یہ لائیو پیج اب اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا!
یہ لائیو پیج اب مزید اپڈیٹ نہیں کیا جا رہا۔
تازہ ترین خبروں اور تبصروں کے لیے یہاں کلک کریں۔
ہم آپ کو بہترین آن لائن تجربہ دینے کے لیے کوکیز استعمال کرتے ہیں۔ برائے مہربانی ہمیں بتائیں کہ آپ ان تمام کوکیز کے استعمال سے متفق ہیں
ضلع کُرم میں حالات کو معمول پرلانے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے کرم میں ڈپٹی کمشنرکے قافلے پر حملے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کا فیصلہ کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ واقعے میں ملوث افراد کو حکومت کے حوالے نہ کیا گیا تو وقوعہ کے مقام پر آپریشن کیا جا سکتا ہے۔
یہ لائیو پیج اب مزید اپڈیٹ نہیں کیا جا رہا۔
تازہ ترین خبروں اور تبصروں کے لیے یہاں کلک کریں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ضلع کُرم میں حالات کو معمول پرلانے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے کرم میں ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کا فیصلہ کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ واقعے میں ملوث افراد کو حکومت کے حوالے نہ کیا گیا تو وقوعہ کے مقام پر سخت کاروائی کی جائے گی۔
کرم میں سخت کشیدہ حالات کے تناظر میں کوہاٹ میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس کے بعد جاری سرکاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ وقوعہ کے مقام پر سخت کاروائی کے لیے آپریشن کی ضرورت پڑنے پر مقامی آبادی کو عارضی طور پر منتقل کیا جائے گا جبکہ کرم میں دفعہ 144 نافذ ہوگی اور قافلوں کی آمدورفت کے دوران سڑکوں پر کرفیو ہوگا۔
اعلامیے کے مطابق ’وہ سرکاری ملازمین جو فرقہ ورانہ انتشار کی پشت پناہی کررہے ہیں اُن کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے گی۔‘
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’کُرم امن معاہدے پر دستخط کرنے والے مشران کو امن معاہدے کے نفاذ کے حوالے سے جوابدہ بنایا جائے گا۔ چار جنوری کے حملے کے تمام مجرموں اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو ایف آئی آر میں نامزد کیا جائے گا اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمے درج کیے جائیں گے جبکہ ضابطے کی کارروائی کرکے گرفتاری کے ساتھ شیڈول فور میں بھی شامل کیا جائے گا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امن معاہدے پر دستخط کرنے والے مشران کو حملے کے مجرموں اور ان کی مدد کرنے والوں کو حوالے کرنے کا کہہ دیا گیا ہے ، جس پر عملدرآمد نہ ہونے پر ملزمان کی براہ راست گرفتاری کے لیے کارروائی کی جائے گی۔
اعلامیے کے مطابق پاراچنار روڈ اور توراورائی – ششو روڈ پر سخت انتظامی اقدامات کیے جائیں گے، اجناس کے قافلے کی نقل و حمل جلد کی جائے گی۔ ضلع کرم میں دفعہ 144 نافذ ہوگی اور قافلوں کی آمدورفت کے دوران سڑکوں پر کرفیو ہوگا جبکہ اسلحہ رکھنے والا کوئی بھی شخص دہشت گرد تصور کیا جائے گا۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر امن وامان کی پاسداری نہ کی گئی تو شرپسندوں اور امن کو خراب کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
،تصویر کا ذریعہSocial media
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں سنیچر کے روز ڈپٹی کمشنر پر کیے جانے والے حملے کا مقدمہ پانچ افراد کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔
پولیس کی مدعیت میں درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ڈی سی کرم بمعہ اپنے گارڈز، ڈرائیور، ایف سی نفری کے ہمراہ کانوائے کے انتظامات چیک کرنے صدہ سے بگن کی طرف جارہے تھے۔ جس وقت وہ انتظار گاہ بگن، جو کہ تھانہ اخمدی شمع سے تقریبا 12 کلو میٹرمغرب پر واقع ہے، پر پہنچے تو اس وقت ان کی گاڑیوں پر 25 کے قریب نامعلوم دہشت گردوں نے قتل کے ارادہ سے اندھا دھند فائرنگ کی۔
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ مسعود، کانسٹیبل مثل خان،ایف سی کے اہلکار رحیم اللہ، رضوان اور نظیر خان شدید زخمی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ سنیچر کے روز ڈپٹی کمشنرکرم جاوید اللہ محسود فائرنگ میں زخمی ہو گئے تھے۔ خیال رہے مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے تصدیق کی تھی کہ ’ڈپٹی کمشنر کرم پر بگن کے علاقے میں نامعلوم شرپسندوں نے فائرنگ کی تھی۔‘
مقدمے کے متن کے مطابق ’فائرنگ سے کمانڈر 15ونگ کی ایک ڈبل کیبن گاڑی کو نقصاں پہنچا ہے۔ درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ زخمیوں کو علاج کے لیے علی زئی تحصیل ہسپتال اور پھر سی ایم ایچ ٹل پہنچایا گیا تھا۔
ملزمان نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا اور دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے۔ ملزمان کے خلاف مقدمات دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ قاتلانہ حملے اور دیگر دفعات شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق ابھی تک کوئی بھی ملزم گرفتار نہیں ہوا ہے تاہم پولیس اس ضمن میں کارروائی کر رہی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ کرم میں شرپسندوں نے فائرنگ کر کے امن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ سکیورٹی کے پیش نظر چند مقامات پر کرفیو لگانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ شر پسندی دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں اینکر ماریہ میمن سے بات کرتے ہوئے مشیر اطلاعات نے کہا کہ ’کرم ایک بڑا علاقہ ہے جس میں تین تحصیلیں ہیں جن میں سے بعض علاقے سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی حساس ہیں۔ اس لیے ان علاقوں میں کرفیو لگایا جا رہا ہے تاکہ مزید ایسا کوئی واقعہ نہ ہو۔ کرفیو میں وقفے وقفے سے نرمی بھی کی جائے گی اور اس کا دورانیہ بھی کم کیا جائے گا۔‘
کیا اس کرفیو سے دوائیوں اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت تو نہیں ہو گی جیسا کے پہلے سامنے آیا تھا؟
اینکر کے اس سوال کے جواب میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ ٹل کی سڑک پچھلے تین ماہ سے بند ہے۔ کل بھی جو کانوائے جانا تھا وہ بھی خوراک ادویات گیس راشن پہچانے کے لیے جا رہا تھا لیکن اب سڑک کی کلیئرنس نہیں ہے جب کلیرنس ملے گی تو ہی کانووائے آگے جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’ادویات اور ضروری سامان ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی پہنچایا جا رہا ہے جبکہ بعض افراد پرائیویٹ طریقوں سے بھی سامان پہنچا رہے ہیں۔‘
بیرسٹر سیف کے مطابق ’ضلع کرم میں مزید چیک پوائنٹس بنائی جا رہی ہیں جبکہ ایف سی اور پولیس کی اضافی نفری لگائی جا رہی ہے تاکہ سکیورٹی مزید بہتر ہو اور کلیئرنس کے بعد نہ صرف خوراک اور ادویات کی ترسیل سڑک کے ذریعے ہو سکے گی بلکہ حالات کی بہتری کے بعد امید ہے کہ بتدریج اس کو آمدورفت کے لیے بھی کھول دیا جائے گا۔‘
اینکر کے ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’کل کے واقعے کو ذاتی طور پر شرپسندی کا واقعہ سمجھ رہا ہوں۔ کرم کے تمام عوام امن چاہتے ہیں۔ کل جن افراد نے فائرنگ کی ان کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’امن معاہدہ فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوا ہے جس میں حکومت نے ثالثی کی ہے۔ اور وہ معاہدہ آج بھی قائم ہے۔اور فریقین اس پر متقفق ہیں تاہم چند لوگ چاہتے ہیں کہ کرم میں امن قائم نہ ہو۔‘
،تصویر کا ذریعہArsalan
گلگت بلتستان کے سیاحتی مقام ہنزہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف شاہراہ قراقرم پر تین روز سے جاری دھرنے کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے۔ سیاح لنک راستوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ بس، ٹرک، کنیٹنر سمیت بڑی گاڑیوں کے لیے راستے مکمل بند ہیں۔
ہنزہ میں دھرنا علی آباد کے علاقے میں واقع کالج چوک پر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما کامریڈ بابا جان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی بندش سے ہنزہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔
ان کے مطابق ’ہم نے انتہائی تنگ ہو کر اور مجبوری میں دھرنا جیسا آپشن چنا ہے۔ ہمارے مطالبے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔‘
ان سے جب مطالبے پوچھے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ عطا آباد پاور پلانٹ سمیت باقی جتنے بھی منصوبے ہیں ان پر کام شروع کرنے نوٹیفکیشن فی الفور جاری کیا جائے جبکہ شارٹ ٹرم حل کے لیے فی الفور تھرمل پاور پلانٹ کے ذریعے سے بجلی فراہم کی جائے۔ ان مطالبات کی منظوری کے بغیر دھرنا ختم نہیں ہوگا۔‘
ان کے مطابق ’اب جب دھرنا شروع ہوچکا ہے تو یہ اب ہنزہ میں بجلی کا مسئلہ حل ہوئے بغیر ختم نہیں ہوگا۔
ان کا دعوی تھا کہ ہنزہ میں 24 گھنٹوں میں بجلی صرف چند منٹوں کے لیے آتی ہے جس نے رہائشیوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔
،تصویر کا ذریعہArsalan
اس دھرنے میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
خاتون رہنما عقیلہ بانو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ خواتین ہیں۔ بچوں کو سکول بھجنا ہوتا ہے مگر بجلی نہیں ہوتی کہ یونیفارم استری ہو۔ پانی نہیں ہوتا گھر میں اندھیرا ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس بحران کی وجہ سے لوگ لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔ جس سے ہنزہ کا حسن متاثر ہورہا ہے۔ نہ صرف ہنزہ کی ماحولیات متاثر ہورہی ہے بلکہ لکڑی اورپھر کوئلے کے استعمال سے صحت کے مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں جن سے بھی سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں۔
عقیلہ بانو کا کہنا تھا کہ اس دھرنے میں خواتین اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ اب بجلی کے بغیر زندگی نہیں گزر سکتی ہے۔ اس لیے ہنزہ کے لیے بجلی کا انتظام کرنا چاہیے چاہے اس کے بدلے پورا سال ہی دھرنا کیوں نہ دینا پڑے۔
خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں قائم مقام ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی اور دو ماہ کے لیے دفعہ 144 کے نفاذ کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق ڈی سی کرم جاوید اللہ محسود کے زخمی ہونے کے باعث ضلع کے انتظامات سنبھالنے کے لیے 18 گریڈ کے اشفاق خان کو ڈپٹی کمشنر کرم تعینات کر دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سنیچر کے روز ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود فائرنگ میں زخمی ہو گئے تھے۔
دوسری جانب ضلع کرم میں دو ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق کرم میں پانچ سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ ضلع کرم میں اسلحے کی نمائش پر بھی مکمل پابندی ہو گی۔
اعلامیے کے مطابق کرم کا امن خراب کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔
ضلع بھر میں قیام امن کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ فوری (اتوار سے) ہو گا جو دو ماہ تک جاری رہے گا۔
یاد رہے کہ سنیچر کے روز ضلع کرم میں فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔
حکام کے مطابق ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود اور ان کے ہمراہ چار سکیورٹی اہلکار لوئر کرم میں حاجی علی کے علاقے میں موجود تھے جب ان پر حملہ کیا گیا۔
خیال رہے مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے تصدیق کی تھی کہ ’ڈپٹی کمشنر کرم پر بگن کے علاقے میں نامعلوم شرپسندوں نے فائرنگ کی تھی۔‘
ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کو علیزئی ہسپتال سے ٹل کے سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ بیرسٹر سیف کے مطابق ڈپٹی کمشنر کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ ’ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود پر حملہ امن کو سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش اور مذموم سازش تھی، کرم کے عوام امن دشمن عناصر سے ہوشیار رہیں۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’کوہاٹ میں ہونے والے گرینڈ جرگے کے معاہدے کے مطابق کرم میں ہر حال میں امن کو یقینی بنایا جائے گا۔‘
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ ’کرم میں ہر حال میں امن کو یقینی بنایا جائے گا اور امن دشمنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔‘
انھوں نے علاقے کے عوام سے اپیل کی کہ علاقے میں پائیدار امن کے لیے انتظامیہ اور حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے، وزیراعلیٰ نے واقعہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔
مشیر اطلاعات کے پی کا کہنا تھا کہ ’سکیورٹی خدشات کے پیش نظر قافلے کو وقتی طور روک دیا گیا ہے تاہم کلیئرنس ملنے کے بعد قافلے کو روانہ کیا جائے گا۔‘
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ گزشتہ روز تربت کے علاقے میں ہونے والے بم دھماکے سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔ یہ دھماکہ گزشتہ روز تربت شہر سے 8 کلومیٹر دور نیو بہمن کے علاقے میں ہوا تھا۔
گزشتہ رات جاری ہونے والے ایک بیان میں حکومت بلوچستان کے ترجمان نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے چار افراد کی شناخت ہوگئی ہے جن میں نور خان، عبدالوہاب، اعجاز اور لیاقت علی شامل ہیں۔
بیان کے مطابق ان ہلاک ہونے والوں میں سے نور خان کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے دشت، عبدالوہاب کا تعلق گوادر، اعجاز کا تعلق ضلع آواران کے علاقے گیشگور اور لیاقت علی کا تعلق ضلع صحبت پور سے ہے۔
ترجمان کے مطابق دھماکے کے زخمیوں کو بہتر طبی امداد فراہم کی جاررہی ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال تربت کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر احمد بلوچ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ہسپتال میں دھماکے کے 11 زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی کے منتقل کیا گیا۔
تربت میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال وہ واحد ہسپتال ہے جہاں اس نوعیت کے واقعات میں زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی جبکہ ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے منتقل کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر احمد بلوچ نے بتایا کہ ہسپتال میں بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے کسی بھی شخص کی لاش نہیں لائی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں دھماکے کے صرف 11 زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے منتقل کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ ان زخمیوں میں ایس ایس پی سیریس کرائمز انویسٹیگیشن ونگ کوئٹہ ذوہیب محسن، ان کے بھائی، چار بچے اور ڈرائیور شامل تھے۔
ہسپتال کے ایم ایس کے مطابق ان زخمیوں کے جسموں میں دھماکے کے باعث معمولی زخم آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان افراد کو ہسپتال میں طبی امداد فراہم کی گئی۔
خیال رہے کہ بم دھماکوں میں زخمی ہونے والے سکیورٹی فورسز کے زخمی اہلکاروں کو طبی امداد کی فراہمی یا ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی لاشوں کو ان کے اپنے ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔
مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ خود کش حملہ تھا۔
بلوچستان اسمبلی کی کوئٹہ کی نشست پی بی-45 کے 15 پولنگ سٹیشنوں پر آج دوبارہ انتخاب ہو رہا ہے۔
عام انتخابات میں اس نشست سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار علی مدد جتک کامیاب قرار پائے تھے۔
تاہم کوئٹہ کے ایک الیکشن ٹریبونل نے حلقے کے 15 پولنگ سٹیشنوں پر دھاندلی کی وجہ سے علی مدد جتک کو نااہل قرار دیکر ان 15 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخاب کا حکم دیا تھا۔
علی مدد جتک کی کامیابی کو دوسرے نمبر پر آنے والے جمیعت علمائے اسلام کے امیدوار میر محمد عثمان پرکانی نے چیلنج کیا تھا۔
پی پی پی کے علی مدد جتک اور جے یو آئی کے عثمان پرکانی کے علاوہ دیگر جماعتوں کے امیدوار بھی اس حلقے سے میدان میں ہیں۔
دیگر جماعتوں کے امیدواروں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مجید خان اچکزئی اور پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نصراللہ بڑیچ شامل ہیں جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے جے یو آئی کے امیدوار کی حمایت کر رہی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کانگریس کو بتا گیا ہے کہ واشنگٹن اسرائیل کو آٹھ ارب ڈالرز کے ہتھیار فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
بی بی سی کو اس بات کی تصدیق امریکی انتظامیہ کے ایک فرد نے کی ہے۔
ہتھیاروں کی اس کھیپ کے لیے کانگریس کی ہاؤس اور سینیٹ کمیٹیوں سے منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔
امریکہ کی جانب سے یہ فیصلہ صدر جو بائیڈن کے عہدہ چھوڑنے سے محض 15 روز پہلے سامنے آیا ہے۔
واشنگٹن نے غزہ میں شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے اسرائیل کو ہتھیار فراہم نہ کرنے کی اپیلوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔
اس سے قبل گذشتہ سال اگست میں امریکہ نے اسرائیل کو 20 ارب ڈالرز کے جنگی جہاز اور دیگر عسکری ساز و سامان کے فروخت کی منظوری دی تھی۔
امریکی حکام کے مطابق نئی کھیپ میں فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، ہیل فرئر میزائل، آرٹلری گولے اور بم شامل ہیں۔
’اسرائیل کے دفاع‘ کے لیے بھیجا جانے والا امریکی تھاڈ میزائل ڈیفینس سسٹم کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے؟
سنیچر کے روز اسلحے کی فروخت سے واقف ایک ذریعہ نے بی بی سی کو بتایا: ’صدر نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنے شہریوں کا دفاع کرنے اور ایران اور اس کی پراکسی تنظیموں کی جارحیت کو روکنے کا حق حاصل ہے۔
امریکہ اسرائیل کو سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہے۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، 2019 اور 2023 کے درمیان اسرائیل نے 69 فیصد بڑے روایتی ہتھیار امریکہ سے درآمد کیے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع کرم کے علاقے بگن میں فائرنگ کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود سمیت پانچ افراد کے زخمی ہونے کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے ایک اجلاس میں علاقے میں موجود دہشتگردوں کی قیمت مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سنیچر کی رات خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ’امن معاہدے کے بعد علاقے کے لوگوں کو معاہدے کی خلاف ورزی‘ کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ بگن کے لوگوں کو سرکاری قافلے پر فائرنگ میں ملوث افراد کو قانون کے کے حوالے کرنے کا کہا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دہشت گردوں کی سروں کی قیمت مقرر کر کے ان کا قلع قمع کیا جائے گا۔‘
’کسی دہشتگرد سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور نہ ان کی معاونت کرنے والوں کو چھوڑا جائے گا۔‘
خیال رہے اس سے قبل مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے تصدیق کی تھی کہ ’ڈپٹی کمشنر کرم پر بگن کے علاقے میں نامعلوم شرپسندوں نے فائرنگ کی تھی۔‘
ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کو علیزئی ہسپتال سے ٹل کے سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ بیرسٹر سیف کے مطابق ڈپٹی کمشنر کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی ضلع کیچ کے علاقے تربت میں ایک بس پر حملے میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق حملے میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت نور خان، عبدالوہاب، اعجاز اور لیاقت علی کے ناموں سے ہوئی ہے اور ان کی لاشیں ضروری کارروائی کے بعد آبائی علاقوں کو روانہ کردی جائیں گی، جبکہ دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو بہترین طبی امداد فراہم کی جا رہی ہیں۔
اس سے قبل ضلع کیچ کے ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کے محمد کاظم کو بتایا تھا کہ اس حملے میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت چار افراد ہلاک جبکہ 25 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
پولیس اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا۔
دوسری جانب کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے صحافیوں کو بھیجے گئے ایک پیغام میں اس ’فدائی حملے‘ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے پاکستانی فوج کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا تاہم پاکستانی فوج کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
تربت پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکہ تربت شہر سے آٹھ کلومیٹر دور بہمن کے علاقے میں ہوا۔
حکومتِ بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے مزید کہا ہے کہ اس دھماکے کی زد میں ایس ایس پی سیریس کرائمز ونگ ذوہیب محسن کی گاڑی بھی آئی، جس میں وہ معمولی زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے تربت کے نواحی علاقے میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے ’قیمتی انسانی جانوں کی ضیاع‘ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ان کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والے درندے انسان کہلانے کے حقدار نہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہ@DCKurram
خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ کرم کے زخمی ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کو ٹل سی ایم ایچ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور روانہ کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ٹل سی ایم ایچ میں ضروری سرجری کے بعد ڈی سی کو پشاور منتقل کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایک زخمی محافظ کو بھی ہیلی کاپٹر میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
بیرسٹر سیف کے مطابق پشاور سی ایم ایچ میں مزید طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ مشیر اطلاعات کے مطابق ڈی سی کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ ان کے مطابق جاویداللہ محسود کو ’علیزئی ہسپتال اور سی ایم ایچ ٹل میں ضروری طبی امداد فراہم کی جا چکی ہے۔
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ کرم میں فائرنگ سے زخمی ہونے والے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کو علیزئی ہسپتال سے ٹل سی ایم ایچ منتقل کیا گیا ہے، جہاں انھیں طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کی سرجری جاری ہے تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ زخمی ڈپٹی کمشنر کے ساتھ سی ایم ٹل میں موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کمشنر کوہاٹ معتصم بااللہ اور ڈی آئی جی سمیت دیگر حکام بھی یہیں موجود ہیں اور حالات مکمل طور پر قابو میں ہیں۔ بیرسٹر سیف کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں نے حالات کنٹرول کیے ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ حملہ نامعلوم شرپسندوں کی مذموم سازش ہے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ اہلسنت اور اہل تشیع دونوں فریقین سے پرامن رہنے اور سازش کی زد میں نہ آنے کی اپیل ہے۔
ان کے مطابق قافلے کو وقتی طور پر روک دیا گیا ہے اور اس وقت کلیئرنس کا عمل جاری ہے، عنقریب قافلے کو دوبارہ روانہ کیا جائے گا۔
بلاول بھٹو، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور وزیر داخلہ محسن نقوی کی واقعے کی مذمت
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے کرم میں اس فائرنگ کے واقعے کی مذمت کی ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ’کُرم ایجنسی سمیت صوبہ بھر میں امن و امان کا قیام خیبرپختونخواہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور کرم ایجنسی میں امن و امان کے قیام کو ہر صورت یقینی بنایا جائے، اس پر کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا۔‘
وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے کہا کہ لوئر کرم میں سرکاری گاڑیوں پر فائرنگ کا واقعہ امن معاہدہ سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔
وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے کرم کے علاقہ بگن میں سرکاری گاڑیوں کے قافلے پر نامعلوم افراد کی طرف سے فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اعلیٰ حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے۔
انھوں نے فائرنگ کے نتیجے میں ڈی سی کرم اور دیگر زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’کرم امن معاہدے کے بعد اس طرح کا واقعہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ واقعہ کرم میں امن کے لیے حکومتی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی دانستہ اور مذموم لیکن ناکام کوشش ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’فائرنگ میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ واقعہ ان عناصر کی کارستانی ہے جو کرم میں امن کی بحالی نہیں چاہتے۔ انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کرم میں امن کی بحالی اور عوام کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ فریقین کے درمیان معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کرم کے لوگ پرامن ہیں اور وہ علاقے میں امن چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’کچھ شرپسند عناصر کرم میں امن کی بحالی نہیں چاہتے، ان عناصر کی کوشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت اور علاقے کے لوگ مل کر ایسے شرپسند عناصر کی مذموم کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’علاقے کے لوگوں ان عناصر کی نشاندہی اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے میں حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’اس افسوسناک واقعے سے کرم میں امن کی بحالی کے لیے حکومت اور علاقہ عمائدین کی کوششیں متاثر نہیں ہوں گی اور صوبائی حکومت علاقہ عمائدین کے تعاون سے علاقے میں مکمل امن کی بحالی تک کوششیں جاری رکھے گی۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
خیبر پختونخوا کے حکام کے مطابق ضلع کرم میں فائرنگ سے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں جنھیں طبی امداد کے لیے مقامی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ ’ڈپٹی کمشنر کرم پر بگن کے علاقے میں نامعلوم شرپسندوں نے فائرنگ کی۔‘
حکام کے مطابق ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود اور ان کے ہمراہ چار سکیورٹی اہلکار لوئر کرم میں حاجی علی کے علاقے میں موجود تھے جب ان پر حملہ کیا گیا۔
بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ ’ڈپٹی کمشنر کو علیزئی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے اور ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ڈپٹی کمشنر کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کرنے کے لیے بندوبست کیا جا رہا ہے۔‘
کئی ماہ کے تعطل کے بعد سنیچر کو کرم کے لیے ایک قافلہ روانہ ہونا تھا جس میں خوراکی اشیا سمیت دیگر سامان شامل ہے۔ تاہم بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ ’سکیورٹی خدشات کے پیش نظر فی الحال اس قافلے کو روکا گیا ہے۔‘
اس سے قبل ان کا کہنا تھا کہ 75 بڑی گاڑیوں پر مشتمل قافلہ سکیورٹی حصار میں کرم روانہ کیا جائے گا جہاں کشیدگی اور راستوں کی بندش کے باعث ادویات اور خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔
ادھر خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور کہا کہ ’حملے میں ڈپٹی کمشنر کا زخمی ہونا انتظامیہ کی نااہلی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’امدادی قافلے پر فائرنگ صوبائی حکومت کی نااہلی اور ناکامی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔‘
’کرم کے ڈپٹی کمشنر مذاکرات کے لیے جا رہے تھے‘
ضلع کرم سے ایک انتظامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ خان کو بتایا ہے کہ ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ اور ان کے ساتھ سکیورٹی سٹاف بگن میں مذاکرات کے لیے جا رہے تھے کہ وہاں ایک چوک پر نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کر دی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مقامی انتظامی افسران گذشتہ روز بھی بگن میں مظاہرین سے مذاکرات کے لیے گئے تھے۔
زخمیوں میں سے چار افراد بشمول ڈپٹی کمشنر، ایف سی کے دو اہلکار اور ایک پولیس کانسٹیبل کو علیزئی ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ لوئر کرم کے علاقے مندوری کے بنیادی صحت مرکز کے عملے کا کہنا ہے کہ ایک مقامی شخص کو زخمی حالت میں لایا گیا تھا۔
کرم پولیس کے ایک اہلکار نے صحافی محمد زبیر کو بتایا کہ مال بردار گاڑیوں کے قافلے کی روانگی سے قبل ڈپٹی کمشنر کرم سمیت انتظامیہ کے اہلکار ٹل چھپری سے روانہ ہوئے تھے مگر ان پر لوئر کرم میں بگن کی حدود میں فائرنگ ہوئی۔
بگن کے مقامی افراد کے مطابق یہ فائرنگ قریب آدھے گھنٹے تک جاری رہی تھی۔
،تصویر کا ذریعہSurrey Police
برطانوی پولیس جیل میں قید پاکستانی نژاد عرفان شریف پر حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ عرفان شریف اپنی 10 سالہ بیٹی سارہ شریف کے قتل پر عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
اخبار دی سن کی رپورٹ کے مطابق نئے سال کے پہلے روز عرفان شریف پر بیلمارش جیل میں ساتھی قیدیوں نے حملہ کیا۔
اطلاعات کے مطابق عرفان شریف کے چہرے پر زخم آئے اور انھیں جیل میں ہی طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ عرفان شریف پر مبینہ طور پر ایک ٹونا کین سے حملہ کیا گیا تھا۔
43 سالہ عرفان اور سارہ کی سوتیلی ماں کو گذشتہ ماہ قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پریزن سروس کے ترجمان نے کہا ہے کہ پولیس یکم جنوری کے حملے کی تحقیقات کی رہی ہے اور ’تحقیقات کے دوران تبصرہ کرنا نامناسب ہوگا۔‘
بیلمارش جنوب مشرقی لندن میں ایک کیٹیگری اے کی جیل ہے جہاں برطانیہ کے سب سے خطرناک قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔
10 سالہ سارہ شریف کا قتل اور پاکستان فرار کے بعد برطانوی واپسی
برطانیہ کی ایک عدالت نے 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر ان کے پاکستانی نژاد والد اور سوتیلی والدہ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
سارہ کے والد عرفان شریف کو سزا سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ انھیں کم از کم 40 برس جیل میں گزارنا ہوں گے جبکہ ان کی اہلیہ بینش بتول کو 33 برس جیل میں گزارنا ہوں گے۔
سارہ کے چچا اور عرفان شریف کے بھائی فیصل ملک کو اس کیس میں قتل کے الزام میں تو نہیں تاہم ایک بچے کی موت کا سبب بننے یا ایسا ہونے دینے پر مجرم قرار دیا گیا اور انھیں اس کے لیے 16 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
یاد رہے کہ سارہ شریف کی زخموں سے چُور لاش گذشتہ سال 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر سے ملی تھی۔ استغاثہ کے مطابق سارہ پر ’شدید اور مسلسل تشدد‘ کیا گیا تھا۔
سارہ شریف کی لاش ملنے سے ایک ہی دن قبل ان کے اہلخانہ پاکستان روانہ ہو گئے تھے۔
اس مقدمے کی سماعت کے دوران چھ دن تک سارہ کے والد عرفان شریف نے تمام الزامات سے انکار کیا تھا تاہم مقدمے کی کارروائی کے ساتویں روز انھوں نے ڈرامائی طور پر اعتراف جرم کر لیا تھا۔
عدالت کے روبرو سارہ شریف کے والد نے اعتراف کیا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو کئی ہفتے تک متعدد بار پرزور طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’سارہ میری وجہ سے مری۔‘
سارہ شریف 11 جنوری 2013 کو سلوو میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ان کے والد عرفان شریف پاکستان سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ آئے اور 2009 میں ووکنگ میں انھوں نے سارہ کی والدہ اولگا ڈومن سے شادی کی تھی۔
سارا کے قتل کا واقعہ سامنے آنے سے قبل عرفان شریف کے ساتھ سارہ کی سوتیلی ماں بینیش بتول، ان کے دیگر پانچ بچے اور سارہ کے چچا فیصل ملک ساتھ رہا کرتے تھے۔
سارہ شریف کی ہلاکت کی تحقیقات میں پولیس کو پوچھ گچھ کے لیے مطلوب ان کے والد، سوتیلی والدہ اور چچا کو پاکستان سے برطانیہ پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
سرے پولیس کے مطابق یہ تینوں افراد سارہ کی ہلاکت سے قبل ووکنگ میں رہائش پذیر تھے تاہم پولیس کو سارہ کی میت ملنے سے ایک روز قبل یہ پاکستان آ گئے تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف نیو یارک میں ہش منی کیس میں جج کا کہنا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر کو 10 جنوری کو سزا سنائی جائے گی۔ خیال رہے کہ اس کے 10 روز بعد ٹرمپ امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
نیو یارک کے جج یوان مرشان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کو قید کی سزا، پروبیشن یا جرمانے کی سزا نہیں سنائیں گے بلکہ انھیں ’غیر مشروط طور پر رہا کر دیں گے۔‘
انھوں نے اپنے حکمانے میں لکھا کہ نو منتخب صدر ذاتی یا ورچوئل حیثیت میں اس سماعت کا حصہ بن سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے صدارتی الیکشن میں فتح کے ذریعے اپنے خلاف اس کیس کو ختم کروانے کی کوشش کی تھی۔ کیس کو سزا کے مرحلے تک لے جانے پر ان کے وکلا نے جج کے فیصلے پر تنقید کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ اسے فوراً ختم کر دیا جائے۔
اس کیس میں سابقہ پورن سٹار سٹورمی ڈینیئلز کا دعویٰ تھا کہ 2016 میں جب ٹرمپ صدارتی امیدوار تھے تو انھوں نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر اس شرط پر ادا کیے کہ وہ ٹرمپ سے جنسی تعلق کو ظاہر نہیں کریں گی۔
نیو یارک کی عدالت میں اس دیوانی مقدمے میں جیوری نے تمام 34 الزامات میں ٹرمپ کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔
جج نے ٹرمپ کو 26 نومبر کو سزا سنانی تھی مگر اسے موخر کیا گیا۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ ٹرمپ کو پہلی بار اس نوعیت کے جرائم میں قصوروار پایا گیا اور وہ معمر ہیں لہذا اس بات کے کم امکان ہیں کہ انھیں جیل جانا پڑے۔
ٹرمپ کے وکیل اس کیس میں اپیل دائر کر سکتے ہیں اور وہ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ جیل جانے سے ان کی سرکاری خدمات میں خلل آئے گا، لہذا وہ اپیل پر کارروائی تک آزاد رہیں گے۔ اپیل کا عمل کئی برسوں تک چل سکتا ہے۔
جمعے کو ٹرمپ کے ترجمان نے جج مرشان پر تنقید کی اور اسے انتقامی کارروائی قرار دیا۔
خیال رہے کہ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ کیس ان کے صدارتی دور میں خلل کا باعث بن سکتا ہے۔ اس پر جج مرشان نے کہا کہ وہ اس بنیاد پر جیوری کے فیصلے کو تبدیل نہیں کر سکتے۔
جج کے پاس یہ آپشنز تھیں کہ وہ 78 سالہ ٹرمپ کو سزا سنائے جانے کی تاریخ کو 2029 تک موخر کر دیں، جب ٹرمپ کا دوسرا دورِ اقتدار ختم ہوگا یا انھیں ایسی سزا سنائیں جس میں قید نہ ہو۔
،تصویر کا ذریعہAFP
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے مذاکرات کے عمل تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس جائز مینڈیٹ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ جس حکومت کے پاس جائز مینڈیٹ ہی نہیں ہے اس سے کس بات کے مذاکرات ہو رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ’ہم مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعا کریں گے مگر جہاں یہ معاملہ ہو وہاں دعا قبول نہیں ہوتی۔‘
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’شہباز شریف ہمارے دوست ہیں مگر وہ تو پرویز مشرف کے وزیراعظم بننے کے لیے بھی تیار تھے۔‘
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ نوازشریف نے ہمت کرکے شہباز شریف کو روکا تھا مگر اب نوازشریف بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل عمران خان نے محمود خان اچکزئی کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ ان کی طرف سے حکومت سے مذاکرات کریں۔ تاہم اب پی ٹی آئی براہ راست حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں سے مذاکرات کر رہی ہے۔ ان مذاکرات کے دو دور بھی ہو چکے ہیں اور اب تیسرے دور میں پی ٹی آئی کی طرف سے تحریری مطالبات پیش کرنے کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
دو جنوری کو ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تھا تا کہ تحریری صورت میں بھی مذاکراتی کمیٹی کو مطالبات سے آگاہ کیا جا سکے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعے کو اسلام آباد میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے 26 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج پر کڑی تنقید کی ہے جبکہ وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وزیراعظم کا اس فورم پر پی ٹی آئی کے خلاف تنقید غیرمناسب تھی۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’پچھلے دو چار ہفتوں میں اسلام آباد پر جو یلغار ہوئی اس کے نتیجے میں سوشل میڈیا نے جھوٹ اور حقائق کو مسخ کرنے کا جو طوفان اٹھایا حالیہ وقتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی، اگر اس طوفان کو نہ روکا تو ہماری تمام کاوشیں دریا بُرد ہوجائیں گی۔‘
انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے صوبوں اور وفاق میں کوششیں کی جا رہی ہیں، اسلام آباد پر چڑھائی کے دوران شہید ہونے والے رینجرز اہلکاروں کے خلاف کس طرح جھوٹی خبریں گھڑی گئیں، یہ وہ معاملات ہیں جن پر آج ہمیں سنجیدگی سے گفتگو کرنی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یاد رکھیں فوج اور پولیس قربانیاں دینے والے سپاہی بھی ماؤں کے سپوت ہیں، جو اپنے خون کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور اپنے کام سے مخلص ہیں، ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور جو لوگ ان کوششوں کو رائیگاں کرنا چاہتے ہیں وہ بہت بڑی بھول میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ڈیجیٹل محاذ پر پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا جا رہا ہے۔ پاکستان سے باہر جو ایجنٹ بیٹھے ہیں، وہ دوست نما دشمن ہیں اور جس طرح وہ سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں وہ بذات خود بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایجنٹ جھوٹ کے ذریعے حقائق کو مسخ کر رہے ہیں، اس جھوٹ اور حقائق مسخ کرنے کی بنیاد پر پاکستان خلاف بیانیہ بنایا جا رہا ہے، سوالات اٹھوائے جارہے ہیں۔‘
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی اس طرح کی بات چیت کرنا نامناسب ہے کہ احتجاج میں گولی نہیں چلی، اس طرح کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ 26 نومبر کی بات وزیراعظم نے خود کی، میں نےکہا تھا کہ 58 زخمی اور 13 شہید ہیں، 45 تاحال لاپتہ ہیں لیکن وزیراعظم کی اس طرح کی بات چیت کرنا نامناسب ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج کے دوران گولی نہیں چلی۔
انھوں نے کہا کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اس معاملے پر ایک مذاکراتی کمیٹی غور کر رہی ہے اور یہ باتیں اسی فورم پر زیر بحث آئیں گی۔
وزیراعلی نے کہا کہ وہ خود اس معاملے پر بات کرنا چاہتے تھے مگر وزیراعظم نے پہل کر کے انھیں بھی یہ موقع دے دیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جمعے کو اسلام آباد میں نیشنل ایکشن کمیٹی کی ایپکس کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے افغانستان سے ہونے والے حملے پر بات کی ہے اور کہا ہے کہ اس کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے، چند روز قبل سرحد پار سے کیے گئے حملے کا منھ توڑ جواب دیا گیا ہے۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ ’دشمن کے گھس بیٹھیے خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں بیٹھے ہیں، ہمیں بخوبی علم ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کے خلاف بُنی جانے والی سازشوں میں کون کون سے ممالک سپورٹ کر رہے ہیں۔‘
پاکستان کی افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ’عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلیجنس پر مبنی کارروائی‘ کی تصدیق
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا ایجنڈا اسی صورت شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے کہ ہم سب مل کر چاروں صوبوں، وفاق، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں امن و امان قائم کریں، اس کے ساتھ فتنۃ الخوارج کا مکمل خاتمہ کرنے کا وقت آچکا ہے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’اگر صوبے وفاق اور دفاعی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کی بہتری اور خوشحالی کے لیے مربوط منصوبہ بندی کریں تو بطور وزیراعظم میری کوئی پسند و ناپسند نہیں ہے، قومی مفاد پہلی ترجیح ہے، اور مجھے سو فیصد یقین ہے کہ دیگر شرکا کی بھی یہی سوچ ہے، اگر ہم اس سوچ کو عملی جامہ پہنائیں تو پھر کوئی مشکل، مشکل نہیں رہے گی۔‘
ایپکس کمیٹی کو افغانستان سے مذاکرات کے لیے قبائلی جرگہ تشکیل دینے کی تجویز دی ہے: وزیراعلی علی امین گنڈاپور
،تصویر کا ذریعہScreengrab
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ انھوں نے ایپکس کمیٹی کو افغانستان پر جرگے کی تجویز دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی سطح پر تو بات چیت ہو رہی ہے مگر اس حوالے سے ہم بھی کردار ادا کر سکتے ہیں اور ہم نے کہا کہ ہم قبائل کے ذریعے جرگہ بنا کر افغانستان سے بات کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ’ہم نے کہا ہے کہ اس حوالے سے کوشش کی جا سکتی ہے اور ہم بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ اگرچہ ایپکس کمیٹی میں انھیں بتایا گیا ہے کہ افغانستان سے ڈائیلاگ کا عمل جاری ہے مگر اس کے باوجود وہاں سے کارروائیاں ہو رہی ہیں۔
علی امین گنڈاپور کے مطابق اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس تھا، سکیورٹی ادارے مل کر کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان ترجیح ہے اس کے لیے مل کر بات کریں گے اور مل کر ہی دہشتگردی کے خاتمے کا فیصلہ ہوا ہے۔‘
چند روز قبل پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ’پاکستانی شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کی بنیاد پر پاکستان افغانستان سرحد سے متصل علاقوں‘ میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیا گیا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل افغانستان کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے افغان صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں 'فضائی حدود' کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے تصدیق کی ہے کہ ’پاکستان اپنے عوام کے لیے متحد ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں آپریشن کیا ہے۔‘
ممتاز زہرہ بلوچ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’انٹیلیجنس پر مبنی آپریشن پاکستان کی طرف سے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کیا گیا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ یہ کارروائی ’پاکستانی شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کی بنیاد‘ پر کی گئی۔