کُرم میں امدادی قافلے پر فائرنگ: صوبائی حکومت کا شر پسندوں کے خلاف ’بلاتفریق‘ کارروائی کا فیصلہ

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے کرم کے علاقے اوچت، مندوری اور دیگر علاقوں کو شرپسندوں سے پاک کرنے کے لیے سخت کارروائی عمل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

خلاصہ

  • مریم نواز نے خود پر سیاسی انتقام کے الزام کی تردید کی ہے
  • خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں ایک مرتبہ پھر سامان لے جانے والے گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کی گئی ہے جس میں ایک اب تک ایک ڈرائیور کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے
  • پاکستان میں چینی کی قیمت میں گذشتہ دو ہفتوں میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں چینی کی ریٹیل قیمت 165 سے 170 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔
  • برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے تحفظ اور امن مذاکرات کے لیے معاہدے کو یقینی بنانے کی غرض سے برطانوی فوجی دستے یوکرین بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔

لائیو کوریج

  1. یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے!

    بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔

    18 فروری کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں

  2. بلوچستان کے ضلع آواران میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک, محمد کاظم، بی بی سی اردو، کوئٹہ

    balochistan

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

    بلوچستان کے ضلع آواران میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں کم از کم دو سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 7زخمی ہوگئے۔

    محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے ایک سینیئر اہلکار نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حملہ ضلع کی تحصیل مشکے کے علاقے شاکر آباد میں کیا گیا۔

    اہلکار کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں مسلح افراد نے سب سے پہلے سکیورٹی فورسز کے ایک پوسٹ پر حملہ کیا۔

    انھوں نے بتایا کہ حملے کی اطلاع ملنے پر سکیورٹی فورسز کے ہیڈکوارٹر سے پوسٹ میں موجود اہلکاروں کی مدد کے لیے ایک کانوائے روانہ کردیا گیا۔

    محکمہ داخلہ کے اہلکار کے مطابق راستے میں اس کانوائے پر بھی حملہ کیا گیا۔ دونوں حملوں کے نتیجے میں کم ازکم دو اہلکار ہلاک اور ایک جونیئر آفیسر سمیت 7اہلکار زخمی ہوگئے۔

    اہلکار کے مطابق زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیاگیا ۔

    زخمیوں میں سے دو کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

    اہلکار کے مطابق اس واقعے کے بعد ملزمان کی گرفتاری کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا۔

    آواران انتظامی لحاظ سے بلوچستان کے مکران ڈویژن کا حصہ ہے۔

    بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مغرب میں واقع اس ضلع کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔

    اس ضلع کا شمار بلوچستان کے ان اضلاع میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے زیادہ متاثر ہیں۔

    بلوچستان میں گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران سکیورٹی فورسز کی پوسٹوں پر یہ چوتھا حملہ ہے۔

    گزشتہ شب کوئٹہ شہر میں کرانی روڈ پر واقع سکیورٹی فورسز کے ایک چیک پوسٹ پر چار گرینیڈ فائر کیے گئے لیکن اس میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔

    اس سے قبل قلات کے علاقے توغو چھپر میں لیویز فورس کے ایک پوسٹ پر نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں لیویز فورس کا ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔

    جبکہ ایران سے متصل ضلع کیچ میں دشت کے علاقے شیر بندی میں بھی سکیورٹی فورسز کے ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا تھا۔

  3. کُرم میں امدادی قافلے پر فائرنگ: صوبائی حکومت کا شر پسندوں کے خلاف ’بلاتفریق‘ کارروائی کا فیصلہ

    Kurram

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت کرم کے معاملے پر اہم اجلاس میں کرم کے علاقے اوچت، مندوری اور دیگر علاقوں کو شرپسندوں سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم متعلقہ حکام کو ان علاقوں میں موجود شرپسندوں کے خلاف بلاتفریق اور سخت کارروائی عمل میں لانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

    وزیر اعلی خیبر پختونخوا کی زید صدارت ہونے والے اجلاس میں چیف سیکرٹری، آئی جی پی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور دیگر متعلقہ حکام کی شرکت کی۔

    ترجمان صوبائی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران پیر کے روز کرم میں پیش آنے والے واقعے کے تناظر میں صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور وزیر اعلیٰ کو اس ناخوشگوار واقعے کے بارے بریفنگ دی گئی۔

    وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سامان لے جانے والے گاڑیوں کے قافلوں پر فائرنگ اور لوٹ مار کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔

    صوبائی حکومت کی جانب سے جاری ہونے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’شرپسندوں کے خلاف موثر کاروائیوں کے لئے ان مقامات سے مقامی لوگوں کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل کیا جائے۔‘

    واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں پیر کے روز ایک مرتبہ پھر سامان لے جانے والے گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ ہوئی جس میں اب تک ایک ڈرائیور کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

    Kurram

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    تاہم بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’متعلقہ علاقوں میں درج ہونے والی ایف آئی آرز میں نامزد ملزمان کی فوری گرفتاری عمل میں لائی جائے۔ علاقہ عمائدین اور مقامی لوگ ان علاقوں میں موجود شر پسندوں کو سزا دلوانے کے لیے حکومت کے حوالے کریں۔‘

    ترجمان صوبائی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’علاقے کی امن کمیٹیاں اپنے علاقوں میں شرپسندوں کو اس طرح کی کارروائیوں سے باز نہیں رکھنے میں ناکام رہے۔ اب حکومت ان علاقوں میں امن دشمن عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھر پور کاروائی عمل میں لائے گی۔‘

    بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’علاقے میں موجود شر پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کے لئے ذمہ داری سول انتظامیہ اور پولیس کو دی گئی ہے۔‘

  4. چلاس میں ’حقوق دو، ڈیم بناؤ‘ تحریک کا آغاز: ’مطالبات منظور نہ ہوئے تو کام روک دیں گے‘, عزیر اللہ خان، بی بی سی اردو، پشاور

    ُچلاس

    ،تصویر کا ذریعہHamid Ullah

    گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین نے ’حقوق دو، ڈیم بناؤ‘ تحریک کا آغاز کر دیا ہے اور حکومت کے سامنے مطالبات کی ایک فہرست بھی پیش کر دی اور وفاقی حکومت کے سامنے ایک مکمل ڈیمانڈ چارٹر رکھ دیا ہے۔

    متاثرین نے سوموار تک کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے یا وفاقی سطح پر وزیراعظم کی میٹنگ نہ ہوئی تو وہ دیار بھاشا ڈیم کی طرف جا کر کام بند کروا دیں گے۔

    اس بارے میں مقامی رہنما شبیر احمد قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آج مقامی انتظامیہ کے ساتھ مزاکرات ہوئے ہیں اور مظاہرین کو بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جو دو سے تین دن کے اندر اس بارے میں بات چیت کرے گی تب تک دھرنا موخر کر دیا جائے۔‘

    شبیر احمد قریشی نے مذید بتایا کہ متاثرین ڈیم نے دھرنا موخر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ دھرنا جاری رکھیں گے اور اگر اُن کے مطالبات پر توجہ نہ دی گئی تو وہ پھر لانگ مارچ کرکے ڈیم کر کام رکوا دیں گے۔‘

    شاہراہ قراقرم پر باب چلاس کے قریب گزشتہ تین ماہ سے احتجاجی دھرنا جاری ہے اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ ’ان کے مکانات، املاک، زرعی زمینیں اور کاروبار سب کچھ ڈیم کی نظر ہوگیا ہے لیکن حکومت ان کے مطالبات کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔‘

    چلاس

    ،تصویر کا ذریعہFakhr e Alam

    گزشتہ روز گلگت بلتستان کے چلاس شہر میں ہزاروں متاثرین نے ’حقوق دو، ڈیم بناؤ‘ تحریک کا آغاز کرکے اپنے دیرینہ مطالبات کو ایک منظم بیانیے کی شکل دے دی ہے۔

    جلسے میں پیش کیے گئے 31 نکاتی ایجنڈے میں وہ تمام بنیادی مسائل شامل ہیں جو سالہا سال سے واپڈا اور وفاقی حکومت کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہیں۔

    متاثرین ڈیم کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے روشن مستقبل کی خاطر اپنی آبائی قبریں تک نیلام کر دیں، مگر آج انھیں کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے۔‘

    متاثرین کا کیا کہنا ہے؟

    صدر دیامر ڈیم موومنٹ شبیر احمد قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ احتجاج تین ماہ سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود ان کے مطالبات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ اس تحریک کے لیے مقامی سطح پر ایک بڑی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں شامل تمام نمائندے اپنے مطالبات کے لیے متحرک ہیں۔‘

    مقامی صحافی فخر عالم نے بتایا کہ ’شاہراہ قراقرم پر باب چلاس کے مقام پر احتجاجی دھرنا جاری ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں۔‘

    انھوں نے بتایا کہ ’مظاہرین کا موقف ہے کہ سرکاری ادارے اعتماد کی بحالی کے بجائے اس معاملے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں متاثرین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اگر ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو وہ لانگ مارچ کرتے ہوئے ڈیم سائٹ کا تعمیراتی کام روکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔‘

    چلاس

    ،تصویر کا ذریعہFakhr e Alam

    گلگت بلتستان حکومت کا اس پر کیا کہنا ہے؟

    اس بارے میں گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گلگت بلتستان حکومت اس میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے باقی یہ مسئلہ وفاقی حکومت اور واپڈا کا ہے۔‘

    اس بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گلگت بلتستان حکومت نے چیئرمین واپڈا کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں ان سے کہا ہے کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پسماندہ علاقے کے لیے مناسب وسائل اور فنڈز فراہم کیے جائیں تاکہ اس علاقے میں تمام متاثرہ افراد کو ان کے نقصانات کا مکمل معاوضہ فراہم کیا جا سکے۔‘

    انھوں نے بتایا کہ ’اس بارے میں گلگت بلستان حکومت نے بارہا وفاقی سطح پر رابطے کیے ہیں اور ان مسائل کی نشاندہی کی ہے لیکن اب تک اس بارے میں کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔‘

    فیض اللہ فراق نے بتایا کہ ’دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے اعلان کے بعد سے اس علاقے میں لوگوں کی مکانات، زرعی زمینیں اور دیگر املاک کو ختم کر دیا گیا اور اب یہاں جھیل بننے سے مذید مشکالات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔‘

    چلاس

    ،تصویر کا ذریعہFakhr e Alam

    ’حقوق دو ڈیم بناؤ تحریک میں شامل لوگوں کے مطالبات کیا ہیں؟

    تحریک حقوق دو ڈیم بناؤ کی جانب سے جو مطالبات پیش کیے گئے ہیں ان میں متاثرین کی بحالی، زرعی زمین کی فراہمی، اراضی کی ازسر نو پیمائش اور معاوضے کی ادائیگی، رہائشی پلاٹس اور سہولیات، سروے میں غلطیوں کی تصحیح، بجلی اور رائلٹی کا تعین، گندم سبسڈی کی مستقل بحالی، صحت و فلاحی منصوبے، مقامی افراد کو ملازمتوں کی فراہمی، سی بی ایم سکیموں کی تقسیم، زمین کی ملکیت کا تحفظ، سونا نکالنے والے مزدوروں کے لیے معاوضہ، شہری سہولیات کی فراہمی اور دیگر شامل ہیں۔

  5. میں نے آج تک کسی سیاسی مخالف کو پکڑنے یا چھوڑنے کے احکامات نہیں دیے: مریم نواز

    MN

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سابق وزیراعظم عمران خان کے سیاسی انتقام لینے سے متعلق دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میں نے آج تک کبھی کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ اسے پکڑ لو اور اسے چھوڑ دو۔‘

    وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’کتنی کالز دی گئیں کہ گھروں سے باہر نکلو جلاؤ گھراؤ کرو مگر کسی نے ان کی باتوں پر کان نہیں دھرا اور کوئی اپنے گھروں سے نہیں نکلا، صوبہ خیبر پختونخوا سے بھی جو لوگ ان کے ساتھ نکلے وہ سب سرکاری ملازمین تھے۔‘

    وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا آسان کاروبار پروگرام کی تقریب سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ ’میں نے آج تک کبھی کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا اسے پکڑ لو اور اسے چھوڑ دو۔ میرے پاس ان باتوں کا وقت نہیں ہے، میں تو بس اپنے لوگوں کی خدمت کے بارے میں سوچتی ہوں اور انھیں کے لیے کام کر رہی ہوں۔‘

    اُنھوں نے کہا کہ ’کوئی اگر اڈیالہ جیل میں اچھا کھانا کھا رہا ہے تو کھائے مُجھے ایسی کسی بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہمیں اگر کسی بات پر اعتراض ہے تو وہ یہ کہ یہ مُلک اب جلاؤ گھراؤ، بدتمیزی اور انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا اور نا ہم ایسا ہونے دیں گے۔‘

    واضح رہے کہ 15 فروری کو سابق وزیراعظم عمران خان کے ذاتی ایکس اکاؤٹ پر جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’رمضان المبارک کے بعد ہم تمام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بنائیں گے اور ملک گیر احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ ہم ملک میں قانون کی حکمرانی کے لئے پاکستان کے ہر شعبے سے منسلک افراد وکلاء، کسانوں، مزدوروں، علماء اور طلبا سمیت سب پاکستانیوں کو دعوت دیں گے کہ اس احتجاج میں شرکت کریں اور اپنے حقوق کی بحالی کے لیے نکلیں۔ یہ احتجاج آئین اور جمہوریت کی بحالی اور حقیقی آزادی کے لیے ہو گا۔‘

    تاہم مریم نواز کا لاہور میں پیر کے روز ہونے والی تقریب کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہنا تھا کہ ’عوام ان کے جھوٹے وعدوں اور جلاؤ گھراؤ کی باتوں سے تنگ آچُکی ہے انھوں نے اپنے بچوں کے لیے روزگار کمانا ہے، بچوں کو تعلیم دینی ہے۔‘

    وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ ’سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جب عوام سے کوئی وعدہ کیا ہے تو اُسے پورا کیا ہے، انھوں نے کبھی اپنی عوام سے کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا ہے۔‘

    اُن کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف کے دور میں مہنگائی دو فیصد پر تھی جسے 38 فیصد تک پہنچا دیا گیا، جس کے بعد لوگوں کا جانا مُشکل ہو گیا لوگوں نے خودکُشیاں کرنی شروع کر دیں۔ مگر اب ایک مرتبہ پھر جب پاکستان مُسلم لیگ ن کی حکومت آئی ہے تو مہنگائی ایک مرتبہ پھر چار فیصد پر آگئی ہے۔‘

    مریم نواز نے سابق وزیراعظم کا نام لیے بغیر اُن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جب اُن کی حکومت تھی تو مُلکی معشیت کو ڈبو دیا، لوگوں کے کاروبار تباہ ہو گئے، جو انٹرنیشنل کمپنیاں پاکستان میں کاروبار کی غرض سے یہاں موجود تھیں وہ مُلک چھوڑ کر چلی گئیں۔‘

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس مُلک کے نوجوانوں کو اس بات کی سمجھ آگئی ہے کہ کس نے اُن کا مستقبل تباہ کیا تھا اور اب کون دن رات ہمارا مستقبل بنانے کی کوشش میں ہے۔‘

  6. کرم میں قافلے پر فائرنگ سے ایک ڈرائیور زخمی: ’شرپسند عناصر امن خراب کرنا چاہتے ہیں‘

    کرم

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں ایک مرتبہ پھر سامان لے جانے والے گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کی گئی ہے جس میں ایک اب تک ایک ڈرائیور کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

    صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے مطابق ’کابینہ نے کرم میں قافلے پر حملے کا سختی سے نوٹس لیا ہے‘ اور وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے ’شرپسند عناصر کے خلاف سخت ایکشن کی ہدایت کی ہے۔‘

    ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ شرپسند عناصر امن خراب کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں۔‘

    مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ قافلہ معمول کے مطابق جا رہا تھا کہ اچانک لوئر کرم میں اچت اور مندوری کے درمیان ’نامعلوم افراد نے فائرنگ شروع کر دی ہے جس پر سکیورٹی اہلکاروں نے جوابی کارروائی کی۔‘

    پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’دونوں جانب سے فائرنگ کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ کچھ لمحوں کا وقفہ ہوا پھر فائرنگ شروع ہو جاتی تھی۔ اس قافلے میں پانچ آئل ٹینکرز بھی شامل تھے جنھیں بچا لیا گیا۔‘

    پولیس کے مطابق ایک ڈرائیور زخمی ہوا ہے جسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ زخمی ڈرائیور کا نام محمد اکرم خان بتایا گیا ہے اور انھیں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال علیزئی پہنچا دیا گیا ہے۔

    اس ہسپتال میں موجود ڈاکٹر حسن کے مطابق اکرم خان کو کمر پر گولی لگنے کے ساتھ ساتھ اس کے چھروں سے دیگر زخم آئے تاہم اب ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

    ڈاکٹر حسن کے مطابق ڈرائیور نے انھیں بتایا کہ ان کے آگے بھی گاڑیاں تھیں اور پیچھے بھی۔ انھیں نہیں معلوم کہ ’کس مقام پر وہ تھے جب فائرنگ شروع ہوئی۔‘

    ایسی اطاعات ہیں کہ آج پہلے مرحلے میں ایک 120 گاڑیوں کا قافلہ روانہ کیا جانا تھا تاہم جب 64 گاڑیاں کرم کے سرحدی علاقے ٹل سے روانہ کی گئیں تو ان پر حملہ کیا گیا۔

    ضلع اپر کرم کے علاقے میں چند ماہ سے راستے بند ہیں جس کی وجہ سے وہاں خوراک، آئل، ادویات اور دیگر بنیادی سامان کی قلت پیدا ہو گئی ہے جبکہ لوگ بھی اپر کرم سے ملک کے دیگر علاقوں کو نہیں جا سکتے اور نہ ہی دیگر علاقوں میں لوگ پاڑہ چنار اور اپر کرم کے دیگر علاقوں کو جا سکتے ہیں۔

    سرکاری تحفظ میں قافلوں کی شکل میں پاڑہ چنار اور دیگر علاقوں کو بنیادی اشیا کی ترسیل کی جاتی ہے جس پر حملوں کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔

  7. پاکستان میں چینی کی قیمت 165 روپے فی کلو سے تجاوز کر گئی، قیمت میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟, تنویر ملک، صحافی

    چینی کی قیمت

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    پاکستان میں چینی کی قیمت میں گذشتہ دو ہفتوں میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں چینی کی ریٹیل قیمت 165 سے 170 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔

    واضح رہے کہ ملک میں اس سال شروع میں چینی کی ریٹیل قیمت 130روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی تھی تاہم فروری کے مہینے میں اس کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہےا ور ملک میں رمضان کے مہینے کے شروع ہونے سے پہلے اس کی قیمت میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

    خیال رہے کہ حکومت نے رمضان کے مہینے میں رمضان سٹالز پر چینی 130 روپے فی کلو فروخت کی ہدایت کر رکھی ہے۔ پاکستان میں شوگر ملز کی جانب سے چینی کی پیداواری لاگت بڑھنے کو اس کی قیمت میں اضافے کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔

    موجودہ حکومت نے جون سے اکتوبر 2024 کے دوران 7 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی، پھر آخری بار اکتوبر 2024 میں 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمدکرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ پاکستان میں اجناس کے شعبے کے ماہرین کے مطابق چینی کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ ملوں کی جانب سے زیادہ منافع کمانے کے ساتھ رمضان سے قبل چینی کے کاروبار پر مڈل مین اور سٹہ بازوں کا کردار ہے جو رمضان میں اس کی کھپت بڑھ جانے سے قبل اس پر زیادہ منافع کمانے چاہتے ہیں۔

    کراچی ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین روف ابراہیم نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت کراچی میں چینی کی ریٹیل قیمت 165 روپے ہے جس کی وجہ رمضان سے قبل اس پر کھیلا جانے والا سٹہ ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ چینی کی کھپت ساڑھے پانچ لاکھ ٹن تک عموماً ہوتی ہے جو رمضان میں دس سے گیارہ لاکھ ٹن ہو جاتی ہے جس کی وجہ اس کا مہینے کے دوران زیادہ استعمال ہے۔ انھوں نے کہا مڈل مین اور سٹہ کھیلنے والے اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

    انھوں نے شوگر ملز کی جانب سے زیادہ پیداواری لاگت کے دعوے کو بھی مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی پیداواری لاگت 123 روپے فی کلو تک ہے جب کہ دوسری جانب وہ چینی کی برآمد کر کے اچھا منافع کما رہی ہیں۔

  8. قیام امن کے لیے یوکرین میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں: برطانوی وزیراعظم

    UK on Ukrain

    ،تصویر کا ذریعہPA Media

    برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے تحفظ اور امن مذاکرات کے لیے معاہدے کو یقینی بنانے کی غرض سے برطانوی فوجی دستے یوکرین بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔

    برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگر ہم نے پوتن کو مستقبل کی کسی بھی جارحیت سے روکنا ہے تو پھر یوکرین میں دیرپا امن کی بحالی ضروری ہے۔

    UK

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    پیرس میں یورپی ممالک کے ہونے والے اجلاس میں شرکت سے قبل برطانوی وزیراعظم نے کہا ہے کہ اگر ضرورت ہوئی تو پھر ایسے میں ان کا ملک اپنی فوج بھیج کر یوکرین کو تحفظ کی ضمانت دینے کو تیار ہے۔

    اطلاعات کے مطابق امریکہ اور روس کے درمیان امن مذاکرات کل یعنی منگل کو سعودی عرب کے دارلخلافہ ریاض میں ہوں گے۔

  9. امریکہ اور روس کے درمیان سعودی عرب میں ہونے والے امن مذاکرات میں یوکرین کو مدعو نہیں کیا گیا: ذرائع

    Ukrain

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات کے لیے یوکرین کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔

    یوکرین کی حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرین سے جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں ان کے ملک کو ان مذاکرات میں حصہ لینے کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔

    یوکرین کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی کیتھ کیلوگ کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب میں پیر سے شروع ہونے والے مذاکرات میں کائیو کی شرکت ہو گی مگر ذریعے کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات میں ان کے ملک کی طرف سے کوئی بھی وفد شریک نہیں ہوگا۔

    واضح رہے کہ یورپین رہنماؤں کو بھی ان مذاکرات میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔ اب جلدی میں فرانس کے صدر نے پیرس میں پیر کو اس موضوع پر کانفرنس طلب کی ہے۔

    واشنگٹن نے یوکرین جنگ سے متعلق اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا عندیہ دیا ہے۔

  10. ’فتنہ الخوارج‘ والے سرینڈر کردیں تو ریاست سے رحم کی توقع کر سکتے ہیں: آرمی چیف کا طلبہ سے خطاب

    COAS

    پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ’فوج آج بھی فتنۃ الخوارج سے روزانہ کی بنیاد پر لڑ رہی ہے اور مذہب کے حوالے سے ان کی خودساختہ تشریح سے اتفاق نہیں کرتی۔‘

    انھوں نے کہا کہ اگر وہ ریاست کے سامنے خود کو سرنڈر کردیں تو ریاست سے رحم کی توقع کرسکتے ہیں۔‘

    جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ’اللہ نے خارجیوں کے لیے ایک گنجائش رکھی ہے کہ اگر وہ تمہاری گرفت میں آنے سے قبل تائب ہوجائیں اور سر تسلیم خم کردیں تو انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بہت غفور و رحیم ہے۔‘

    پی ٹی وی کے مطابق آرمی چیف نے یہ گفتگو 12 فروری کو ملک بھر کی جامعات سے آئے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی جس کا تین منٹ 10 سیکنڈ کا کلپ آئی ایس پی آر کی جانب سے چار دن بعد یعنی 16 فروری کو سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا ہے۔ اس سیشن میں طلبہ نے آرمی چیف نے کیا سوالات کیے اس کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئی ہیں۔

    COAS

    ،تصویر کا ذریعہISPR

    ’جب تک قوم اور بالخصوص نوجوان ساتھ کھڑے ہیں پاک فوج کبھی نہیں ہارے گی‘

    آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ جب تک قوم اور بالخصوص نوجوان ساتھ کھڑے ہیں اور ہمارے اندر قربانی کا جذبہ ہے تو پھر ایسے پاک فوج کبھی نہیں ہارے گی۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ نوجوانوں سے گفتگو ہمیشہ میرے لیے انتہائی خوشی کی حامل ہوتی ہے اور نوجوانوں سے بات کر کے اس حقیقت کا تجدید ہوتی ہے کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ’ہمارے لیے پاکستانیت سب سے اہم ہے، ہم فتنہ الخوارج کے فسادیوں سے لڑ رہے ہیں، اسلام کی غلط تشریح کرنے والے گمراہ کن گروہ کو کبھی ملک پر اپنی اقدار مسلط نہیں کرنے دیں گے۔‘

    جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ’ہم کامریڈز کی طرح لڑتے ہیں، فوج کا یہی تو مزہ ہے کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون سندھی، کون پنجابی، کون بلوچ اور کون پٹھان ہے، ہم بس ساتھیوں کی طرح لڑتے ہیں، ہمارے لیے صرف پاکستانیت ہی اہم ہے اور ہمیں اس سے محبت ہے۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جہاد کر رہے ہیں مگر یہ خارجی اور دین سے نکلے ہوئے ہیں کیونکہ انھوں نے اسلام کی خود ساختہ تشریح کر رکھی ہے جس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔‘

    آرمی چیف نے قرآن کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خارجیوں کے بارے میں اللہ کے احکامات یہ ہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں، اور زمین پر فساد برپا کرتے ہیں، ان کی سزا یہ ہے کہ انھیں ختم کردو، پھانسیوں پر لٹکا دو اور ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دو یا انھیں اپنی زمین سے دربدر کردو، یہ سزا دنیا میں ہے اور آخرت میں انھیں اس سے بڑا عذاب دیا جائے گا۔

  11. اگر تمام یرغمالیوں کو واپس نہیں کیا گیا تو غزہ کے لیے ’جہنم کے دروازے‘ کھول دیں گے: نیتن یاہو

    اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور  امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو

    ،تصویر کا ذریعہAFP

    اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کرنے کی صورت میں جنگ دوبارہ شروع کرنے کی اپنی دھمکی کو ایک بار پھر دہرایا ہے کہ اگر تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس نہیں کیا گیا تو وہ غزہ کے لیے ’جہنم کے دروازے‘ کھول دیں گے۔

    بی بی سی عربی کے مطابق نیتن یاہو نے یہ بیان امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ہمارہ ایک پریس کانفرنس کے دوران دیا۔ مارکو روبیو گزشتہ روز اسرائیل پہنچے تھے اور وہ مشرق وسطیٰ کے اپنے پہلے دورے پر ہیں۔

    توقع ہے کہ وہ اس دوران خطے کے دیگر ممالک کا بھی دورہ کریں گے۔

    نیتن یاہو نے مارکو روبیو کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا ’ہمارے پاس ایک مشترکہ حکمت عملی موجود ہے جس میں غزہ کے لیے زندگی تنگ کرنے کے منصوبہ بھی تیار ہے لیکن ہم اس کی مکمل تفصیلات عوام کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتے۔

    ’اگر ہمارے تمام یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو غزہ کے لیے(جہنم کے ) یہ دروازے ضرور کھلیں گے ۔ ہم حماس کی فوجی صلاحیتوں اور اس کی غزہ میں سیاسی حکمرانی کو ختم کر دیں گے۔‘

    اسرائیلی وزیر اعظم کے مطابق ’اسرائیل اور امریکہ مکمل تعاون کے ساتھ غزہ کے معاملے پر کام کر رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان غزہ کے حوالے سے ایک مشترکہ حکمت عملی موجود ہے۔

    ’میں سب کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ صدر ٹرمپ اور میں مکمل ہم آہنگی اور تعاون کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘ نیتن یاہو اور امریکی وزیر خارجہ کے درمیان مشرق وسطیٰ کے دیگر اہم مسائل پر بھی بات چیت ہوئی، جن میں لبنان، شام اور ایران کی صورتِ حال شامل ہے۔

  12. قلات میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ، ایک اہلکار ہلاک, محمد کاظم، بی بی سی اردو کوئٹہ

    Balochistan

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    بلوچستان میں حکام کے مطابق لیویز فورس کی چیک پوسٹ پر نا معلوم افراد کے حملے میں ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گیا ہے۔

    حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’قلات میں لیویز فورس کی چوکی پر حملے میں ایک لیویز اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ تاہم لیویز فورس کی جوابی کارروائی سے حملہ آور فرار ہوگئے۔‘

    اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ملزمان کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔‘

    وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے بھی قلات میں لیویز پوسٹ پر دہشتگرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حملے میں ہلاک ہونے والے لیویز فورس کے اہلکار کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔

    بتایا جا رہا ہے کہ لیویز فورس کی جس چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ شہر سے 32 کلومیٹر دور ’تُوغو چھپر‘ کے علاقے میں موجود ہے۔

    شاہد رند کا کہنا تھا کہاس حملے میں زخمی ہونے والے لیویز فورس کے اہلکاروں کو قلات میں طبی امداد کی فراہمی کے بعد علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔

    تاہم اب تک قلات میں لیویز فورس کی چیک پوسٹ پر حملے کی ذمہ داری کسی بھی گروہ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی ہے۔

  13. نئی دہلی ریلوے سٹیشن پر بھگدڑ کی وجہ: انتظامیہ اور عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

    انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے ریلوے سٹیشن پر سنیچر کی رات بھگدڑ مچنے کے واقعے میں اب تک کم از کم 18 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی ہے جب کہ متعدد افراد زخمی ہیں۔

    انتظامیہ نے مرنے والے تمام 18 افراد کے ناموں کی فہرست بھی جاری کر دی ہے۔

    اس کے ساتھ ہی ریلوے نے مرنے والوں کے لواحقین کو دس دس لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔ شدید زخمیوں کے لیے ڈھائی لاکھ روپے اور معمولی زخمیوں کے لیے ایک لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    انتظامیہ نے اس سانحے کی وجہ بے پناہ بھیڑ کو قرار دیا ہے۔ اصل وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

    عینی شاہدین کے مطابق بھگدڑ ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پر جانے والے پل پر بھیڑ کی وجہ سے مچی تھی۔

    شمالی ریلوے کے ترجمان نے بتایا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو پٹنہ جانے والی مگدھ ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر 14 پر کھڑی تھی اور جموں کی طرف جانے والی اتر سنکرانتی ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر 15 پر کھڑی تھی۔ اس دوران بھگدڑ میں مسافر پھسل کر فٹ اوور برج سے پلیٹ فارم نمبر 14 اور 15 نمبر کی طرف جانے والی سیڑھیوں پر گر گئے اور ان کے پیچھے بہت سے مسافر ان کی زد میں آ گئے اور یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔

  14. نئی دہلی کے ریلوے سٹیشن پر بھگدڑ سے 18 افراد ہلاک، دس زخمی, مرزا اے بی بیگ، نئی دہلی

    India

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو 11 فروری 2025

    انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی ریلوے سٹیشن پر اچانک امڈ آنے والی بھیڑ میں بھگدڑ مچنے سے 18 لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔

    یہ واقعہ سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب کو تقریبا نو بجے پیش آیا۔

    بی بی سی کے نمائندے دلنواز پاشا اور ابھینو گویل سے بات کرتے ہوئے لوک نایک (ایل این جی پی) ہسپتال کی سی ایم ایس رِتو سکسینہ نے 18 لوگوں کی موت کی تصدیق کی ہے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مرنے والوں میں تین بچے اور دس خواتین شامل ہیں۔

    سوشل میڈیا پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے اور وہ ریلوے کے وزیر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کئی صارفین کا دعویٰ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد چھپائی جا رہی ہے جبکہ بہت سے اخباروں اور ٹی وی چینلز کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ دہلی کے ایل این جی پی ہسپتال کے اندر میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

    وزارتِ ریل کے ترجمان دلیپ کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’رات کو پریاگ راج ایکسپریس اور مگدھ ایکسپریس ٹرین کے لیے بہت سے مسافر آئے اور سب نے سوچا کہ یہ آخری ٹرین ہے اور وہ اسی سے روانہ ہوں گے۔

    انڈیا

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

    ترجمان کے مطابق ’پریاگ راج ایکسپریس میں سوار ہونے کے لیے بھیڑ امڈ آئی ہے، باقی معلومات سی سی ٹی وی دیکھنے کے بعد سامنے آئیں گی۔ ڈی جی آر پی ایف اور چیئرمین ریلوے بورڈ سٹیشن پر ہیں، وہ دیکھیں گے کہ کیا ہوا، ہم نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی ہے۔‘

    وزیر اعظم نریندر مودی نے اس حادثے پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

    سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے لکھا کہ ’نئی دہلی ریلوے سٹیشن پر ہونے والی بھگدڑ سے افسردہ ہوں۔ میری ہمدردیاں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جنھوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا۔ میں زخمیوں کی جلد صحت یابی کی کے لیے دعاگو ہوں۔ انتظامیہ بھگدڑ سے متاثر ہونے والوں کا سراغ لگا رہی ہے۔‘

    وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ ’نئی دہلی ریلوے سٹیشن پر رونما ہونے والے حادثے کے بارے میں ریلوے کے وزیر اشونی وشنو جی اور دیگر متعلقہ حکام سے بات کی ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر اور دہلی پولیس کمشنر سے بات کی اور ہر کسی کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کی ہدایات دیں۔ میں اس حادثے میں جان گنوانے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ زخمیوں کا ہر ممکن علاج کیا جا رہا ہے۔ میں ان کی جلد صحت یابی کی خواہش کرتا ہوں۔‘

  15. راولپنڈی اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے، ریکٹر سکیل پر شدت 4.8 ریکارڈ

    Earth Quake

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔

    پاکستان کے زلزلہ پیما مرکز کے مطابق ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 4.8 ریکارڈ کی گئی، اس کی گہرائی 17 کلومیٹر اور زلزلے کا مرکز راولپنڈی کے جنوب مشرق میں آٹھ کلومیٹر دور تھا۔

    سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کے مطابق زلزلے کے جھٹکے 10 بج کر 48 منٹ پر محسوس کیے گئے۔

    پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں سمیت پنجاب کے ضلع چکوال اور گرد و نواح میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

  16. ہرنائی دھماکے میں کان کنوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج: ’دھماکہ اتنا شدید تھا کہ گاڑی الٹ گئی‘, محمد کاظم، بی بی سی اردو، کلوئٹہ

    احتجاج

    ،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

    بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں شاہرگ کے علاقے ٹاکری میں جمعہ کے روز ہونے والے دھماکے کے خلاف سینیچر کے روز شاہرگ کے مقام پر لوگوں نے بطور احتجاج کوئٹہ کراچی شاہراہ کو بطور احتجاج بند کیا جس کے باعث اس شاہراہ پر ٹریفک معطل رہی۔

    سرکاری حکام کے مطابق اس دھماکے میں 10 افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے جن میں سے اکثریت کا تعلق سوات اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں سے تھا۔

    دھماکے میں زخمی ہونے والوں میں ڈرائیور عبدالمالک بھی شامل ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ گاڑی اچھل کر کچھ فاصلے پر گر کر الٹ گئی۔ گاڑی میں سوار مجھ سمیت تین لوگوں کے سوا باقی کوئی لوگ ادھر ادھر بکھرے ہوئے پڑے تھے۔‘

    انھوں نے بتایا کہ چونکہ گاڑی کا پچھلا حصہ براہ راست دھماکے کی زد میں آگیا تھا جس کی وجہ سے وہ تمام لوگ ہلاک یا شدید زخمی ہوگئے جو کہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔

    سرکاری حکام کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام افراد خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے مزدور تھے جن کی لاشوں کو ان کے آبائی علاقوں میں پہنچا دیا گیا۔

    ماضی میں بھی بلوچستان کے کوئلہ کانوں کے علاقوں میں ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن رواں سال یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور بڑا واقعہ تھا۔

    وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

    ’گاڑی سے نکل کر دیکھا تو پیچھے تمام افراد ہوش میں نہیں تھے‘

    عبدالمالک اگرچہ دھماکے میں معمولی زخمی ہوئے تھے تاہم مقامی سطح پر طبی امداد کے لیے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے باقی سات زخمی افراد کے ہمراہ علاج کے لیے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور کوئٹہ منتقل کیا گیا۔

    انھوں نے بتایا کہ چھٹی کے دن وہ مزدوروں کو بنیادی اشیاء صرف کی خریداری کے لیے بازار لے جاتے ہیں اور واپس لاتے ہیں اور جمعے کو بھی وہ مزدوروں کو لے کر بازار جارہے تھے کہ پہاڑ ی سے اترنے کے بعد سیف اللہ شیلا کے علاقے میں روڈ پر نصب دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے گاڑی اچھل کر کچھ فاصلے پر گرکر بالکل الٹ گئی۔

    ان کا کہنا تھا کہ گاڑی میں 18کے قریب لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن میں سے ان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پربیٹھے زخمی ہونے والے دوسرے دو افراد بھی دھماکے کے بعد ہوش میں تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ کوشش کرکے گاڑی سے کسی طرح نکل گئے تو یہ دیکھا کہ پیچھے بیٹھنے والے تمام افراد ہوش میں نہیں تھے اور ان میں سے بعض خون میں لت پت تھے۔‘

    انھوں نے کہا کہ فوری طور پر ان لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے جو لوگ وہاں پہنچے وہ گاڑیوں میں سفر کرنے والے مزدور تھے جو کہ وہاں کوئلے کی کانوں پر کام کرتے ہیں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدور تھے۔

    مقامی حکام کے مطابق اس علاقے میں ایک کچی روڈ پر نامعلوم افراد نے دھماکہ مواد نصب کیا تھا جو کہ مزدوروں کو لے جانے والی گاڑی کے ٹکرانے سے پھٹ گیا۔

    اس واقعے کی تاحال کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے ۔

    ڈرائیور عبدالمالک
    ،تصویر کا کیپشنڈرائیور عبدالمالک کا کہنا ہے کہ ’دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ گاڑی اچھل کر کچھ فاصلے پر گر کر الٹ گئی۔

    واقعے کے خلاف احتجاج

    بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی گئی بلکہ سینیچر کے روز اس کے خلاف ہرنائی کے علاقے میں پہیہ جام ہڑتال بھی کی گئی۔

    شاہرگ میں شاہراہ بند ہونے کی وجہ سے کوئٹہ سمیت دیگر شہروں اور ہرنائی کے درمیان گاڑیوں کی آمدو رفت معطل رہی۔

    سیاسی جماعتوں اور ہرنائی میں مظاہرین نے واقعے میں ملوث افراد کی گرفتاری اور کوئلہ میں کام کرنے والے کان کنوں کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا۔

    دراِیں اثنا بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق ہلاک ہونے والے کان کنوں کی لاشوں کو ایمبولینسوں میں ان کے آبائی علاقوں کو بھیج دیا گیا۔

    بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے کانکنوں کے حوالے سے ایک ویڈیو سماجی رابطوں کی میڈیا پر گردش کررہی ہے جس میں لوگ چندہ اکٹھا کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اس ویڈیو کی تناظر میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے اس حوالے سے تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تمام لاشوں کو سرکاری ایمبولینسز میں احترام کے ساتھ ان کے آبائی علاقوں تک پہنچایا گیا۔

    انھوں نے کہا کہ واقعے کے بعد متعلقہ حکام نے مئوثر اقدام کرتے ہوئے زخمیوں کو بہتر طبی امداد کی فراہمی کے لیے کوئٹہ منتقل کیا۔

    دراِیں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

    ہرنائی کہاں واقع ہے؟

    ہرنائی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے شمال مشرق میں اندازا ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

    اس ضلع کی غالب اکثریت مختلف پشتون قبائل پر مشتمل ہے تاہم اس کے سرحدی علاقوں میں بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آباد ہیں۔

    شاہرگ سمیت ہرنائی کے دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں کوئلے کی کانیں ہیں جن میں ہزاروں کانکن اور مزدور کام کرتے ہیں۔

    کوئلے کی کانوں کے علاوہ ہرنائی سبزیوں کے پیداوار کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔

    ضلع ہرنائی کی سرحدیں بلوچستان کی شورش سے متاثرہ اضلاع کوہلو اور ضلع کچھی کے علاقے بولان سے بھی لگتی ہیں۔

    بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے ہرنائی کے مختلف علاقوں میں بھی بم دھماکوں، سکیورٹی فورسز پر حملوں سمیت سنگین بدامنی کے دیگر واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں۔

    تاہم سرکاری حکام کے مطابق ماضی کے مقابلے میں اب ہرنائی میں حالات میں پہلے کے مقابلے میں بہتری آئی ہے ۔

    بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی سب سے بڑی صنعت ہے جس سے ہزاروں کان کن اور مزدور وابستہ ہیں۔

    ان میں سے کوئلہ کانوں کے اندر کام کرنے والے کان کنوں میں سے زیادہ تر کا تعلق سوات اور اس سے متصل خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں کے علاوہ افغانستان سے ہے۔

    جمعے کو ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں بم دھماکے کا واقعہ رواں سال ہلاکتوں کے لحاظ سے اپنی نوعیت کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔

    اس سے قبل گذشتہ سال اکتوبر میں دُکی کے علاقے میں ایک بڑا حملہ ہوا تھا جس میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے 21کان کن اور مزدور مارے گئے تھے۔

    دُکی میں پیش آنے والے بڑے حملے سے قبل کوئلہ کانوں میں بدامنی کے جو سنگین واقعات رونما ہوئے ان میں مچھ کے علاقے میں جنوری 2021ء میں پیش آنے والا واقعہ بھی شامل تھا جس میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے 11کان کنوں کو اغوا کے بعد ہلاک کیا گیا۔

  17. بریکنگ, خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں، 15 شدت پسند ہلاک

    شمالی وزیرستان، فائل فوٹو

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں دو مختلف کارروائیوں میں کم از کم 15 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

    بیان کے مطابق ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے ہتھلہ میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر سکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والے شدت پسند علاقے میں دہشت گردی کی متعدد سرگرمیوں میں ملوث تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتہائی مطلوب تھے۔

    اس کے علاوہ شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں کیے گئے ایک اور آپریشن میں سکیورٹی فورسز نے چھ شدت پسندوں کو نشانہ بنایا۔ تاہم شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران لیفٹیننٹ محمد حسان ارشادسمیت چار فوجی اہکار بھی مارے گئے۔

    علاقے میں مزید شدت پسندوں کی ممکنہ موجودگی کے پیشِ نظر سرچ آپریشن کیے جارہے ہیں۔

  18. افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت کئی غیر ملکی شدت پسند تنظیموں کے تربیتی مراکز ہیں: سلامتی کونسل کی رپورٹ

    طالبان

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    افغانستان میں طالبان حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت انصار اللہ (تاجکستانی طالبان) نے افغانستان میں تربیتی مراکز قائم کر رکھے ہیں اور انھیں القاعدہ نیٹ ورک تربیت دے رہا ہے۔

    رکن ممالک کی معلومات کی بنیاد پر سلامتی کونسل کی پابندیوں کی نگرانی کمیٹی کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں ٹی ٹی پی، القاعدہ اور انصار اللہ کے علاوہ افغانستان میں داعش، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ/ ترکستان اسلامک پارٹی، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور دیگر غیر ملکی عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

    تاہم طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’بعض ممالک اور انٹیلی جنس حلقوں‘ کی جانب سے بے بنیاد ’پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔

    سلامتی کونسل کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تربیتی مراکز ان سے الگ ہیں جہاں القاعدہ پہلے کام کرتی تھی۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور جماعت انصار اللہ کے تربیتی مراکز خوست، کنڑ، ننگرہار، پکتیکا اور تخار میں واقع ہیں۔

    اس رپورٹ کے مطابق القاعدہ نے افغانستان میں سرگرم غیر ملکی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے اور اب وہ 14 صوبوں میں موجود ہے۔

    تنظیم کی سابقہ ​​رپورٹ میں افغانستان کے 12 صوبوں میں القاعدہ سے وابستہ مراکز کی موجودگی کا ذکر کیا گیا تھا۔

    طالبان

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی طالبان تحریک نے پکتیکا کے کنڑ، ننگرہار، خوست اور برمل میں نئے تربیتی مراکز کھولے ہیں اور افغان طالبان سمیت عسکریت پسندوں کی بھرتی میں اضافہ کیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق، جون 2023 سے، القاعدہ ’صوبہ کنڑ میں تربیتی مراکز میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو خودکش حملوں اور نظریاتی مسائل کی تعلیم دے رہی ہے۔‘

    سلامتی کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب سے یہ رپورٹ تیار ہوئی ہے، افغانستان اور پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد 600 سے تجاوز کر گئی ہے۔

    رپورٹ میں پاکستانی طالبان تحریک کے لیے افغان طالبان کی حمایت کا بھی ذکر کیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی رہنما نور ولی محسود ہر ماہ افغان طالبان سے 30 لاکھ افغانی (43 ہزار ڈالر) وصول کرتے ہیں۔

    ماضی میں بھی افغانستان میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے تاہم گروپ اور طالبان حکومت دونوں نے اس کی تردید کی ہے۔

    پاکستانی طالبان تحریک بین الاقوامی افواج اور افغانستان میں سابقہ ​​حکومت کے خلاف لڑائی میں افغان طالبان کی قریبی اتحادی رہی ہے۔

    القاعدہ اور داعش

    اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور یہ گروپ ٹی ٹی پی، جماعت انصار اللہ، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور ترکستان اسلامک پارٹی کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے افغانستان بھر میں القاعدہ نیٹ ورک کے ارکان کو تربیتی مراکز اور محفوظ ماحول فراہم کیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے نچلے درجے کے ارکان کابل کے مختلف علاقوں بشمول شہر نو، قلعہ فتح اللہ اور وزیر اکبر خان میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہیں، جب کہ ان کے رہنما کابل سے باہر کنڑ، غزنی، لوگر، میدان وردک اور بلغلی، سرائے پل جیسے دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔

    افغانستان کو داعش خراسان کا علاقائی مرکز بھی کہا جاتا رہا ہے اور کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت اس گروپ کے عسکریت پسندوں کے اثر و رسوخ کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

    سلامتی کونسل کی رپورٹ میں طالبان حکومت کے وزیر برائے پناہ گزیں خلیل الرحمان حقانی پر خودکش حملے کا بھی ذکر کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

    غور طلب ہے کہ اس گروپ نے گذشتہ ہفتے قندوز شہر میں نیو کابل بینک اور دارالحکومت کابل میں شہری ترقی کی وزارت کے قریب دو دیگر خودکش حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔

    طالبان

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    افغان طالبان کی تردید

    طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کسی گروپ کا کوئی مرکز نہیں ہے۔

    طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ رپورٹ ’کچھ مخالف جماعتوں‘ کے پروپیگنڈے پر مبنی ہے جو افغانستان کے خلاف ’سازشوں میں مصروف‘ ہیں اور رائے عامہ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

    انھوں نے اسے افغانستان کی صورتحال کا منفی جائزہ قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا نام افغانستان کے خلاف غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

    ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ’اسلامی امارت [طالبان حکومت]، اپنے وعدوں کی بنیاد پر، کسی بھی غیر ملکی گروپ کو افغانستان میں سرگرمیوں، رابطہ کاری یا تربیتی مراکز کی اجازت نہیں دیتی۔‘

  19. آج رہا ہونے والے پانچ فلسطینیوں کو ہسپتال لے جایا گیا: ریڈ کراس

    آج رام اللہ میں دس افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔

    رہا ہونے والے ایک شخص کو صحافیوں اور عینی شاہدین کے گھیرے میں سٹریچر کے ذریعے لا کر ایمبولینس میں ڈالا گیا۔

    فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پانچ افراد کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔

    محمد فاقح کا کہنا ہے کہ ’ان سب کو دائمی بیماریاں ہیں اور ایک شخص کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔‘

    یہاں رہا کیے گئے تمام افراد طویل سزا کاٹ رہے تھے، انھیں اقدام قتل اور ’غیر قانونی تنظیم کے لیے کام کرنے‘ سمیت دیگر جرائم میں سزا سنائی گئی تھی۔

  20. ’جنگ بندی کے لیے ایک مثبت علامت لیکن دوسرا مرحلہ اہم ہے‘, رشدی ابوالوف، غزہ کے لیے نامہ نگار، قاہرہ

    حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کے چھٹے گروپ کی آسانی سے اور بروقت رہائی غزہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کی ممکنہ تکمیل کے لیے ایک مثبت علامت ہے۔

    تاہم، زیادہ تر فلسطینی اس دوسرے اور انتہائی اہم مرحلے کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے فکرمند ہیں۔ اس کا پہلا مرحلہ جو 19 جنوری کو شروع ہوا تھا چھ ہفتوں پر مشتمل ہے۔

    معاہدے کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد میں تاخیر کا مطلب یہ ہوگا کہ اسرائیلی افواج اسرائیل اور مصر کی سرحدوں کے ساتھ غزہ کے بفر زون میں پوزیشنیں برقرار رکھے گی۔

    اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس سے تعمیر نو کی کوششوں مزید ملتوی ہو جائیں گی اور دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے مصائب کی مدت طویل ہو جائے گا جن کے گھر جنگ میں تباہ ہو گئے تھے اور وہ تباہ کن حالات میں رہ جائیں گے۔

    دریں اثنا غزہ میں حماس کی ہفتہ وار فوجی پریڈ پر بحث جاری ہے۔

    اس کے حامی اسے اسرائیل کے خلاف فتح اور مخالفت کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ غزہ میں وسیع پیمانے پر تباہی کے باوجود حماس کا اقتدار اور سیاسی منظر نامے میں رہنے پر اصرار ان کے مصائب کو مزید بڑھا سکتا ہے۔