین بھیجنے کے لیے تیار ہوں گے خاص طور پر ایک ایسے غیر یقینی وقت پر جب امریکہ کی جانب سے کوئی یقین دہانی نہیں دی جا رہی؟
سر کیئر سٹارمر کی جانب سے آئیڈیا یہ دیا گیا ہے کہ یورپ کوئی ایسی تجویز سامنے لائے جو صدر ٹرمپ کے سامنے رکھی جائے اس امید کے ساتھ اور یہاں ’امید‘ کے لفظ پر زور دیا جا رہا ہے، کہ وہ امریکی فوج کی صورت میں بیک سٹاپ فراہم کرنے پر اتفاق کریں گے۔ اب تک ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
آخر میں اور سب سے اہم بات یہی ہے کہ یہ بات کتنی یقینی ہے کہ روس یوکرین میں نیٹو ممبران کی موجودگی پر اتفاق کر لے گا؟ یہ وہ بات ہے جس کی پوتن ہمیشہ سے مخالفت کرتے آئے ہیں، اس لیے یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے کوئی دباؤ انھیں اپنے مؤقف میں تبدیلی پر مجبور کر سکتا ہے۔
خاص طور پر اس وقت جب ان کی فوج جنگ کے میدان میں کامیابیاں سمیٹ رہی ہے۔