پی ٹی آئی کا حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان: ’ہم نے کب کہا کہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنائیں گے‘: عرفان صدیقی کا ردعمل

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف حکومتی کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ’ہم نے کب کہا کہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنائیں گے۔‘

خلاصہ

  • پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے 10 مغوی ملازمین کو بازیاب نہ کروائے جانے کے خلاف لکی مروت میں احتجاج، مظاہرین نے رکاوٹیں کھڑی کرکے خیبرپختونخوا سے پنجاب کو ملانے والی لکی مروت میانوالی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا
  • خبر رساں ادارے روئٹرز کےمطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ٹیلیفونک گفتگو میں کہا ہے کہ سعودی عرب امریکہ میں اپنی سرمایہ کاری کو وسعت دیتے ہوئے اگلے چار سال کے دوران اسے 600 ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتا ہے۔
  • سعودی عرب امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور تجارت کرے گا: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی صدر ٹرمپ کو یقین دہانی
  • صدر ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو خبردار کیا ہے کہ وہ یا تو یوکرین میں جاری اپنی ’نامعقول جنگ‘ ختم کریں یا پھر نئی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں

لائیو کوریج

  1. یہ صفحہ اب مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا

    بی بی سی اردو کی لائیو کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ ابھی مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا۔

    پاکستان سمیت دنیا بھر کی تازہ ترین خبریں جاننے کے لیے آپ اس لنک پر کلک کریں۔

  2. کوئٹہ سے قرآن کے 120 قدیم نسخے چوری, محمد کاظم، بی بی سی اردو، کوئٹہ

    بلوچستان

    بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے معروف مقام جبل نورالقرآن سے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے 120 قدیم نسخے چوری ہوگئے ہیں۔

    مقامی پولیس نے قرآن کے قدیم نسخوں کی چوری کا مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔

    جبل نورالقرآن کی انتظامی کمیٹی سے تعلق رکھنے والے بالاچ لہڑی نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ قدیم نسخے غاروں کے اندر شو کیسز میں محفوظ کیے گئے تھے، جن کے شیشوں کو توڑ کر انھیں چوری کیا گیا۔

    بالاچ لہڑی کا مزید کہنا تھا کہ قرآن کے جن نسخوں کو چوری کیا گیا، ان میں تین سو سال سے زائد پرانے ہاتھ سے تحریر کیے جانے والے نسخے بھی شامل ہیں۔

    بروری پولیس سٹیشن میں قرآن کے قدیم نسخوں کی چوری کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف جبل نورالقرآن کے انچارج محمد اجمل کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

    ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ نامعلوم چور 21 اور 22 جنوری کی درمیانی شب غار کے ساتھ ٹوٹی ہوئی دیوار سے داخل ہوئے اور انھوں نے وہاں شو کیسز سے قرآن کے نسخے چوری کیے۔

    ایف آئی آر کے مطابق چور مجموعی طور پر 12 شوکیسز کو توڑ کر ان سے قرآن کے نسخے لے گئے۔

    بالاچ لہڑی نے بتایا کہ چور رات کو اس وقت جبل نورالقرآن میں داخل ہوئے تھے جب بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اندھیرا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہاں لوڈ شیڈنگ کے دوران روشنی اور سی سی ٹی وی کیمروں کو چلانے کے لیے بیٹریز ہیں لیکن اگر بجلی زیادہ دیر تک نہ آئے تو بیٹریوں کا بیک اپ ختم ہونے کے بعد مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے۔

    بلوچستان

    جبل نورآلقرآن کہاں واقع ہے؟

    جبل نورالقرآن کوئٹہ شہر کے مغرب میں بروری کے پہاڑ پر واقع ہے۔ قرآنی نسخوں، قرآنی آیات اور احادیث کو بے احترامی سے بچانے کے لیے اس پہاڑ میں سرنگیں کھودنے کا آغاز سنہ 1992 میں ہوا تھا۔

    بالاچ لہڑی نے بتایا کہ ’اس وقت اس پہاڑ میں درجنوں سرنگیں ہیں جن میں سے بعض کی لمبائی ہزار فٹ سے 12سو فٹ تک ہے۔ ان غاروں میں روشنی کے انتظام کے علاوہ شو کیسز بھی بنائے گئے جن میں قدیم نسخے بھی رکھے گئے ہیں۔‘

    اس وقت جبل نورالقرآن کوئٹہ شہر میں ایک سیاحتی مقام کا شکل اختیار کر گیا ہے جسے پاکستان بھر سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔

    جبل نورالقرآن میں قرآن کے انتہائی ضعیف نسخوں کو دفن کیا جاتا ہے تاہم جو قابلِ استعمال ہوتے ہیں ان کی مرمت کر کے ان کو مختلف مدارس اور مساجد میں پڑھنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔

    جبل نورآلقرآن میں نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے دوسرے حصوں سے قرآن کے نسخوں کو لایا جاتا ہے۔

  3. مراکش کشتی حادثہ: ایف آئی اے کی کارروائی میں ایک سمگلر گرفتار

    morocco

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    مراکش میں کشتی حادثے میں ملوث افراد کے خلاف پاکستانی حکام کی جانب سے کارروائیاں کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

    ایف آئی اے حکام کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق مراکش کشتی حادثے میں ملوث ایک انسانی سمگلر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملزم کو چھاپہ مار کاروائی میں سمبڑیال سے گرفتار کیا گیا۔

    خیال رہے کہ مراکش کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی ایک کشتی کے مسافر یورپ جانے کے خواہشمند تھے مگر 13 دن کے اس پُرخطر سمندری سفر کے دوران انھیں نہ صرف بھوک اور پیاس میں تنہا چھوڑ دیا گیا بلکہ سمگلروں نے بعض تارکین وطن کو ’تشدد کا نشانہ بنا کر سمندر میں پھینک دیا۔‘

    تارکین وطن کے حقوق کی تنظیم ’واکنگ بارڈرز‘ سے منسلک ہلینا ملینو کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو لے جانے والی اس کشتی کے حوالے سے خدشہ ہے کہ اس میں سوار کل 86 افراد میں کم از کم 50 لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 44 پاکستانی شہری تھے۔

    مراکشی حکام نے اس واقعے میں 36 افراد کو بچایا جنھیں بندرگاہ دخلہ کے قریب ایک خیمے میں رکھا گیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بچنے والے 21 پاکستانی شہریوں کی فہرست جاری کی۔

    ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک متاثرہ شخص کو سپین بھجوانے کی کوشش کی۔

    کشتی حادثے کے اس متاثرہ شخص کو مراکش کے حکام نے ریسکیو کیا اور ان کا نام وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں شامل تھا۔

    ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ملزم کی نشاندہی پر مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔

  4. ’ہم نے کب کہا جوڈیشل کمیشن نہیں بنائیں گے، انتظار تو کریں، جواب تو لیں‘: عرفان صدیقی

    iran siddique

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    پاکستان تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے رکن سینیٹرعرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ’ہم نے کب کہا کہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنائیں گے۔‘

    انھوں نے پی ٹی آئی کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا پیغام دیا ہے۔

    اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت کی کمیٹی اب بھی قائم ہے اور ہم اس پر مزید ملیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ پہلی میٹنگ میں یہ طے پایا تھا کہ وہ دوسری میٹنگ میں اپنے تحریری مطالبات لائیں گے لیکن انھیں اس میں چھ ہفتے لگے اور ہم سے یہ تقاضہ ہے کہ آپ پانچ دن کے اندر ہمیں مطالبات کا جواب دیں۔

    ’ہم نے ان مطالبات کو بڑی سنجیدگی سے لیا۔ ہم نے آپس میں مذاکرات کیے۔ آج جو پی ٹی آئی نے کہا ہے وہ بہت افسوسناک ہے۔ راضی ہونے کے بعد مجھے نہیں سمجھ آتی کہ ان سات دن میں کیا ہوا۔‘

    ان کا کہنا تھا کہ یہ طے پایا تھا کہ ’سات ورکنگ دنوں کے اندر حکومتی کمیٹی اپوزیشن کے مطالبات پر اپنا باضابطہ تحریری موقف دے گی۔ یہ ورکنگ دن 28 جنوری کو پورے ہوتے ہیں اور ہم تندہی سے کام کر رہے ہیں۔‘

    سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ وہ جس بیتابی سے آئے تھے اسی سے واپس جا رہے ہیں ہم ان سے کہتے ہیں کہ ابھی کچھ انتظار کریں۔

    عرفان صدیقی نے اپنے پیغام میں پی ٹی آئی کے کمیٹی اراکین سے کہا کہ وہ مذاکرات کرنے پر غور کریں۔

    ’ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے اختیار میں ہے تو علی گوہر صاحب اور عمر ایوب یا دیگر ارکان کمیٹی اس پر غور کریں اور اس مذاکراتی عمل کو نہ چھوڑیں۔‘

  5. پی ٹی آئی کا حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان، بیرسٹر گوہر کی تصدیق

    بیرسٹر گوہر

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بات پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہی۔

    خیال رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا چوتھا دور ہونا تھا تاہم حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے مطالبات پر اب تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آ سکا۔

    بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    انھوں نے کہا کہ ’آج خان صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ حکومت نے ابھی تک اعلان نہیں کیا، ہماری تو بڑی خواہش تھی کہ مذاکرات ہوں اور آگے چلیں لیکن شاید سیاسی اختلافات کی جو ٹھنڈک ہے وہ اتنی زیادہ ہے کہ اس سے برف پگھل نہیں رہی۔ افسوس کی بات ہے کہ حکومت اعلان نہیں کر رہی، خان صاحب نے آج مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔‘

    انھوں نے بتایا کہ عمران خان نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ اگر حکومت سات روز کے اندر کمیشن نہیں بناتی تو مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

    دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما زلفی بخاری نے مذاکرات ختم ہونے کے بعد کہا ہے کہ یہ ثابت ہو گیا کہ حکومت فقط وقت کا ضیاع کر رہی تھی وہ سنجیدہ کبھی بھی نہیں تھی۔

    انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کی جانب سے ایک ہی مطالبہ سامنے لایا گیا تھا، وہ یہ تھا کہ عمران خان گھر پر نظر بندی کو قبول کر لیں جو ممکن ہی نہیں تھا۔

    زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ عمران خان تب تک کوئی ریلیف قبول نہیں کریں گے جب تک ان کی جماعت کے کارکنوں کو رہا نہیں کیا جاتا۔

  6. پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے مغوی ملازمین کو بازیاب نہ کروائے جانے کے خلاف لکی مروت میں احتجاج, عزیز اللہ خان، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور

    لکی مروت مظاہرہ

    ،تصویر کا ذریعہZubair Marwat

    پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے قبول خیل منصوبے پر کام کرنے والے ملازمین کی کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی تحویل سے عدم بازیابی کے خلاف آج لکی مروت میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔

    احتجاجی دھرنے میں مظاہرین نے روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کرکے خیبرپختونخوا سے پنجاب کو ملانے والی لکی مروت میانوالی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا ہے۔

    مظاہرین نے مغویوں کی بحفاظت بازیابی میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے ان ملازمین کو جلد سے جلد بحفاظت بازیاب کرایا جائے۔

    یہ احتجاج بنیادی طور ان ملازمین کی رشتہ داروں اور ابا شہید خیل قومی جرگے کی طرف سے کیا جا رہا ہے جبکہ جمعیت علما اسلام ف کے علاوہ مقامی حکومت کے نمائندوں اور علاقے کے عمائدین کی حمایت بھی شامل ہے۔

    یاد رہے کہ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کی تحویل میں اس وقت 10 ملازمین موجود ہیں جبکہ ایک ڈرائیور سمیت سات ملازمین بازیاب ہو گئے تھے۔

    لکی مروت میں دو ہفتے پہلے جب 16 ملازمین اور ایک ڈرائیور صبح کے وقت جب کام کے لیے فیکٹری جا رہے تھے تو راستے میں مسلح افراد نے گاڑی کو روک کر ملازمین کو اتارا اور گاڑی کو دور لے جا کر آگ لگا دی تھی اور ملازمین کو نامعلوم مقام کی طرف لے گئے تھے۔

    سکیورٹی فورسز اور مقامی پولیس کی جانب سے ان ملازمین کی بازیابی کے لیے کوششیں کی گئیں اور اس دوران سات ملازمین کو بازیاب کر لیا گیا جبکہ ان میں تین ملازمین زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس وقت 10 ملازمین مسلح تنظیم کی تحویل میں ہیں۔

    احتجاجی دھرنے میں مختلف سیاسی سماجی مغویان کے رشتہ دار اور وکلا برادری کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ شریک ہیں۔

    اس دھرنے میں موجود مقررین نے کہا ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اغوا کاروں سے کارکنوں کی رہائی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے اور ان کے رشتہ داروں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ مغوی کن حالات میں ہیں۔

    مقررین نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے سنجیدگی کے فقدان کے باعث ملازمین کی بازیابی میں تاخیر ہوئی ہے۔

    احتجاجی دھرنا

    ،تصویر کا ذریعہZubair Marwat

    ،تصویر کا کیپشناحتجاجی دھرنے میں مختلف سیاسی سماجی مغویان کے رشتہ دار اور وکلا برادری کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ شریک

    اس بارے میں ڈپٹی کمشنر لکی مروت ذیشان محسود نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ اس وقت میٹنگ میں مصروف ہیں بعد میں اس بارے میں بات کر سکیں گے۔

    اس مظاہرے میں وکلا اور تاجر برادری کے نمائندوں نے تجاویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ لکی مروت مسلسل بد امنی کی لہر سے مقامی لوگ پریشان اور خوف کا شکار ہیں اس کے لیے اب یا تو اس وقت تک ہم دھرنا دے دیں جب تک مغوی بازیاب نہیں کرا لیے جاتے اور اگر سب راضی ہوں تو دھرنا جاری رہے گا اور پنجاب کو خیبر پختونخوا سے ملانے والی یہ شاہرہ بند رہے گی۔

    دوسری جانب مظاہرے میں سول نا فرمانی تحریک شروع کرنے کی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں۔

    اس موقع پر مقررین کا مزید کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او اس دھرنے میں آکر یقین دہانی کرائیں کہ مغوی کب تک بازیاب کر لیے جائیں گے۔

    یاد رہے کہ لکی مروت میں صوبہ پنجاب کی سرحد کے قریب قبول خیل کے مقام پر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا ایک منصوبہ جاری ہے جس میں مقامی افراد ملازم ہیں۔

    ان ملازمین کے اغوا کے بعد ٹی ٹی پی کی جانب سے تین ویڈیوز جاری کی گئی تھیں جن میں یہ ملازمین کہہ رہے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں اور طالبان کی تحویل میں ہیں۔

    ان ملازمین نے ویڈیوز میں کہا ہے کہ طالبان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں تاکہ ان کی بازیابی ممکن ہو سکے۔ ان ملازمین کے اغوا کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔

    طالبان نے مطالبہ کیا کہ طالبان کے رشتہ دار، گرفتار یا لاپتہ ہیں جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں انھیں رہا کیا جائے۔ لکی مروت کے مجاہدین کا رہا کیا جائے ، آئندہ مجاہدین کاور ان کے عزیز و اقارب کے مکان مسمار نہ کیے جائیں ، فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے طالبان کے لوگوں کی لاشیں ان کے حوالے کی جائیں اور ان کی بے حرمتی نہ کی جائے اور جو مکان مسمار کیے گئے ہیں ان کا معاوضہ دیا جائے۔

    مقامی صحافی محمد زبیر مروت نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی سطح پر ڈپٹی کمشنر لکی مروت کے ساتھ مغویوں کے رشتہ داروں اور جرگے کے افراد کے مذاکرات ہوئے ہیں جس میں انتظامیہ کی جانب سے یہی کہا جاتا ہے کہ وہ کوششیں کر رہے ہیں لیکن دو ہفتوں سے زیادہ وقت گزر گیا ہے اب تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔

    ایک انتظامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ اس وقت ان ملازمین کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن اغوا کاروں کی جانب سے جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان پر غور کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب ان کی بازیابی کے لیے مقامی سطح پر بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

    پولیس افسر نے بتایا کہ جو اطلاعات ان کے پاس موصول ہوئی ہیں جس علاقے میں ملازمین کو اغوا کیا گیا ہے یہ بنیادی طور پر پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے اور یہ جگہ ایک پیالے کی شکل میں ہے جس کے تین طرف پہاڑ ہیں اور اس کے سرحد ایک طرف صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی سے ملتی ہے اور دوسری جانب خیبر پختونخوا کے علاقے کرک سے ملتی ہے ۔ اب یہ معلوم نہیں ہے کہ اغوا کار ان مغویوں کو لے کر کہاں گئے ہیں۔

  7. سعودی عرب امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور تجارت کرے گا: محمد بن سلمان کی صدر ٹرمپ کو یقین دہانی

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان

    ،تصویر کا ذریعہReuters

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ٹیلیفونک رابطے میں کہا ہے کہ سعودی عرب امریکہ میں 600 ارب ڈالر تک سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ٹیلیفونک گفتگو میں کہا ہے کہ سعودی عرب امریکا میں اپنی سرمایہ کاری کو وسعت دیتے ہوئے اگلے چار سال کے دوران اسے 600 ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتا ہے۔

    بیان کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک امریکہ میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقعوں کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔

    روئٹرز کے مطابق سعودی عرب اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تاہم یہ واضح نہیں 600 ارب ڈالر کی نوعیت یا شرائط کیا ہوں گی۔

    ایجنسی کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان نے اضافی مواقعوں کی صورت میں صدر ٹرمپ کو سرمایہ کاری مزید بڑھانے کا عندیہ بھی دیا۔

    یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے اپنی پہلی مدت کے دوران سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات رہے تھے۔

    سعودی عرب نے ٹرمپ کے عہدہ چھوڑنے کے بعد ان کے داماد اور سابق مشیر جیرڈ کشنر کی قائم کردہ کمپنی میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔

    دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والے رابطے میں سعودی ولی عہد نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی متوقع اصلاحات غیر معمولی اقتصادی خوشحالی پیدا کر سکتی ہیں۔

    واضح رہے کہ اپنی حلف برداری کے بعد صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنے غیر ملکی دوروں میں سعودی عرب کو اپنی منزل بنانے پر بھی غور کر سکتے ہیں بشرطیکہ ریاض 500 ارب ڈالر کی امریکی مصنوعات خریدنے پر رضامندی ظاہر کرے جیسا کہ ان کی پہلی مدت کے دوران کیا تھا۔

    یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی پہلی صدارتی ٹرم میں سعودی عرب نے امریکہ کی 450 ارب ڈالر کی مصنوعات خریدنے پر اتفاق کیا تھا۔

    دوسری جانب سعودی پریس ایجنسی نے بھی اس رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم محمد بن سلمان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کے صدر کے طور پر حلف اٹھانے پر ٹیلی فون کال کر کے مبارک باد دی اور ٹرمپ کی قیادت میں امریکی عوام کے لیے مزید ترقی اور خوش حالی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

    ایجنسی کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ مملکت اگلے چار سالوں میں امریکہ کے ساتھ اپنی سرمایہ کاری اور تجارت کو 600 ارب ڈالر کی حد تک بڑھا سکتی ہے۔

  8. گوادر میں مسلح افراد کا پولیس اور کسٹمز کی مشترکہ چوکی پر حملہ: اسلحہ ساتھ لے گئے, محمد کاظم، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ

    لیویز فورس

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

    بلوچستان کے ضلع گوادر میں نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے کوسٹل ہائی وے پولیس اور کسٹمز کی ایک مشترکہ چوکی پرحملہ کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم حملہ آور چوکی پر موجود اسلحہ اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

    مکران پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حملہ گوادر شہر سے 60 کلومیٹر دور نلینٹ کے علاقے میں کیا گیا۔

    اہلکار کے مطابق گزشتہ شب 20 کے قریب حملہ آوروں نے اس علاقے میں حملہ کیا۔

    یاد رہے کہ رواں سال کے پہلے مہینے میں بلوچستان حکومت کے زیر انتظام پولیس اور لیویز فورسز کی چوکیوں پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ حملے مختلف علاقوں میں پولیس اور لیویز فورس کی چوکیوں پر ہوئے۔

    منگل کی شب نامعلوم افراد نے بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع پنجگور میں لیویز فورس کی ایک چوکی پر حملہ کر کے اسے آگ لگا دی تھی۔

    ڈائریکٹر جنرل لیویز فورس بلوچستان عبدالغفار مگسی نے بتایا کہ یہ چوکی ایک شاہراہ پر قائم ایک کمرے پر مشتمل چھوٹی چوکی تھی۔

    ان کا کہنا تھا کہ چوکی کو نذر آتش تو کیا گیا لیکن حملہ آور لیویز فورس کے اہلکاروں سے اسلحہ نہیں لے جاسکے۔

    چند روز قبل ضلع مستونگ کے علاقے دشت میں واقع لیویز فورس کی ایک چوکی پر حملہ کیا گیا تھا۔

    ڈی جی لیویز فورس نے بتایا کہ دشت کے علاقے سے حملہ آور لیویز فورس کے اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر لے جانے میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ گزشتہ سینیچر کے روز نامعلوم مسلح افراد نے تربت شہر کے نواح میں سنگانی سر کے علاقے میں پولیس کی ایک چوکی پر حملہ کرکے اسےآگ لگا دی تھی۔

    تربت پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق چوکی پر ہونے والے حملے میں حملہ آور پولیس اہلکاروں سے اسلحہ لے جانے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس واقعے کے بعد بھی پولیس کی ایک چوکی پر حملہ کیا گیا تھا۔

    بلوچستان کے اے اور بی ایریا کون سے ہیں

    بلوچستان انتظامی لحاظ سے اے اور بی ایریاز کے نام سے دو حصوں پر مشتمل ہے۔

    اے ایریاز شہری علاقوں پر مشتمل ہیں جو کہ پولیس کے زیر انتظام ہیں۔ دیہی علاقوں پر مشتمل بی ایریاز لیویز فورس کے زیر انتظام ہیں۔

    سرکاری حکام کے مطابق لیویز فورس کے زیر انتظام علاقہ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کا 80 سے 85 فیصد حصہ بنتا ہے۔

    اگرچہ پولیس کا علاقہ رقبے لحاظ سے انتہائی کم ہے لیکن بلوچستان کی آبادی کی اکثریت پولیس کے زیر انتظام علاقوں میں ہے۔

    تاہم پولیس کے مقابلے میں لیویز فورس کی نفری اور وسائل کم ہیں۔ اس کا اندازہ بلوچستان کے رواں مالی سال کے بجٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں پولیس کے لیے 52 ارب 33 کروڑ جبکہ لیویز فورس کے لیے 22 ارب 71 کروڑ روپے مختص ہیں۔

    تاہم عام جرائم کی شرح پولیس کے علاقوں کے مقابلے میں لیویز کے مقابلے میں کم پائی گئی ہے۔ اگرچہ پولیس اور لیویز فورس ہی بلوچستان حکومت کے ماتحت دو بڑی فورسز ہیں تاہم حکام کے مطابق عام پولیس اور لیویز فورس کی صلاحیت ایمرجنسی جیسی صورتحال سے نمٹنے کی نہیں ہیں۔

  9. سیاحت کے فروغ کے لیے خیبرپختونخوا کا ’میزبان‘ پروگرام کیا ہے؟

    خیبر پختونخوا میں سیاحت کے فروغ کے لیے ہوم سٹے ٹورازم پروگرام پر عملدرآمد کے لیے ’میزبان‘ کے نام سے پروگرام کا اجرا

    ،تصویر کا ذریعہGOKPK

    پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں سیاحت کے فروغ کے لیے ہوم سٹے ٹورازم پروگرام پر عملدرآمد کے لیے ’میزبان‘ کے نام سے پروگرام کا اجرا کر دیا گیا ہے۔

    منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کے گھروں میں سیاحوں کو معیاری رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لیے 30 لاکھ روپے تک کے بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں گے جس میں مقامی افراد اپنے گھر کے دو کمروں کی تزئین و آرائش کے بعد انھیں سیاحت کے فروغ کے منصوبے میں استعمال کر سکیں گے۔

    صوبائی حکومت کے اعلامیے کے مطابق اس منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کے گھروں میں سیاحوں کو معیاری رہائشی سہولیات کی فراہمی کےلیے 30 لاکھ روپے تک کے بلاسود قرضے بینک آف خیبر کے ذریعے فراہم کیے جائیں گے۔

    یاد رہے کہ سوات، چترال سمیت خیبرپختونخوا کے سیاحتی علاقوں میں ملک کے طول و ارض سے سیر کرنے لوگ آتے ہیں اور کئی علاقوں میں ٹورازم کی صنعت ہی مقامی لوگوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بھی سمجھی جاتی ہے۔

    اعلامیے کے تحت سیاحوں کو اپنے گھروں کے احاطے میں رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے لیے اہلیت کے مطلوبہ معیار پر پورا اترنے والے افراد پہلے سے دستیاب کمروں کی تزئین و آرائش یا دو نئے کمروں کی تعمیر کے لیے قرضہ حاصل کر سکیں گے۔

    سیاحوں کو ان کمروں میں واش رومز اور کچن سمیت دیگر تمام ضروری سہولیات میسر ہوں گی۔

    صوبائی حکومت سے جاری اعلامیہ کے مطابق میزبان پروگرام کے اجرا کے حوالے سے بدھ کے روز محکمہ سیاحت اور بینک آف خیبر کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔

    صوبائی حکومت کا یہ منصوبہ ابتدائی طور پر 39.5 کروڑ روپے کی لاگت سے چترال، دیر، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور سوات سمیت صوبے کے سات اضلاع میں شروع کیا جارہا ہے۔

    قرض حاصل کرنے کے اہل افراد کون ہوں گے؟

    صوبائی حکومت سے جاری اعلامیے کے مطابق سیاحت کے فروغ کے منصوبے ’میزبان‘ کے لیے قرضوں کی واپسی کی مدت پانچ سال ہوگی اور واپسی کا عمل قرضہ وصولی کے دوسرے سال سے شروع ہو گا۔

    کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے حامل 20 سے 55 سال کی عمر کے ایسے افراد جو متعلقہ ایریا کے مستقل رہائشی ہوں اس قرضے کو حاصل کر سکتے ہیں۔

    اعلامیے کے مطابق گریڈ 16 کے ملازمین کی ذاتی گارنٹی کے تحت اس منصوبے میں شامل ہونے والے خواہش مند افراد کو قرضہ دیا جا سکے گا اور قرضے کے برابرکی مالیےت کی جائیداد کا رہن رکھوانا ہو گا جس کی ادائیگی ایک سے پانچ سال کی مدت میں کی جا سکے گی۔

    منصوبے کے حوالے سے منعقد تقریب سے خطاب میں وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور نے دعویٰ کیا کہ میزبان پروگرام کے اجراسے نا صرف سیاحوں کو قیام کی معیاری اور محفوظ سہولیات میسر ہوں گی بلکہ یہ مقامی عوام کے لیے روزگار کا بھی بہترین ذریعہ ثابت ہو گا۔

    وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت سیاحت کو بطور صنعت فروغ دینے پر کام کر رہی ہے، ایک طرف پہلے سے موجود سیاحتی مقامات پر سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے تو دوسری طرف نئے سیاحتی مقامات کی ترقی پر بھی پیشرفت جاری ہے۔

  10. روس یوکرین میں جاری ’نامعقول جنگ‘ ختم کرے یا نئی پابندیوں کے لیے تیار رہے: صدر ٹرمپ کا پوتن کو انتباہ, سارہ رینسفورڈ اور رابرٹ گرین آل

    ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پوتن

    ،تصویر کا ذریعہEPA

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو خبردار کیا ہے کہ وہ یا تو یوکرین میں جاری اپنی ’نامعقول جنگ‘ ختم کرے یا پھر نئی پابندیوں کا سامنا کرنےکو تیار رہے۔

    صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پرروس اور یوکرین جنگ کے خاتمے کے حوالے سے لکھتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جنگ ختم کرنے کی ان کی کوششیں دراصل روس اور اس کے صدر کی مدد کے لیے ہیں۔

    منگل کے روز صدر ٹرمپ نے ایک نیوز کانفرنس میں عندیہ دیا تھا کہ وہ عنقریب روسی صد پوتن سے بات کریں گے تاہم اگر روسی رہنما مذاکرات پر آمادہ نہ ہوئے تو ان کو مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    تاہم بدھ کو ٹروتھ سوشل کی پوسٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’روس کی معیشت بری طرح ناکام ہو رہی ہے اور مذاکرات کی پیشکش دراصل صدر پوتن کی بڑی مدد ہو گی۔‘

    انھوں نے لکھا کہ ’ابھی تصفیہ کریں اور اس مضحکہ خیز جنگ کا خاتمہ کریں جو بد سے بدترہونے والی ہے۔ اگر ہم نے جلدی کوئی ’ڈیل‘ نہ کی، تو میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچے گا سوائے اس کے کہ روس کی امریکہ اور دیگر شراکت دار ممالک کو بیچی جانے والی کسی بھی چیز پر بھاری ٹیکس، محصولات، اور پابندیاں لگاؤں۔‘

    یاد رہے اس سے قبل ٹرمپ یہ دعوئٰ بھی کر چکے ہیں کہ فروری 2022 میں شروع کی گئی روس کی اس جنگ کا تصفیہ کرنا ان کے لیے ایک دن کا کام ہے۔

    روس نے صدر ٹرمپ کے ان بیانات پر تاحال ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا تاہم حالیہ دنوں میں سینیئر حکام نے واضح کیا ہے کہ ماسکو کے پاس نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کا ایک محدود موقع موجود ہے۔

    روس کی جانب سے یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کی مخالفت بھی کی جا رہی ہے۔

    روس یوکرین جنگمیں بوچا کی سڑکوں پر لاشیں اور ناکارہ ٹینک بکھرے پڑے ہیں

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشن2022 کا منظر جہاں بوچا کی سڑکوں پر لاشیں اور ناکارہ ٹینک بکھرے پڑے ہیں

    واضح رہے کہ اس سے قبل صدر پوتن بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ 2014 سے پہلی بار شروع ہونے والی اس جنگ کے خاتمے کے لیے مزاکرات کرنے پر راضی ہیں تاہم یوکرین کو اپنی زمین پر روس کی20 فیصد برتری کو تسلیم کرنا ہو گا۔

    کیئو اپنی زمین چھوڑنے کو تیار نہیں حالانکہ صدرولادیمر زیلینسکی اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ انھیں عارضی طور پرروس کی جانب سے قبضہ کی گئی زمین سے دستبردار ہونا پڑ سکتا ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ’آئیے اس بے نتیجہ جنگ کو ختم کریں جو کبھی شروع نہ ہوتی اگر میں صدر ہوتا !اس جنگ کو ہم آسان یا مشکل طریقے سے ختم کر سکتے ہیں اور آسان طریقہ ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ یہ وقت ڈیل کرنے کا ہے۔‘

    روس کے اقوام متحدہ میں نائب سفیر دیمتری پولیانسکی نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ کریملن کو آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہوگی کہ ٹرمپ جنگ روکنے کے لیے کسی معاہدے میں کیا چاہتے ہیں۔

    دوسری طرف یوکرین کے صدر زیلینسکی نے منگل کو ورلڈ اکنامک فورم میں کہا ہے کہ کسی بھی معاہدے کے تحت کم از کم دو لاکھ امن فوجیوں کی خدمات درکار ہوں گی۔

    انھوں نے بلومبرگ کو بتایا کہ روس کے خلاف ایک حقیقت پسندانہ مزاحمت پیدا کرنے کے لیے کسی بھی امن فورس میں امریکی فوجیوں کو شامل ہونا ہوگاگ

    انھوں نے کہا کہ یہ امریکہ کے بغیر ممکن نہیں اور اگر بعض یورپی دوستوں کا ایسا خیال ہے تو وہ عملی طور پر ممکن نہ ہو سکے گا۔

    صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں تاحال یہ واضح نہیں کیا کہ روس پر مزید اقتصادی پابندیاں کہاں اور کب لگائی جائیں گی۔

    یاد رہے کہ روس سے امریکی درآمدات میں 2022 کے بعد سے کمی واقع ہوئی ہے جبکہ اس پر پہلے ہی سے سخت پابندیاں عائد ہیں۔ اس وقت روسی برآمدات میں زیادہ تر فاسفیٹ پر مبنی کھادیں اور پلاٹینم شامل ہیں۔

  11. حکومت کا سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دینے کا فیصلہ، ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش

    PECA

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    پاکستان کی حکومت نے ایف آئی کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دینے کے لیے ترامیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ حکومت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے ملک میں سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کی بھی تجویز دی دہے۔ مجوزہ قانون کے تحت جعلی خبر پھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔

    پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں قائم کیا جائے گا اور حسب ضرورت اتھارٹی دیگر صوبوں میں بھی اس اتھارٹی کے دفاتر قائم کر سکتی ہے۔

    ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی۔ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔

    پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔

    سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔

    اس اتھارٹی میں کل نو ممبران ہوں گے۔ سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بر بنائے عہدہ اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔

    اتھارٹی کے چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ چیئرمین کے لیے بی اے تک تعلیم یا متعلقہ شعبے میں 15 برس کا تجربہ لازمی ہوگا۔

    بل کے مطابق چیئرمین اتھارٹی سوشل میڈیا پر کسی بھی غیر قانونی مواد کو فوری بلاک کرنے کی ہدایت دینے کا مجاز ہو گا جب کہ چیئرمین اور اراکین کسی دوسرے کاروبار میں ملوث نہیں ہوں گے۔

    نئے ترمیم کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ قانون پر نہ چلنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو عارضی یا مستقل طور پر بھی بند کیا جا سکے گا۔

    اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔

    اتھارٹی آرمڈ فورسز، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی اور پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر نہیں اپلوڈ کیا جاسکے گا۔

    ترمیمی بل کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر نہیں اپلوڈ کیے جا سکیں گے۔

    ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل قائم کی جائے گی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی۔

    ٹربیونل کا قیام

    سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی، ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہو گا جس کی تعیناتی تین سال کے لیے ہو گی۔

    اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں کے پاس مساوی پوسٹ کے پولیس افسران کے اختیارات ہوں گے، نئی تحقیقاری ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔

    ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجنیئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔

    ترمیمی بل کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا، فیک نیوز پھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔

  12. شمالی سندھ سے ہندو کمیونیٹی نقل مکانی کے بعد انڈیا منتقل ہو رہے ہیں: انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ, ریاض سہیل، بی بی سی اردو، کراچی

    BBC

    پاکستان انسانی حقوق کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں تصدیق کی ہے کہ شمالی سندھ سے ہندو کمیونیٹی نقل مکانی کر رہی ہے اور اکثر کی منزل انڈیا ہے۔ کیا ہندو کمیونیٹی سندھ چھوڑ رہی ہے کے عنوان سے فیکٹ فائینڈنگ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اغوا، بھتہ خوری، بدامنی، مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات اور کاروبار میں نقصان اس نقل مکانی کی وجہ بن رہی ہے۔

    انسانی حقوق کمیشن کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے بتایا کے ان کی اطلاعات کے مطابق اس وقت بھی 1300 پاکستانیوں کی انڈیا میں شہریت کی درخواستیں فیصلے کی منتظر ہیں اور یہ لوگ برسوں سے وہاں موجود ہیں۔ ان کے مطابق ان میں سے کُچھ تو پیسے والے ہیں وہ تو ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں ان کی داد رسی بھی ہے لیکن غریب وہاں دربدر ہیں۔

    انسانی حقوق کمیشن کے کونسل ممبر صحافی سہیل سانگی کا کہنا تھا کہ ’ایک تاثر ہے کہ اس نقل مکانی میں ریاست کے کچھ ادارے بھی شامل ہیں اگر ایسا کچھ ہے تو یہ بات قابلِ تشویش ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’جو مقامی منتخب نمائندے ہیں وہ ہندو کمیونیٹی کے لوگوں کو تحفظ کی یقین دہانی کرائیں۔‘

    کشمور سے انسانی حقوق کمیشن کے ضلعی کوآرڈینیٹر کا کہنا تھا کہ ’انھیں اس مطالعے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کلائیمنٹ چینج بھی اس نقل مکانی کی ایک وجہ ہے کیونکہ ان علاقوں میں چاول کی کاشت ہوتی ہے چاوال کی صفائی کے کارخانوں سے لیکر مقامی کاروبار تک ان کا ہے مسلسل بارشوں، سیلابوں کی وجہ سے زراعت متاثر ہوئی ہے اور ہندو کمیونیٹی کو نقصان ہوا ہے بقول ان کے صرف ان کے ضلعے سے پانچ سو خاندانوں نے ویزے کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے۔‘

    مذہب

    ،تصویر کا ذریعہAFP

    حکومت سندھ کے اقلیتی امور کے بارے میں مشیر راجویر سنگھ کا کہنا تھا کہ ’ہندو کو ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہی تحفظ دے سکتا ہے شمالی سندھ میں مسلم آبادی بھی بدامنی کا شکار ہے لیکن ان کے پیچھے قبیلا کھڑا ہوتا ہے وہ اکیلا نہیں ہوتا یہ سہولت ہندو آبادی کو حاصل نہیں، انھوں نے تسلیم کیا کہ سندھ میں جبری مذہب کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔‘

    حکومت سندھ کی جانب سے اسمبلی میں جبری مذہب کی روک تھام کے بل پیش کرنے اور اس کے بعد پیروی نہ کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ اس بل پر سماج کے ایک ایکشن نے سخت مخالفت اور مزاحمت کی جس وجہ سے حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

  13. پاڑہ چنار کے لیے قافلے روانہ، امن و امان کے عمل میں سول انتظامیہ اور پولیس کو مرکزی کردار دیا جائے: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا

    کرم

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    کُرم کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ساٹھ سے زائد چھوٹی گاڑیوں کا قافلہ آج ضلع کرم پہنچ گیا ہے۔ قافلے میں جانے والی گاڑیوں میں اشیائے خوردونوش اور روزمرہ استعمال کے اشیا بھیجوائی گئی ہیں۔

    ضلعی انتظامیہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاڑہ چنار جانے والا 40 گاڑیوں کا قافلہ علیزئی پہنچ گیا ہے۔

    ضلعی انتظامیہ کا اپنے بیان میں مزید کہنا ہے کہ ٹل سے کرم قافلہ کمشنر کوہاٹ اور ڈی آئی جی کوہاٹ کی نگرانی میں پہنچایا گیا۔ گاڑیوں کا قافلہ شام سے قبل پاراچنار سمیت اپر کرم کے مختلف علاقوں میں پہنچے گا۔

    دوسری جانب مقامی پولیس افسر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ آج یعنی بدھ کے دن بگن میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے کوئی آپریسن نہیں ہو رہا۔ لوئر کرم کے علاقے چھپری سے لے کر بگن تک پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات ہیں۔

    مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ یہ کل 15 کلومیٹر کا راستہ ہے اور اس کو محفوظ بنایا گیا ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ ادھر لوئر کرم میں احتجاج کرنے والے لوگوں نے کہا ہے کہ ’بگن اور قریبی علاقوں میں گھر گھر تلاشی کے دوران اسلحہ لے لیا گیا ہے۔

    مقامی سماجی رہنما شاہین گل نے بتایا ہے کہ ’اس علاقے سے کوئی بھاری اسلحہ برآمد نہیں ہوا اور اس علاقے میں 2014 کے بعد سے یہ تیسری مرتبہ اسلحہ لیا گیا ہے جبکہ بگن میں 22 نومبر کو حملہ کرنے والے گروہ سے اب تک کوئی تلاشی نہیں کی گئی اور ناں ہے وہاں کو ہی آپریشن کیا گیا ہے۔‘

    کرم

    ،تصویر کا ذریعہMohammad Rehan

    دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیرِ صدارت کرم کے معاملے پر ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کرم کی صورتحال کے حوالے سے جرگہ بلایا جائے گا، کرم کو اسلحے سے پاک کیا جائے گا اور علاقے میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے قافلے بھیجے جائیں گے۔

    وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں چیف سیکرٹری، آئی جی پی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

    اجلاس میں کرم کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اس حوالے سے اہم فیصلے بھی لیے گئے جن میں کہاں گیا کہ آج یعنی بدھ سے کرم میں غیر قانونی بنکرز کو مسمار کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ اس مہینے کے آخر تک کرم کے لئے ضروری اشیاء پر مشتمل گاڑیوں کے چار قافلے بھیجے جائیں گے۔‘

    اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ کرم امن معاہدے کے دستخط کنندگان کا جرگہ بلایا جائے گا کہ جس میں معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلے میں دستخط کنندگان کی ذمہ داریوں کو اجاگر کیا جائے گا۔ کرم میں دیہات کی سطح پر قائم کمیٹیوں کو فعال کیا جائے اور اسی کے ساتھ ساتھ کرم کو اسلحہ سے پاک کرنے کے لئے دونوں فریق طریقہ کار وضع کرکے جلد از جلد حکومت کو اس حوالے سے آگاہ کریں۔

    بگن

    ،تصویر کا ذریعہMuhammad Rehan

    ،تصویر کا کیپشنبگن بازار جسے مسلح پرپسندوں کی جانب سے نذر آتش کیا گیا

    اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ بگن کے متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی ان کی حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون سے مشروط ہوگی۔ دونوں اطراف کے دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

    اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ علاقے میں امن و امان کے حوالے سے سارے عمل میں سول انتظامیہ اور پولیس کو لیڈ رول دیا جائے گا تاہم دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے سول انتظامیہ کو معاونت فراہم کریں گے۔ کرم روڈ کی سکیورٹی کے لئے خصوصی دستے تعینات کئے جائیں گے۔

    کرم

    ،تصویر کا ذریعہKarim Orgai

    تنازع 2024 میں کیسے بھڑکا؟

    ضلع کرم میں مختلف قبائل کے درمیان تنازعات اور جھڑپوں اور پھر اس میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کا پیش آنا یہاں دہائیوں سے جاری لیکن اس مرتبہ کشیدگی 12 اکتوبر 2024 کو شروع ہوئی جب ایک ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد ایک قافلے پر حملہ ہوا جس میں متعدد ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

    یہ دونوں واقعات مخالف دھڑوں پر ہوئے جن میں سے ایک کا تعلق اہلِ تشیع سے تھا اور دوسرے حملے میں ہلاک ہونے والے اہلِ سنت سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔

    ان واقعات کے بعد لوئر کرم یعنی اہل سنت کے علاقوں سے اپر کرم یعنی اہل تشیع کے علاقوں تک جانے والے راستے مقامی لوگوں نے بند کر دیے تھے جس سے اپر کرم یعنی پاڑہ چنار اور دیگر علاقوں کو رسد بند کر دی گئی تھی۔

    21 نومبر کو سکیورٹی اہلکاروں کے تحفظ میں ایک قافلہ کرم بھیجا گیا لیکن اس قافلے پر اوچت کے قریب مسلح افراد نے حملہ کر دیا جس میں 50 کے قریب ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

    اس کے بعد 22 نومبر کو بگن بازار پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا جس میں بازار میں دکانوں اور مکانات کو آگ لگا دی گئی اور اس میں 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس میں کچھ لوگوں کے گلے کاٹے گئے اور خواتین کو یرغمال بھی بنایا گیا تھا۔

  14. بلوچستان: گوادر میں کتابوں کا سٹال لگانے پر گرفتار طلبا کی ضمانت منظور, محمد کاظم، بی بی سی اردو، کوئٹہ

    books

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

    بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک عدالت نے کتابوں کی سٹال لگانے کی بنیاد پر گرفتار کیے جانے والے چار طالب علموں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

    گرفتار کیے جانے والے چاروں طلبا کی رہائی کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ ون کی عدالت میں ضمانت کی درخواستیں لگائی گئی تھیں جن کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے چالیس چالیس ہزار روپے کی ذاتی مچلکوں پر ان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

    ان طلباء کو گزشتہ روز گوادر شہر میں ڈھوریہ سکول کے قریب سے گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ پولیس نے وہاں سٹال پر رکھی جانے والی کتابوں کو بھی تحویل میں لیا تھا۔

    جن چار طلباء کو گرفتار کیا گیا ان میں نوروز بلوچ، حنیف بلوچ، شہریار اور چاکر بلوچ شامل ہیں۔ ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 149،147،188اور 153B کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔

    اس سلسلے میں پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے طلبا نے سٹال لگاکر انتشار پھیلانے والی کتابیں طلبا اور خواندہ لوگوں میں نافذ العمل قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغیر اجازت فروخت کرنے کی کوشش کی۔

    ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بلوچ سٹودنٹس ایکشن کمیٹی کے طلبا دیگر طالب علموں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے اور انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی، طلباء تنظیموں اور حق دو تحریک گوادر نے طلباء کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمے کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

    بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے طلباء کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمے کے اندراج کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ریاست شہریوں کے کتابیں پڑھنے اور علم بانٹنے کے عمل سے بھی خائف ہے۔‘

    بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کے چیئرمین بالاچ قادر بلوچ نے کہا کہ ’جو کتابیں سٹالوں پر رکھی گئی تھیں وہ لاہور اور کراچی میں موجود پبلشرز کی جانب سے چھاپی گئیں اور یہ پاکستان کے دیگر شہروں میں فروخت ہورہی ہیں لیکن یہاں ان پر پابندی ہے۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’نہ صرف گوادر بلکہ اس سے قبل تربت، نصیر آباد اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں بھی طلباء کو کتابوں کا سٹال نہیں لگانے دیا گیا۔‘

    ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کے اس عمل نے یہ واضح کر دیا کہ بلوچ نوجوانوں کے ہاتھ میں کتاب کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔‘

  15. میدانی علاقوں میں بارشوں کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے: محکمہ موسمیات

    موسم

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے منگل کے روز ایک ایڈوازری جاری کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں میدانی علاقوں میں بارش کم ہونے کی وجہ سے ملک میں خشک سالی کی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ یکم ستمبر 2024 سے 15 جنوری 2025 کے دوران ملک بھر میں معمول سے 40 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں۔

    اس سے سب سے زیادہ صوبہ سندھ متاثر ہوا ہے جہاں معمول سے 52 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں جبکہ بلوچستان اور پنجاب میں یہ تناسب بالترتیب منفی 45 اور 42- فیصد رہا ہے۔

    خشک سالی سے متاثر ہونے والے علاقوں میں اسلام آباد، کراچی، راولپنڈی، اٹک، چکوال، بھکر، لیہ، ملتان، راجن پور، بہاولنگر، بہاولپور، فیصل آباد، سرگودھا، خوشاب، میانوالی، ڈی جی خان، گھوٹکی، جیکب آباد، لاڑکانہ، شہید بینظیر آباد، دادو، پڈعیدن، سکھر، خیرپور، خضر پور حیدرآباد، ٹھٹھہ، بدین، اورماڑہ، خاران، تربت، کیچ، پنجگور، آواران، لسبیلہ، نوکنڈی، دالبندین اور ملحقہ علاقے شامل ہیں۔

    ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ اس حالیہ جاری خشک سالی کی صورتحال کے دورانیے میں اضافے کا امکان ہے کیونکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بارانی علاقوں میں کوئی زیادہ بارشیں متوقع نہیں۔

    محکمہ موسمیات کی ایڈوائزری میں مزید کہا گیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں درجہ حرارت کے بڑھنے کی وجہ سے ملک میں خشک سالی کے اضافے کا بھی امکان ہے۔

    ’اگر بارشیں نہیں ہوئی تو اس سے موسمِ گرما کے دورانیے میں بھی اضافہ ہو جائے گا‘

    بی بی سی کی نامہ نگار آسیہ انصر سے بات کرتے ہوئے محکمہ موسمیات کے ملک میں خشک سالی کی نگرانی کرنے والے ڈپٹی ڈائیریکٹر راشد بلال نے بتایا کہ ’گزشتہ تین چار سال سے دیکھنے میں آیا ہے کہ سردیوں میں بارشیں کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں۔‘

    ان کا کہنا ہے کہ ’سردیوں کی بارش کا سیزن آگے جاتا جا رہا ہے۔ پچھلے سال بارش پانچ جنوری کو ہوئی تھی اور اس سال تو یہ تھوڑا مزید آگے چلا گیا ہے۔‘

    راشد بلال کے مطابق ’حالیہ دنوں میں ملک کے پہاڑی علاقوں میں تو بارش ہوئی ہے لیکن میدانی علاقوں میں نہیں ہوئی جس کا اثر ان علاقوں میں کی جانے والی کاشتکاری پر بھی پڑا ہے۔‘

    ان کا کہنا ہے کہ ’اگر بارشیں نہیں ہوتی تو اس سے سال گرمی کا موسم لمبا ہو جائے گا جس سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘

    راشد بلال کہتے ہیں ’ایڈوائزری جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ متعلقوں اداروں کو متنبے کیا جائے تاکہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔‘

    تاہم راشد بلال کا کہنا ہے کہ اگر بارشوں کا ایک اچھا سپیل آجاتا ہے تو یہ صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔

    ان کے مطابق سنہ 1999 سے سنہ 2003 تک پاکستان کی تاریخ کے سب سے خشک سالوں میں سے تھے۔

    راشد بلال کہتے ہیں انسانی زندگی کا دارومدار زراعت پر ہے اور اگر بارشیں نہیں ہوں گی تو اس سے زراعت متاثر ہوگی جس کے نتیجے میں خوراک کی کمی جیسے دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

  16. جنوبی امریکہ میں غیر معمولی برفانی طوفان، چار افراد ہلاک، 2200 پروازیں منسوخ

    امریکہ کے جنوبی حصوں میں آنے والے غیر معمولی برفانی طوفان کے نتیجے میں امریکی ریاست ٹیکساس کی اہم شاہراہیں اور ایئر پورٹس بند ہو گئے ہیں جبکہ ریاست لوزیانا میں پہلی مرتبہ حکام کی جانب برفانی طوفان کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔

    طوفان سے اب تک چار افراد کی اموات کی اطلاعات ہیں جن میں سے دو ہلاکتیں ٹیکساس کے علاقے آسٹن میں جبکہ دیگر اموات جورجیا اور ملواکی میں ہوئی ہیں۔

    امریکی ریاست نیویارک میں طوفان کے نتیجے میں اب تک 18 انچ تک برف پڑ چکی ہے۔

    آن لائن ہوائی جہازوں کی آمد و رفت پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ’فلائیٹ اویر‘ کے مطابق منگل کے روز امریکہ بھر میں 2200 سے زیادہ پروازیں منسوخ جبکہ تین ہزار کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔

    امریکہ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    امریکہ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    امریکہ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

  17. مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آپریشن میں 10 فلسطینی ہلاک

    غزہ میں جنگ بندی کے تین روز بعد مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے جنین میں اسرائیلی آپریشن کے دوران 10 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔

    فلسطینی خبر رساں ادارے وفا کے مطابق اسرائیلی فوج کے آپریشن جسے ’آئرن وال‘ کا نام دیا گیا ہے کے دوران جنین کے کئی علاقوں کو بجلی کی فراہمی منقطع ہے۔

    اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنین میں آپریشن کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔

    دوسری جانب اسرائیل کی ایمبیو لنس سروس کے مطابق تل ابیب شہر میں چاقو حملے کے نتیجے میں چار افراد زخمی ہو گئے ہیں جبکہ حملہ آور مارا گیا ہے۔

    حماس نے ایک بیان میں اسے ’بہادرانہ‘ حملہ قرار دیتے ہوئے حملہ آور کی شناخت عبدالقادی عزیز نام سے جو ایک مراکشی تھا۔

    اسرائیلی پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حملہ آور ایک 28 سالہ غیر ملکی شہری تھا۔

  18. نہ کسی کے خلاف استعمال ہوں گا اور نہ ہی کسی سے بلیک میل ہوں گا: ملک ریاض

    ملک ریاض

    ،تصویر کا ذریعہSocial Media

    بحریہ ٹاؤن کے مالک اور 190 ملین پاؤنڈ کیس میں پاکستانی عدالت کی جانب سے ’مفررو‘ قرار دی گئی کاروباری شخصیت ملک ریاض کا کہنا ہے کہ نیب کی پریس ریلیز بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے مگر وہ نہ تو کسی کے خلاف گواہی دیں گے اور نہ ہی کسی کے خلاف استعمال ہوں گے۔

    انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’ گواہی کی ضد‘ کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں۔

    ملک ریاض نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سےجاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ ’میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا آج بھی یہ فیصلہ ہے چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا۔‘

    یاد رہے کہ منگل کے روز قومی احتساب بیورو (نیب) نے عوام الناس کو ’تنبیہ‘ کی تھی کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے دبئی میں شروع ہونے والے نئے پراجیکٹ میں سرمایہ کاری نہ کریں کیونکہ ایسے کسی بھی اقدام کو ’منی لانڈرنگ‘ تصور کیا جائے گا۔

    نیب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ملک ریاض اس وقت ’عدالتی مفرور‘ کی حیثیت سے دبئی میں مقیم ہیں اور انھوں نے وہاں ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا ہے۔

    اپنے بیان میں ملک ریاض نے الزام عائد کیا کہ ’نیب کے پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔‘

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں ضبط کرہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جاے گا۔ یہ مت بھولنا کہ بچھلے 25، 30 سالوں کے سب راز ثبوتوں کے ساتھ محفوظ ہیں۔‘

    ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی کے خلاف استعمال ہوں گے اور نہ ہی کسی سے بلیک میل ہوں گے۔

    خیال رہے کہ عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں ملک ریاض کو مفرور قرار دے رکھا ہے۔

  19. مریم نواز اور یو اے ای کے صدر کی مصنوئی ذہانت سے بنائی گئی تصاویر شیئر کرنے پر مزید 10 ملزمان کے خلاف مقدمات درج

    مریم

    ،تصویر کا ذریعہPunjab Govt

    پاکستان کی وفاقی تحقیقات ایجنسی (ایف آئی اے) کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے صدر کی سوشل میڈیا پر مصنوئی ذہانت سے بنائی گئی تصاویر شیئر کرنے کے الزام میں دو خواتین سمیت مزید 10 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

    ایف آئی اے سائبر کرائم لاہور کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم محمد سرفراز چوہدری کا کہنا ہے کہ مقدمے میں نامزد پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما شہباز گل اور عادل راجا جیسے ملزمان کو پاکستان لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

    ایف آئی اے کے مطابق وزیراعلی پنجاب اور یو اے ای کے صدر کی اے آئی جنریٹڈ تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنیوالے والوں کےخلاف اب تک 18 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔

    ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ جن افراد نے ان تصاویر پر کمنٹس کیے وہ بھی ایف آئی اے کے ملزم ہیں اور انھیں پانچ سے سات سال تک سزا ہو سکتی ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ملزمان کو چار کیٹگریز میں بانٹا گیا ہے۔ ان کے مطابق تصاویر بنانے والے اور شیئر کرنیوالے کے علاوہ اسے لائک اور اس پر کمنٹ کرنیوالوں کو بھی پکڑا جائے گا۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں وزیر اعلیٰ مریم نواز مریم نواز کے معاون خصوصی نے اُن کی یو اے ای کے صدر کے ساتھ تصویر اپنے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کی تھی جس میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

    اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ایسی مہم شروع کی گئی جس میں مذکورہ تصویر کو کچھ صارفین نے قابل اعتراض ایڈیٹنگ کر کے وائرل کیا تھا۔

    جس پر ایف آئی اے کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے تفتیش کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی تھیں۔

  20. ڈونلڈ ٹرمپ کا فروری سے چینی مصنوعات کی درآمد پر 10 فیصد ٹیکس لگانے پر غور

    ڈونلڈ ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ چینی مصنوعات کی درآمد پر یکم فروری سے 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ان کی اپنی انتظامیہ کے ساتھ ہونے والی چین سے متعلق بات چیت ’اس حقیقت پر مبنی تھی کہ وہ میکسیکو اور کینیڈا کو فینٹینائل بھیج رہے ہیں۔‘

    اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو اور کینیڈا سے مصنوعات کی درآمد پر 25 فیصد ٹیکس لگانے کی دھمکی دی تھی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ یہ ممالک امریکہ میں آنے والے غیر قانونی تارکین وطن اور منشیات کے لیے ذمے دار ہیں۔

    منگل کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ وہ یورپی یونین کی مصنوعات پر بھی ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چین امریکہ کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے جبکہ ’یورپی یونین بھی ہمارے ساتھ بہت برا کرتا ہے۔‘

    وہ ہمارے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں۔ ان پر ٹیرف لگنے والا ہے۔ یہ واحد طریقہ ہے انھیں سبق سکھانے کا۔ یہ انصاف حاصل کرنے کا واحد طریقہ ہے۔‘

    دریں اثنا، ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کی میٹنگ کے موقع پر بات کرتے ہوئے چین کے نائب وزیر اعظم ڈنگ زیو ژیانگ نے امریکہ کا ذکر کیے بغیر تجارتی تنازعات کے ایسے حل پر زور دیا ہے جس میں سب کی ’جیت‘ ہو۔

    اپنی انتخابی مہم کے دوران دونلڈ ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر 60 فیصد تک ٹیرف لگانے کا وعدہ کیا تھا۔

    کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی امریکہ کی طرف سے ممکنہ ٹیرف کا جواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔

    ’اگر [امریکی] صدر ٹیرف منصوبے پر عملدرآمد کرتے ہیں، تو کینیڈا اس کا جواب دے گا۔‘

    ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ٹیرف کے ممکنہ اطلاق کے خلاف کینیڈا بھی جوابی ٹیرف تیار کر رہا ہے، جس کی مالیت مبینہ طور پر اربوں ڈالر میں ہے۔

    کینیڈا، چین اور میکسیکو امریکہ کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔