حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوسکا، لبنان میں اسرائیلی کارروائیاں جاری

لبنان کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے جنوبی لبنان میں کم از کم 14 افراد کو ہلاک اور 80 سے زائد کو زخمی کر دیا ہے۔ لبنانی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ علاقے سے اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے انخلا کی ڈیڈ لائن ختم ہو جانے کے باوجود اب بھی وہ ملک کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔

خلاصہ

  • غزہ کی پٹی کے شمال میں ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل نے حماس پر جنگ بندی معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے ایک مرکزی سڑک بند کردی ہے۔
  • سنیچر کی شام جب وسطی غزہ میں الرشید روڈ پر لوگ گھروں کی واپسی کے لیے جمع ہوئے تو مبینہ طور پر گولیاں چلائی گئیں جس میں ایک شخص ہلاک اور کچھ زخمی ہوئے۔
  • پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا میں 3 مختلف کارروائیاں کے دوران 30 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا جبکہ 8 زخمی ہوئے۔
  • ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) نے اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔
  • بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین میں موبائل انٹرنیٹ کو بند کرنے کے بعد موبائل فون سروس کو بھی مکمل کو بند کردیا گیا ہے۔

لائیو کوریج

  1. حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوسکا، لبنان میں اسرائیلی کارروائیاں جاری

    Lebanon

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    لبنان کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے جنوبی لبنان میں کم از کم 14 افراد کو ہلاک اور 80 سے زائد کو زخمی کر دیا ہے۔ لبنانی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ علاقے سے اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے انخلا کی ڈیڈ لائن ختم ہو جانے کے باوجود اب بھی وہ ملک کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔

    لبنانی اور اسرائیلی افواج کے علاوہ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی خبردار کیے جانے کے باوجود اتوار کی صبح ہزاروں باشندے سرحد سے متصل قصبوں اور دیہاتوں میں واپس چلے گئے، جن کے بارے میں انھیں بتایا گیا تھا کہ یہ علاقہ غیر محفوظ ہے۔

    اسرائیل کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ 60 روزہ جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے کتنے فوجی لبنان میں رہیں گے یا وہ کتنے عرصے تک رہیں گے۔

    Lebanon

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    لبنان کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی افواج نے لوگوں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ ان مقامات میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے جو اب بھی زیر قبضہ ہیں۔ لبنانی فوج کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فائرنگ سے اس کا ایک فوجی ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا ہے۔

    اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جنوبی لبنان کے متعدد علاقوں میں خبردار رہنے کے لیے فائرنگ کی تاہم اُن کی جانب سے اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ آیا لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے یا نہیں۔

    یاد رہے کہ امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلا اور علاقے سے حزب اللہ کے جنگجوؤں کے انخلا کی شرط رکھی گئی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہزاروں لبنانی فوجیوں کو اس علاقے میں تعینات کیا جائے گا جہاں کئی دہائیوں تک حزب اللہ کا غالبہ رہا ہے۔

    Lebanon

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنلبنان کے نئے صدر جوزف عون

    مذاکرات سے باخبر ایک مغربی سفارتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل نے کہا ہے کہ اسے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لئے مزید وقت کی ضرورت ہے۔

    لبنان کے نئے صدر اور آرمی چیف جوزف عون کی جانب سے اتوار کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ لبنان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور وہ اس معاملے کو اعلیٰ سطح پر دیکھ رہے ہیں۔

    گذشتہ ستمبر میں یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا تھا جس کے نتیجے میں لبنان بھر میں اسرائیل کی شدید فضائی کارروائی، حزب اللہ کے سینئر رہنماؤں کا قتل اور جنوبی لبنان پر زمینی حملہ ہوا تھا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں لبنان میں تقریباً 4000 افراد ہلاک ہوئے جن میں بہت سے عام شہری بھی شامل تھے اور 12 لاکھ سے زائد باشندے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

  2. بلوچستان کے پشتون علاقوں میں بد امنی کی روک تھام کے لیے کوئٹہ میں جرگہ جاری

    پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقوں میں بد امنی کے واقعات کی روک تھام اور ان علاقوں کے دیگر مسائل کے حل کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کے لیے کوئٹہ میں جرگہ آج تیسرے روز بھی جاری ہے۔

    یہ جرگہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے زیر اہتمام منعقد ہورہا ہے جو کہ جمعے کے روز شروع ہوا تھا۔

    شدید سردی کے باوجود ایئرپورٹ روڈ پر واقع ایک مقامی میرج ہال میں منعقد ہونے والے اس جرگے میں مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے قبائلی اور سیاسی عمائدین کی ایک بڑی تعداد شریک ہے۔

    پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ میں منعقد ہونے والا یہ ساتواں جرگہ ہے۔ ان جرگوں کے انعقاد کا اعلان پارٹی کی جانب سے ضلع دکی میں گزشتہ سال کوئلہ کانوں پر ہونے والے حملے کے بعد کیا گیا تھا جس میں 22مزدوروں ہلاک ہوئے تھے۔

    اس اعلان کے بعد ژوب ، لورالائی ، سبیّ، پشین ، قلعہ عبداللہ اور چمن میں جرگوں کے انعقاد کے بعد ان جرگوں آخری سلسلہ کوئٹہ میں منعقد ہورہا ہے۔

    پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا کہنا ہے کہ بدامنی کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکمت عملی ترتیب دینے کے علاوہ ان جرگوں میں دی جانے والی تجاویز کی روشنی میں یہاں کی اراضی کی باہر کے لوگوں کوالاٹمنٹ روکنے اور ان علاقوں کے لوگوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔

    جمعے کو جرگے کا آغاز پشتون اولسی جرگہ کے سربراہ اور پارٹی کے رہنما نواب محمد ایاز خان جوگیزئی کی سربراہی میں ہوا۔ دو روز کے دوران جرگے کے مختلف سیشنز سے قبائلی اور سیاسی عمائدین نے خطاب کیا اور بدامنی کے واقعات کی روک تھام اور دیگر مسائل کے حل کےلیے تجاویز پیش کیں۔

    گذشتہ روز جرگے سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے خطاب بھی کیا۔

    محمود خان اچکزئی نے پشتونوں کو درپیش مسائل پر تفصیلی اظہار خیال کرتے ہوئے ملک کی سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’پشتون اس وقت اپنی سرزمین پر سنگین مسائل سے دوچار ہیں اور انھیں ان مسائل سے نکالنے کے لیے ان جرگوں کا انعقاد کیا جارہا ہے تاکہ ان میں دی جانے والی تجاویز کی روشنی میں ان کے حل کے لیے ایک موثر حکمت عملی اختیار کی جائے۔‘

    جرگہ آج بھی جاری رہے گا جس کے اختتام پر اس کا اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔

  3. خضدار میں بم دھماکہ، کم ازکم ایک شخص ہلاک اور سات زخمی, محمد کاظم، بی بی سی اردو

    bus

    بلوچستان کے ضلع خضدار میں اتوار کو بم کے ایک دھماکے میں کم ازکم ایک شخص ہلاک اور سات زخمی ہوگئے ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد ایک بس میں سفر کررہے تھے۔

    ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر دشتی نے فون پر بتایا کہ دھماکہ خضدار شہر سے اندازاً 60 کلومیٹر دور کھوڑی کے مقام پر پیش آیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ دھماکے سے متاثر ہونے والی بس خضدار سے براستہ ونگُو راولپنڈی جارہی تھی۔

    انھوں نے بتایا کہ کھوڑی کے علاقے میں دھماکہ خیز مواد روڈ کنارے کھڑی ایک آلٹو کار میں تھا جو کہ اس وقت پھٹ گیا جب مسافر بس وہاں سے گزررہی تھی۔

    ان کا کہنا تھا کہ دھماکے سے آلٹو کار مکمل تباہ ہوگئی جبکہ دھماکے کی زد میں آنے سے بس بھی متاثر ہوئی۔

    ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ دھماکے سے بس میں سوار ایک مسافر ہلاک ہوا جبکہ 7زخمی ہوگئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ زخمی افراد کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے خضدار شہر منتقل کیا گیا ہے جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ دھماکے کے بارے میں مختلف پہلوئوں سے تحقیقات جاری ہیں۔ اس دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔

    خضدار شہر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب مغرب میں اندازاً ساڑھے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس ضلع کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔

    بلوچستان میں 2000 کے بعد سے خضدار میں بھی بم دھماکوں اور اس نوعیت کے دیگر سنگین بدامنی کے واقعات کمی و بیشی کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔

    یاد رہے کہ نو جنوری کو ضلع خضدار کے علاقے زہری میں 70 سے زائد مسلح افراد آئے تھے اور انھوں نے وہاں لیویز تھانے اور نادرا کے دفتر کو نذر آتش کیا تھا۔ ماضی میں خضدار میں ہونے والے بم دھماکوں اور اس نوعیت کے دیگر زیادہ تر واقعات کی ذمہ داریاں کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔

  4. لبنان سے انخلا کی ڈیڈ لائن ختم، لیکن اسرائیلی فوج اب بھی وہیں موجود

    اسرائیلی فوج

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    جنوبی لبنان سے اسرائیل کے انخلا کی ڈیڈ لائن اتوار کی صبح ختم ہو گئی ہے، لیکن کچھ علاقوں میں فوج برقرار رہے گی کیونکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔

    امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں ہونے والے 60 روزہ معاہدے میں جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور وہاں سے حزب اللہ کے جنگجوؤں اور ہتھیاروں کے انخلا کی شرائط طے کی گئی تھیں۔

    اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں لبنانی فوجیوں کو اس علاقے میں تعینات کیا جائے گا جہاں کئی دہائیوں سے حزب اللہ کا غلبہ رہا ہے۔

    لبنان کے نئے صدر، آرمی چیف جوزف عون کے لیے یہ پہلا بڑا امتحان ہے، جو ملک میں استحکام لانے کے خواہاں ہیں۔

    سنیچر کے روز ان کے دفتر سے جار ی بیان میں کہا گیا تھا کہ 'خطرناک اسرائیلی اقدمات' سمیت جنوب کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے' گہرے رابطے اور مشاورت' جاری ہیں۔

    یہ واضح نہیں ہے کہ حزب اللہ کس طرح جواب دیے گی لیکن پھر سے کسی کشیدگی کو ملک میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    گذشتہ سال ستمبر میں لبنان میں اسرائیل کی فضائی کارروائی، حزب اللہ کے سینئر رہنماؤں کے قتل اور جنوبی لبنان پر زمینی حملے کے بعد یہ تنازع شدت اختیار کر گیا تھا۔

    اس کارروائی کے نتیجے میں لبنان میں تقریبا 4000 افراد ہلاک ہوئے جن میں بہت سے عام شہری بھی شامل تھے اور 12 لاکھ سے زائد باشندے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

    ۔۔۔

    اسرائیلی فوج

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ’انخلا لبنانی فوج کی تعیناتی اور معاہدے پر مؤثر عمل درآمد سے مشروط ہے‘

    جمعے کے روز اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے کہا تھا کہ 'جنگ بندی میں بیان کردہ انخلا جنوبی لبنان میں لبنانی فوج کی تعیناتی اور معاہدے پر مکمل اور مؤثر طریقے سے عمل درآمد سے مشروط ہے، جبکہ حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان غیر سرکاری سرحد بلیو لائن سے تقریبا 30 کلومیٹر دور ایک دریا لیتانی سے آگے نکل جائے گی۔'

    بیان میں کہا گیا ہے کہ چونکہ لبنانی ریاست کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد ہونا باقی ہے اس لیے بتدریج انخلا کا عمل امریکہ کے ساتھ مکمل تعاون کے ساتھ جاری رہے گا۔

    یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ملک میں کتنے اسرائیلی فوجی موجود ہیں۔

    سنیچر کے روز ایک بیان میں لبنانی فوج نے کہا کہ وہ سرحد سے متصل علاقوں میں 'تعیناتی بڑھانے کے منصوبے پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن ’اسرائیلی دشمن کی جانب سے انخلا میں تاخیر کی وجہ سے کچھ مراحل میں تاخیر ہوئی ہے، جس سے فوج کی تعیناتی کے مشن کو پیچیدہ بنا دیا گیا ہے‘۔

    اس نے رہائشیوں پر بھی زور دیا کہ وہ سرحدی علاقوں میں واپس جانے سے گریز کریں۔

    حزب اللہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

    جمعرات کے روز گروپ نے کہا تھا کہ ڈیڈ لائن پر عمل نہ کرنا معاہدے کی صریح خلاف ورزی، لبنان کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور قبضے کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہونا ہوگا۔

    تاہم بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر اسرائیلی فوج ملک میں موجود رہی تو گروپ کیا جواب دے گا۔

    مذاکرات سے واقف ایک مغربی سفارتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیل نے کہا ہے کہ اسے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لیے مزید وقت کی ضرورت ہے اور ابتدائی منصوبہ 30 دن کی توسیع کے لیے تھا۔

  5. بریکنگ, اسرائیل کا حماس پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام، فلسطینیوں کی غزہ واپسی کا عمل معطل

    فلسطینی

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    غزہ کی پٹی کے شمال میں ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل نے حماس پر جنگ بندی معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے ایک مرکزی سڑک بند کردی ہے۔

    یہ تنازع حماس کی جانب سے چار اسرائیلی خواتین فوجیوں کی رہائی کے بعد سامنے آیا تھا اور اسرائیل نے 200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔

    تاہم اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ غزہ کے شہریوں کو اس وقت تک شمال کا سفر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک اسرائیلی شہری اربیل یہود کو رہا نہیں کیاجاتا۔

    حماس نے اصرار کیا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور اگلے ہفتے انھیں رہا کر دیا جائے گا۔

    معاہدے کے مطابق حماس کو فوجیوں سے پہلے شہریوں کو رہا کرنا تھا۔

    سنیچر کو ہی حماس نے بھی اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد میں تاخیر کا الزام عائد کیا۔

    قطر ی اور مصری ثالث لاکھوں فلسطینیوں کو واپس شمال کی طرف لوٹنے کی اجازت دینے کی اپنی کوششوں میں پیش رفت کر رہے ہیں۔ لیکن اسرائیلی ٹینک اب بھی ساحلی سڑک کو بند کر رہے ہیں جہاں سے لوگوں کو شمال کی طرف جانا تھا۔

    اسرائیلیوں نے ثالثوں سے حماس سے اربیل یہود کے لیے زندگی کا ثبوت مانگا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حماس نے یہ ثبوت مصریوں کو دے دیے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیے

    اربیل یہود

    ،تصویر کا ذریعہBring Them Home Now

    ،تصویر کا کیپشناسرائیلی حکومت کا کہنا ہے پہلے اسرائیلی شہری اربیل یہود کو رہا کیا جائے

    اسرائیلی فوج کی مشتبہ افراد کی موجودگی پر فائرنگ

    سنیچر کی شام جب وسطی غزہ میں الرشید روڈ پر لوگ گھروں کی واپسی کے لیے جمع ہوئے تو مبینہ طور پر گولیاں چلائی گئیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے حماس کے زیر انتظام وزارت صحت اور فلسطینی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایک شخص ہلاک اور کچھ زخمی ہوئے ہیں۔

    مبینہ طور پر اس واقعے کی آن لائن پوسٹ کی گئی ویڈیو میں چار گولیوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔

    بی بی سی ویریفائی نے فوٹیج کی لوکیشن کی تصدیق کی ہے لیکن بی بی سی آزادانہ طور پر کسی جانی نقصان کی خبروں کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

    اسرائیلی دفاعی افواج نے کہا ہے کہ وسطی غزہ میں فوجیوں نے درجنوں مشتبہ افراد کی نشاندہی کے بعد فائرنگ کی جو فورسز کے لیے خطرہ ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ 'حالیہ گھنٹوں میں سامنے آنے والی اطلاعات کے برعکس علاقے میں فائرنگ کے تمام واقعات لوگوں سے فاصلہ بنانے کے مقصد سے کیے گئے تھے نقصان پہنچانے کے مقصد سے نہیں۔ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس مرحلے تک فائرنگ کے نتیجے میں مشتبہ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔'

    دریں اثنا، غزہ کے بہت سے باشندے کسی بھی ایسی پیش رفت کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں جو انھیں واپس آنے کی اجازت دے سکے۔ بہت سے لوگوں کے لیے، واپسی کی امید اس حقیقت سے کہیں زیادہ ہے جو کھنڈرات اور تباہی کی صوررت ان کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کے باوجودوہ زندگیوں کو دوبارہ حاصل کرنے، اپنے گھروں کی تعمیر نو اور اپنے خاندانوں کے ساتھ دوبارہ ملنے کا خواب ان کا حوصلہ قائم رکھے ہوئے ہے۔

  6. سکیورٹی فورسز کے لکی مروت میں آپریشن کے دوران 18 شدت پسند ہلاک: پاکستانی فوج

    پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا میں 3 مختلف کارروائیاں کے دوران 30 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا جبکہ 8 زخمی ہوئے۔

    آئی ایس پی آر کی جانب سے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر ضلع لکی مروت میں آپریشن کیا اس دوران 18 دہشتگرد مارے گئے جبکہ 6 زخمی ہوئے۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق ضلع کرک میں ایک اور خفیہ اطلاع پر آپریشن کے نتیجے میں 8 عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔

    تاہم تیسری کارروائی میں آئی ایس پی آر کے مطابق فوج نے ضلع خیبر کے علاقے باغ میں کارروائی کی جس کے نتیجے میں 4 عسکریت پسند ہلاک ہوئے جن میں عسکریت پسندوں کے اہم رہنما عزیز الرحمن، قاری اسمٰعیل اور مخلص شامل تھا تاہم دو عسکریت پسند زخمی بھی ہوئے۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا۔

    اس سے قبل لکی مروت قبول خیل پراجیکٹ کے مغوی کارکن کی لاش ضلع لکی مروت کے دور افتادہ علاقے ظریفوال میں پہاڑی علاقے سے برآمد ہوئی تھی۔

    سنیچر کے روز مقامی عمائدین، یرغمالیوں کے رشتہ دار اور مقامی لوگ جو اسلحہ سے مسلح تھے مغوی ملازمین کی تلاش میں دیہی علاقے میں گئے جب یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے اغواکاروں کے ٹھکانوں پر شیلنگ کی گئی ہے۔

    سوشل میڈیا پرگردش کرتی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بڑی تعداد میں مقامی لوگ جن میں عمائدین، مشران، سول سوسائٹی کے افراد اور مقامی لوگ ہتھیاروں سے مسلح پہاڑی علاقے میں موجود ہیں۔

    جہاں ایک مقامی مشر نے بتایا کہ ایک کارکن کی لاش جس کی شناخت ریحان اللہ کے نام سے کی گئی ہے ان کے حوالے کی گئی جسے گورنمنٹ سٹی ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

    انھوں نے کہا کہ 9 جنوری کو ملازمین کے ساتھ اغوا ہونے والے کوچ ڈرائیور نواز خان کو بھی مشران نے اغوا کاروں سے رہا کرالیا اس کے علاوہ مشران نے باقی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے سلسلے میں اغواکاروں کے ساتھ بات چیت کی۔

    مقامی صحافی محمد زبیر مروت نے بتایا کہ مغوی ملازم ریحان اللہ کی لاش ہسپتال میں ضروری کاروائی مکمل ہونے کے بعد لواحقین کے حوالے کردی گئی جہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد انھیں مقامی قبرستان میں دفنا دیا گیا۔

  7. جنید اکبر خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے صدر مقرر: ’علی امین گنڈاپور پر گورننس کا دباؤ ہے‘

    Junaid akbar

    ،تصویر کا ذریعہJunaid Akbar Facebook

    سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے جنید اکبر کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی جگہ صوبائی صدر مقرر کر دیا۔

    بانی پی ٹی آئی عمران خان سے منصوب اُن کے ایکس کے اکاؤنٹ پر ایک بیان میں صوبہ خیبر پختونخوا میں آنے والی اس تبدیلی کا ذکر کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’علی امین گنڈاپور پر بطور وزیراعلیٰ گورننس کا بہت دباؤ ہے لہذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جنید اکبر خان جو ہمارے دیرینہ ساتھی اور کارکن ہیں ان کو تحریک انصاف خیبرپختونخوا کا صدر منتخب کر دیا جائے اور تنظیمی امور ان کے حوالے کر دئیے جائیں۔‘

    تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ’بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور کی خواہش پر ہی ان سے پارٹی کی صوبائی صدارت واپس لی اور انھیں صوبے میں امن و امان اور گورننس کے معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے کہا ہے۔‘

    واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے جنید اکبر بلا مقابلہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔

    قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لیے جنید اکبر کا نام تجویز کیا تھا۔

  8. دالبندین میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا اجتماع: ’ مزید لاشیں نہیں اٹھائیں گے، ہر لاپتہ فرد زندہ چاہیے‘, محمد کاظم، بی بی سی اردو کوئٹہ

    بلوچ یکجہتی کمیٹی

    ،تصویر کا ذریعہBaloch Yakjehti Committee/X

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین میں ہونے والے اجتماع میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی ہے۔

    شہر کے نواح میں واقع ڈنو میدانی میں صبح 11بجے شروع ہونے والا یہ اجتماع شام کو پانچ بجے اختتام پزیر ہوا۔

    دالبندین کے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ دالبندین میں اس سے پہلے اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا جس میں پہلی مرتبہ خواتین اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

    صحافیوں کے مطابق شرکاء کی بڑی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی جو کہ دالبندین اور ضلع چاغی کے دیگر علاقوں کے علاوہ رخشاں ڈویژن کے دیگر اضلاع سے آئے تھے۔

    معدنی وسائل سے مالا مال بلوچستان کے افغانستان اور ایران سے متصل سرحدی ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام یہ اجتماع ’بلوچ نسل کشی یادگاری‘ کے نام سے منعقد کیا گیا تھا۔

    ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے مطابق دالبندین میں یہ اجتماع ہلاک کیے جانے والے ان بلوچوں کی یاد میں منعقد کیا گیا جن کی اجتماعی قبریں 25 جنوری 2014 کو بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے توتک سے منظر عام پر آئی تھیں۔

    اس اجتماع میں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے بھی شرکت کی اور ان کے ہاتھوں میں ان کے پیاروں کی تصاویر تھیں۔

    اجتماع سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، سمّی دین بلوچ ، صبغت اللہ شاہ جی، وہاب بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ اور دیگر مقررین نے خطاب کیا۔

    ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ’ریاست بلوچوں کو یہ باور کروا رہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کی حیثیت ایک جانور سے بھی بدتر ہے اور ان کی موت اور زندگی ریاست کے ہاتھ میں ہے۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’بلوچ مزید لاشیں نہیں اٹھائیں گے بلکہ ان کو ہر لاپتہ فرد زندہ چاہیے اور اسی طرح انہیں اپنی سرزمین اور وسائل چاہییں۔ اس سرزمین کی دفاع کے لیے ہمارے بزرگوں نے ہر جابر کا مقابلہ کیا اور غلامی قبول نہیں کی۔‘

    انھوں کہا کہ بلوچوں کو یہ چاہیے کہ وہ خاموشی کو ختم کریں اور ریاست سمیت پوری دنیا کو بتادیں کہ انھیں ان کی نسل کشی کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔

    انھوں کہا کہ اسی طرح پوری دنیا کو بھی یہ پیغام دیا جائے کہ یہاں جو بھی وسائل ہیں وہ بلوچوں کے ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر ان کے حوالے سے کوئی معاہدہ قبول نہیں ہے۔

    دیگر مقررین نے کہا کہ حقوق انسانی کی پامالی کے ساتھ بلوچستان میں لوگوں کا معاشی استحصال بھی جاری ہے جس کی واضح مثال چاغی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ یہاں سونے اور تانبے کے ذخائر کے علاوہ بڑے پیمانے پر دیگر معدنیات پائی جاتی ہیں لیکن یہاں کے لوگ انتہائی پسماندگی سے دوچار ہیں۔

    بعض مقررین نے دعویٰ کیا کہ چاغی میں ایٹمی تجربات کی وجہ سے تابکاری کے اثرات سے لوگ متاثر ہورہے ہیں لیکن ان کو تابکاری کے اثرات سے بچانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

    مقررین نے حقوق انسانی کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں حقوق انسانی کی پامالیوں کا نوٹس لیں۔

    اس جلسے سے قبل ضلع چاغی میں جمعرات کو موبائل انٹرنیٹ کو بند کیا گیا تھا، جبکہ مقامی صحافیوں کے مطابق آج صبح موبائل فون سروس کو بند کرنے کے علاوہ پی ٹی سی ایل کے لینڈ لائن کو بھی بند کیا گیا تھا۔

    اگرچہ دالبندین اور ضلع چاغی کے دیگر علاقوں میں موبائل فون سروس کی بندش کے حوالے سے سرکاری سطح پر کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے، تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام اجتماع کو ناکام بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔

    بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل گوادرمیں موبائل فون سروس کے علاوہ لینڈ لائن کو بند کیا گیا تھا۔

  9. فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور یرغمالیوں کی اسرائیل واپسی کے بعد جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا: ریڈ کراس

    جنگ بندی

    ،تصویر کا ذریعہEPA

    ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) نے اعلان کیا ہے کہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔

    ایک بیان میں آئی سی آر سی نے اس عمل میں اپنے کردار کا خاکہ پیش کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ سے چار یرغمالیوں کو اسرائیلی حکام کے حوالے کرنے کے بعد اس نے 128 قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی حراستی مراکز سے غزہ اور مغربی کنارے منتقلی میں مدد کی۔

    انھوں نے اسرائیلی حکام کی جانب سے رہائی اور منتقلی کے انتظامات سے قبل قیدیوں کے انٹرویو بھی کیے ہیں۔

    تنظیم نے تصدیق کی ہے کہ آج کل 200 قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔

    ریڈ کراس کا مزید کہنا ہے کہ رہائی کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ وہ غزہ میں مزید امداد پہنچانے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

  10. اسرائیل سے رہا ہونے والے فلسطینیوں میں سے چند کو ہی غزہ جانے کی اجازت ہوگی

    اسرائیلی کی جانب سے سنیچر کے روز 200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

    ان میں سے تقریباً آدھے قیدیوں کو مغربی کنارے میں اپنے گھروں کی جانب واپس جانے کی اجازت دی گئی۔

    انتہائی سنگین جرائم میں سزا پانے والے 70 قیدیوں کو مصر کے راستے قطر اور ترکی جیسے ہمسایہ ممالک میں جلاوطن کیا جائے گا اور باقی رہ جانے والے چند کو غزہ بھیجا جائے گا۔

    رواں ہفتے اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینیوں میں سے 121 عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

    رہا ہونے والے قیدی جب اپنے اہل خانہ سے ملے تو جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔

    غزۃ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    غزۃ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    غزہ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    غزہ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

  11. غزہ میں اب اسرائیلی یرغمالیوں کی تعداد کتنی ہے؟

    اسرائیل

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    سنیچر کے روز غزہ میں حماس نے جن مزید چار اسرائیلی فوجی یرغمالیوں کو رہا کیا جن میں کرینہ آریف، ڈینیلا گلبوا، ناما لیوی اور لیری الباگ شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ اسرائیلی فورسز اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے بعد چھ روز قبل تین خواتین کو رہا کیا گیا تھا۔

    اب جبکہ سات یرغمالیوں کو حماس کی جانب سے اسرائیل کے حوالے کر دیا گیا ہے تو اب غزہ میں 87 یرغمالی اب بھی ہیں جنھیں 7 اکتوبر 2023 کو اغوا کیا گیا تھا۔

    ان میں سے 53 کے بارے میں اسرائیلی حکام کا یہ ماننا ہے کہ وہ زندہ ہیں، تاہم حماس کا دعویٰ ہے زندہ یرغمالیوں کی تعداد اسرائیلی اعدادوشمار سے کم ہے۔

    اگر اسرائیل کی جانب سے زندہ یرغمالیوں کی تعداد کو دیکھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 34 کو مردہ تصور کیا جا رہا ہے جن کی لاشیں ابھی تک برآمد نہیں ہوئی ہیں۔

    جنگ بندی معاہدے کی شرائط کے تحت پہلے مرحلے میں 33 یرغمالیوں کی رہائی متوقع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مزید 26 یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا اور اب تک سات افراد کو رہا کیا جا چکا ہے۔

    اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہونا ہے کہ جس میں باقی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اس سے حماس کے ہاتھوں پکڑے گئے ان افراد کی تعداد کے بارے میں واضح تصویر سامنے آئے گی جو اب بھی زندہ ہیں۔

    تیسرے مرحلے میں غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کی لاشوں کو اسرائیل واپس بھیجا جائے گا۔

  12. اسرائیلی قید سے رہائی پانے والے 200 فلسطینی قیدیوں کا مغربی کنارے میں استقبال

    فلسطین

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    اسرائیلی جیل سروس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنیچر کے روز رہا ہونے والے تمام 200 فلسطینی قیدیوں کو واپس مغربی کنارے پہنچا دیا گیا ہے۔

    خبر رساں اداروں اے ایف پی اور روئٹرز کی جانب بتایا گیا ہے کہ ’اسرائیلی سیاسی حکام کی منظوری کے بعد تمام فلسطینیوں کو اوفر اور کٹیوٹ جیلوں سے رہا کر دیا گیا۔‘

    بی بی سی نیوز کے نامہ نگار جون ڈونیسن نے رام اللہ میں اسرائیل کی جانب سے رہا کیے گئے فلسطینی قیدیوں کا مغربی کنارے میں پرجوش ہجوم کی جانب سے استقبال ہوتے دیکھا۔

    غزۃ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

  13. اسرائیلی یرغمالیوں کی 477 دن کے بعد اپنے اہلخانہ سے ملاقات

    اسرائیل

    ،تصویر کا ذریعہIDF

    رہائی کے بعد اسرائیل پہنچے والے یرغمالیوں کی اپنے پیاروں سے ملاقات کے وقت جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔

    اسرائیلی یرغمالی

    ،تصویر کا ذریعہIDF

    ،تصویر کا کیپشنلیری ایلباغ

    حماس کی جانب سے جن چار اسرائیلی فوجی خواتین کو رہا کیا گیا اُن میں ایک لیری ایلباغ ہیں اُن کے اہل خانہ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’477 طویل اور ناقابل برداشت دنوں کے اعصاب شکن انتظار کے بعد راحت اور خوشی کا احساس ہمیں گھیرے ہوئے ہے، ہم آج بہت خوش ہیں۔‘

    اسرائیلی یرغمالی

    ،تصویر کا ذریعہIDF

    ،تصویر کا کیپشنکرینا آریف

    کرینا آریف بھی حماس کی جانب سے آج صبح رہا کی جانے والی خواتین فوجیوں میں سے ایک ہیں اور ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے دل ’خوشی کے جذبے سے بھرے ہوئے ہیں۔‘

    ایکس پر ایک پیغام میں اُن کا کہنا تھا کہ ’477 طویل اور تکلیف دہ دنوں کے درد، پریشانی اور لامتناہی اضطراب کے بعد آخر کار ہم اپنی پیاری کرینہ کو گلے لگانے، اس کی آواز سننے اور اس کی مسکراہٹ کو دیکھنے کے قابل ہوئے جس نے ہمیں ایک مرتبہ پھر سے جینے کا حوصلہ دیا۔‘

    اسرائیلی یرغمالی

    ،تصویر کا ذریعہIDF

    ،تصویر کا کیپشنناما لیوی

    حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو یرغمال بنائی جانے والی ناما لیوی کو بھی آج رہائی ملی ہے آئی ڈی ایف کی جانب سے ان کی اپنے پیاروں سے ملاقات کی تصویر شیئر کی ہے۔

    ایکس پر ایک پیغام میں نما کے اہل خانہ نے کہا کہ ’ہم نما کو اپنے پیروں پر چل کر اپنے پاس واپس آتے دیکھ کر ہم بہت خوش اور پرجوش ہیں۔‘

    اسرائیلی یرغمالی

    ،تصویر کا ذریعہIDF

    ،تصویر کا کیپشنڈینیلا گلبوا

    ڈینیلا گلبوا وہ چوتھی اسرائیلی فوجی ہیں کہ جو سنیچر کے روز حماس کی قید سے رہا ہو کر اپنے پیاروں کے پاس پہنچی ہیں۔

    ان کے خاندان والوں نے ایکس پر لکھا ’ہماری ڈینیلا غزہ میں 477 دن تک جہنم میں رہیں اور اب وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ ہم اس لمحے کے لیے ترس رہے تھے۔‘

  14. اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟

    Israel

    ،تصویر کا ذریعہIDF

    سنیچر کی صبح غزہ شہر میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے خاص طور پر ایک تقریب کا احتمام کیا گیا۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے بعد قیدیوں کے تبادلے کا یہ دوسرا دور تھا۔

    پہلے مرحلے میں تین اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے چھ دن بعد حماس نے مزید چار اسرائیلی خواتین فوجی یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ آج کی چند اہم پیش رفت:

    • غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائی گئی چار خواتین اسرائیل واپس پہنچ گئیں
    • کرینا آریف، ڈینیلا گلبوا، ناما لیوی اور لیری الباگ آئی ڈی ایف کی فوجی اہلکار تھیں جو 7 اکتوبر کو اُس وقت یرغمال بنائی گئیں کہ جب وہ ایک چیک پوسٹ پر تعینات تھیں۔ تاہم رہائی کے بعد اُن کی اپنے والدین سے ملاقات کروائی گئی جس کے بعد اُن کا طبی معائنہ ہوگا۔
    • چاروں خواتین کو فلسطین سکوائر میں ایک سٹیج پر لایا گیا اور حماس کا علامتی جھنڈا اٹھائے ہوئے شہریوں اور اسلحہ بردار جنگجوؤں اور عام شہریوں کے ایک ہجوم کے سامنے لایا گیا۔ اس کے بعد انھیں ریڈ کراس کے ذریعہ آئی ڈی ایف کے حوالے کر دیا گیا۔
    • تل ابیب میں یرغمالی سکوائر میں ہونے والے تبادلے کی تقریب کو براہ راست نشر کیا گیا جسے دیکھ کر لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا اور وہ خوشی سے رونے لگے۔
    • رہائی کے معاہدے کے اس حالیہ دور میں 200 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل کے زیر انتظام جیلوں سے رہا کیا جا رہا ہے۔

    ·بہت سے فلسطینی بھی شمال میں اپنے گھروں کو واپس جانے کی امید کر رہے تھے، لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت تک علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک کہ شہری یرغمالی اربیل کی واپسی کے انتظامات نہیں کیے جاتے۔ ان کی رہائی آج متوقع تھی، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان کا نام رہائی پانے والے یرغمالیوں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تھا۔

    تاہم اب ایک جانب یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا گیا ہے۔

  15. حماس نے سنیچر کے روز باقائدہ ایک تقریب میں اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا

    غزہ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    گزشتہ ہفتے غزہ میں یرغمالیوں کی حوالگی کے برعکس آج کی اسرائیلی یرغمالیوں کی حوالگی بہت مختلف دکھائی دے رہی تھی۔

    آج چار اسرائیلی خواتین یرغمالیوں کو حماس کی جانب سے اپنی گاڑیوں سے نکل کر نقاب پوش مسلح افراد کی محاصرے میں خاص طور پر بنائے گئے سٹیج پر پہنچایا گیا۔ جہاں چند لمحے قبل ریڈ کراس کے ایک اہلکار نے حماس کے ایک جنگجو کے ساتھ ایک بڑے اجتماع کے سامنے دستاویزات پر دستخط کیے تھے۔

    آج ہونے والی اس تقریب میں اسرائیلی یرغمالیوں کو لیمینیٹڈ شناختی کارڈز پہنائے گئے تھے اور ان کے ساتھ حماس کے نقاب پوش مسلح افراد بھی موجود تھے۔

    سٹیج پر جہاں ان اسرائیلی یرغمالیوں کو لایا گیا تھا وہاں چند کرسیاں اور ایک میز کے علاوہ ایک مشین گن بھی تھی۔

    حماس کے سیکڑوں جنگجو اور فلسطینی شہری ان رہائی پانے والی چار اسرائیلی خواتین فوجیوں کو دیکھ رہے تھے۔ چاروں اسرائیلی خواتین نے ان لوگوں کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلایا بلکہ وہ مسکراتی نظر آئیں۔

    حماس کی جانب سے رہائی پانے والی خاتون اسرائیلی فوجیوں کو چند دستاویزات اور سامان کا ایک بیگ بھی اپنے ہمراہ لے کر جانے کے لیے دیا۔

    اسرائیلیوں کے لیے یہ ایک خوشی کا لمحہ تھا اور اسی کے ساتھ ساتھ بڑی راحت کی بات بھی کہ مزید چار یرغمالی محفوظ ہیں اور اپنے وطن واپس پہنچ چُک ہیں۔ گزشتہ ہفتے بہت سے لوگوں کی جانب سے اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا کہ رہائی پانے والی پہلی تین اسرائیلی خواتین کو غیر رسمی طور پر چھوڑ دیا گیا تھا۔

    تاہم آج انتہائی متضاد مناظر سامنے آئے۔

  16. مزید فلسطینی قیدی آج دن کی روشنی دیکھیں گے: حماس

    غزہ

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    چار اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بعد حماس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے بہادر قیدیوں کا ایک اور گروپ‘ جن میں سے کئی اسرائیل میں عمر قید یا طویل سزائیں کاٹ چکے ہیں آج آزاد ہو کر دن کی روشنی دیکھیں گے۔‘

    واضح رہے کہ جنگ بندی کے تحت ابتدائی چھ ہفتوں کے مرحلے میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔

    گذشتہ اتوار کو تین اسرائیلی شہریوں اور 90 فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا تھا۔ سنیچر کے روز یعنی آج چار خواتین اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کے بعد اسرائیلی جیلوں میں قید تقریباً 200 فلسطینی قیدیوں کی رہائی متوقع ہے۔

    معاہدے کے تحت ہر اسرائیلی فوجی کے بدلے 50 فلسطینی قیدی اور ہر ایک عام اسرائیلی شہری کے بدلے 30 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔

  17. اسرائیل حماس کی قید میں موجود دیگر یرغمالوں کو نہیں بھولا: ترجمان آئی ڈی ایف

    اسرائیل

    ،تصویر کا ذریعہIDF

    اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے عبرانی زبان میں ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حماس کے حملے بعد سے ہمارا مشن تھا کہ یرغمالیوں کو وطن واپس لایا جائے۔‘

    تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’چار یرغمالیوں کی وطن واپسی خوشی کی بات ہے تاہم اسرائیل غزہ میں موجود دیگر 90 یرغمالیوں کو نہ تو بھول سکتا ہے اور نہ ہی کبھی بھولے گا۔‘

    ہاگری کا کہنا تھا کہ ’حماس جنگ بندی معاہدے کے تحت شہریوں کی رہائی کو ترجیح دینے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وہ اغوا ہونے والے ہر اسرائیلی شہری کی واپسی کے لیے پرعزم ہیں۔‘

    انھوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل امریکہ، قطر اور مصر سمیت تمام بین الاقوامی ثالثوں کی کوششوں کو سراہتا ہے اور ان سے توقع کرتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ حماس معاہدے کی پاسداری کرے۔‘

    ہاگری کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کا مشن اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک ہر یرغمالی کو وطن واپس نہیں لایا جاتا۔‘

  18. وہ مناظر کہ جب حماس کی جانب سے رہا ہونے والے یرغمالیوں کو سامنے لایا گیا

    ،ویڈیو کیپشنوہ مناظر کے جب اسرائیلی یرغمالیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا

    حماس کی جانب سے چار اسرائیلی فوجیوں کو فلسطین سکوائر میں ایک سٹیج پر پہلے سامنے لایا گیا اور پھر اس کے بعد انھیں ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا۔ جس کے بعد ان چاروں یرغمالیوں کو ریڈ کراس کی گاڑیوں میں لے جا کر اسرائیلی حکام کے حوالے کیا گیا۔

    جب ان چاروں یرغمالیوں کو سٹیج پر لایا گیا تو ایسے میں چاروں اطراف میں بڑی تعداد میں حماس کے جنگجو بھاری اسلحہ لیے جمع تھے۔ ان چاروں یرغمالیوں نے سٹیج پر پہنچتے ہیں فلسطینی شہریوں کی جانب مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلائے۔

  19. حماس کی قید سے رہا ہونے والی چار اسرائیلی خواتین یرغمالی کو ہیں؟

    اسرائیلی یرغمالی

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    جن چار یرغمالیوں کو حماس کی جانب سے رہا کیا گیا ہے ان میں اسرائیلی فوجی کرینہ اریف، ڈینیلا گلبوا، ناما لیوی اور 19 سالہ لیری الباگ شامل ہیں۔ ان چاروں کو حماس نے اسرائیل اور غزہ کی سرحد پر واقع ایک فوجی اڈے سے حراست میں لیا تھا۔

    اریف کی بہن نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے فائرنگ کی آواز سنی جب کرینہ نے حملے کے دوران انھیں فون کیا وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ ڈری ہوئی تھیں، رو رہی تھیں، وہ گھبرائی ہوئی تھیں۔ ان کا آخری پیغام تھا ’وہ (حماس) یہاں پہنچ گئے ہیں‘ ہمارے شیلٹر تک۔ یہ ان کے وہ آخری الفاظ تے کہ جو ہم تک پہنچے۔‘

    لیوی کے اہل خانہ نے نما لیوی کو ’امن پسند‘ قرار دیا جو پہلے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن منصوبے کا حصہ تھیں جبکہ ڈینیلا کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ ’مضبوط اور پرعزم‘ شخصیت کی مالک ہیں۔

    الباگ، جن کی عمر 18 سال تھی جب انھیں یرغمال بنایا گیا تھا۔ انھوں نے حماس کے حملے سے صرف دو دن قبل اسرائیلی فوجی اڈے پر اپنا ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تین ہفتے قبل حماس نے الباگ کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں وہ اسرائیلی حکومت سے کسی معاہدے پر پہنچنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔

  20. حماس کی تحویل سے چار خواتین یرغمالیوں کی اسرائیل واپسی

    یرغمالی

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    آئی ڈی ایف نے تصدیق کی ہے کہ فلسطینی حکام کی جانب سے رہا کیے گئے چار یرغمالی اسرائیل واپس پہنچ گئے ہیں۔

    آئی ڈی ایف نے ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’واپس لوٹنے والی چاروں خواتین فوجی ہیں جن میں ڈینیلا گلبوا، لیری ایلباغ، ناما لیوی اور کرینا آریف شامل ہیں۔ اب یہ چاروں یرغمالی آئی ڈی ایف اور شین بیٹ فورسز کے ساتھ سرحد پار کرکے اسرائیلی علاقے میں داخل ہوگئے ہیں۔‘

    بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’واپس آنے والے افرادکی اب اپنے والدین سے ملاقات کروائی جائے گی۔ جہاں اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد ان تمام یرغمالیوں کا ابتدائی طبی معائنہ کیا جائے گا۔‘

    فلیسطینی حکام کی جانب سے ان چار اسرائیلی یرغمالیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا۔

    دوسری جانب جب چاروں یرغمالیوں کو غزہ میں ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا تو تل ابیب کے ایک چوک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جہاں یرغمالیوں کے اہل خانہ اور دوست سنیچر کے روز جمع ہوئے۔

    Gaza

    حماس کی جانب سے جب یرغمالیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا تو تل ابیب میں بڑی سکرینوں کی مدد سے اس تبادلے کو براہ راست دکھایا گیا۔ تل ابیب میں لوگوں کو روتے، خوشی سے مسکراتے اور ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اس دوران انھوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر یرغمالیوں کے نام اور تصاویر درج تھیں۔

    اسرائیل میں ہاسٹیج سکوائر پر گیلی رومن ان چار خواتین کی واپسی دیکھنے کے لیے جمع ہونے والوں میں شامل ہیں۔

    ان کی بہن یارڈن کو کبوتز بیری سے یرغمال بنا لیا گیا تھا اور نومبر 2023 کی جنگ بندی کے بعد وہ اسرائیل واپس آ ئیں تھیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’خاندانوں کے لیے اُن کے پیاروں کی واپسی ایک نئی زندگی کی طرح ہوتی ہے۔‘