توشہ خانہ کے دوسرے کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد
توشہ خانہ کے دوسرے کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم کر دی گئی ہے۔ سپیشل کورٹ سینٹرل اسلام آباد کے جج شاہ رخ ارجمند نے توشہ خانہ کے دوسرے کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی ہے۔
خلاصہ
- توشہ خانہ کے دوسرے کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم کر دی گئی ہے۔
- سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے سویلینز کے مقدمے ملٹری کورٹس میں چلانے کے حوالے سے آئینی بینچ کے سامنے مقدمے کی سماعت کے دوران بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟
- طالبان حکومت کے پناہ گزینوں کے امور کے وزیر خلیل الرحمن حقانی کابل میں وزارت کی عمارت میں ہونے والے ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
- پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ اب نو مئی کی دھول بیٹھ جانی چاہیے، ایوان ہمیں انصاف دے اور ہمیں دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
لائیو کوریج
بریکنگ, توشہ خانہ کے دوسرے کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد, شہزاد ملک، بی بی سی اردو
،تصویر کا ذریعہGetty Images
توشہ خانہ کے دوسرے کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم کر دی گئی ہے۔
سپیشل کورٹ سینٹرل ون اسلام آباد کے جج شاہ رخ ارجمند نے توشہ خانہ کے دوسرے کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی ہے۔
توشہ خانہ ٹو کیس کی ابتدائی تحقیقات نیب نے کی تھی اور نیب ترامیم کی روشنی میں یہ کیس ایف آئی اے کو منتقل ہوا تھا۔ ستمبر 2024 میں ایف آئی اے نے تحقیقات کے بعد چالان عدالت میں جمع کروایا تھا۔
خیال رہے کہ توشہ خانہ کے پہلے کیس میں عدالت عمران خان اور بشریٰ بی بی کو بری کر چکی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
عمران خان اور بشریٰ بی بی پر کیا الزامات ہیں؟
عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزامات یہ ہیں کہ انھوں نے 2021 میں دورۂ سعودی عرب کے دوران حاصل شدہ بلگاری جیولری سیٹ توشہ خانہ میں جمع نہیں کروایا۔
عدالت میں جمع کروائی گئی تفصیلات کے مطابق یہ بلگاری جیولری سیٹ وزیر اعظم کی اہلیہ کو ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے دیا گیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق بلگاری سیٹ میں ایک عدد بریسلٹ، انگوٹھی، جھمکے اور نیکلس بھی شامل تھا۔ سیٹ میں شامل انگوٹھی میں گلابی رنگ کا ہیرا جڑا تھا۔ بریسلٹ میں بھی گلابی ہیرے اور دیگر جواہرات جڑے تھے اور نیکلس میں بھی بیش قیمت موتی اور ہیرے لگے ہوئے تھے۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے پرائیویٹ فرم سے ساڑھے سات کروڑ سے زائد مالیت کے جیولری سیٹ کی قیمت صرف 52 لاکھ روپے لگوائی اور 29 لاکھ روپے ادا کیے۔
ان پر یہ بھی الزام ہے انھوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پرائیویٹ فرم سے جیولری سیٹ کی قیمت 58 لاکھ روپے لگوائی اور 29 لاکھ روپے ادا کیے۔
عدالت میں جمع کروائے گئے دفتر خارجہ اور سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے سے حاصل شدہ ریکارڈ کے مطابق بلگاری سیٹ کی اصل قیمت سات کروڑ 15 لاکھ روپے سے زائد ہے۔
آگے کیا ہو گا؟
ہمارے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق فردِ جرم عائد کیے جانے کے بعد عدالت میں دونوں فریقین کی جانب سے گواہان کی فہرست پیش کی جاتی ہے۔
اس کے بعد وکلا کی جانب سے مخالف فریق کے گواہان سے جرح کی جاتی ہے جسے کراس ایگزامینیشن کہا جاتا ہے۔
اس مرحلے کے بعد ملزمان کا 342 کا بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے جس میں ملزمان سے پوچھا جاتا ہے کہ آیا وہ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
اس حوالے سے فریقین کے وکلا حتمی دلائل ریکارڈ کرتے ہیں جس کے بعد عدالت کی جانب سے فیصلہ سنایا جاتا ہے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے مقدمات میں تاخیری حربے بھی آزمائے جاتے ہیں، تاہم عموماً فردِ جرم ہونے کے بعد جس تیزی سے سماعتیں ہو رہی ہیں اس بات کا امکان ہے کہ اس مقدمے میں فیصلہ اگلے ایک ماہ میں سنا دیا جائے۔
آئینی بینچ میں سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں چلانے کا کیس: ’جو شخص فوج میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کا پابند کیسے ہو سکتا ہے؟‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے سویلینز کے مقدمے ملٹری کورٹس میں چلانے کے حوالے سے آئینی بینچ کے سامنے مقدمے کی سماعت کے دوران بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟
سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جس میں وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
خیال رہے کہ گذشتہ برس اکتوبر میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائلز سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا جس کے خلاف پنجاب کی صوبائی حکومت اور وفاق کی جانب سے بھی اپیل دائر کی گئی تھی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جب کہ دوسرے حصے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے۔ آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟ اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہو گا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ایک شخص آرمی میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہو گا، کوئی محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہو گا، کوئی شخص کسی محکمہ میں نہیں تو آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہو گا؟ کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟‘
خواجہ حارث نے کہا کہ ’مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں۔‘ اس پر جسٹس جمال نے کہا کہ ’اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل 8 کا سیکشن 1 غیر مؤثر نہیں کر دیا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔‘
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر مملکت کا ہے، اگر صدر ہاؤس پر حملہ ہو تو ملزم کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہو گا مگر آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹس میں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’ملٹری کورٹس کے زیر حراست افراد کی ایف آئی آر کی نقول نہیں دی گئیں، کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے؟ کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا ’جی ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا ’اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا؟‘
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس میں کہا کہ میں نے تاریخ پڑھی ہے، یہ تصور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آیا تھا کہ آرمڈ فورسز سویلینز سے علیحدہ ہوں گی، آرمڈ فورسز کے لیے قوانین بھی علیحدہ ہوں گے، جو قوانین آرمڈ فورسز کی حد تک نہیں ہیں وہ ڈسچارج آف ڈیوٹیز نہیں ہوں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے کیس کی مزید کل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
بدنام قید خانوں کو بند کیا جائے گا اور تشدد میں ملوث افراد کا تعاقب کیا جائے گا: الجولانی
شام میں باغی گروہ کا کہنا ہے کہ وہ بشار الاسد کے دور میں چلائے جانے والے بدنام زمانہ قید خانوں کو بند کر دیں گے اور ان افراد کی تلاش کریں گے جو قیدیوں پر تشدد اور ان کی ہلاکتوں کے ذمہ دار تھے۔
روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے کہا ہے کہ وہ سابقہ حکومت کے دور میں بنائی گئی سکیورٹی فورسز کو بھی تحلیل کر دیں گے۔
اپنے ایک اور بیان میں الجولانی نے کہا ہے کہ اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ان تمام افراد کو معافی دی جائے جو قیدیوں پر تشدد اور ان کی ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔ ’ہم شام میں اُن کا تعاقب کریں گے اور دیگر ممالک سے بھی درخواست کریں کہ ایسے افراد کو شام کے حوالے کیا جائے تاکہ انصاف ہو سکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر ممکنہ کیمیائی ہتھیاروں کی سائٹس کی حفاظت کے معاملے پر بھی کام کر رہے ہیں۔
شام میں باغیوں نے بشارالاسد کے والد کے مقبرے کو آگ لگا دی
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنباغیوں نے معزول صدر بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کے مقبرے کو تباہ کر دیا ہے شام میں باغیوں نے معزول صدر بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کے مقبرے کو تباہ کر دیا ہے۔
بی بی سی کی جانب سے جن ویڈیوز کی تصدیق کی جاسکی ہے ان میں مسلح افراد کو حافظ الاسد کے آبائی علاقے قرداحہ میں واقع ان کے مقبرے میں نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ مقبرے میں آگ لگی ہوئی ہے۔
رواں ماہ مسلح گروہ ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں باغیوں نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ کر شام پر اسد خاندان کی 54 سالہ حکمرانی کا خاتمہ کر دیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنباغییوں نے سابق شامی صدر حافظ الاسد کے مقبرے کو آگ لگادی باغیوں کی جانب سے ملک کا کنٹرول حاصل کیے جانے کے بعد سے ملک بھر میں معزول شامی صدر اور ان کے والد کے پوسٹرز اور مجسمے بھی ہٹائے جا رہے ہیں۔
حافظ الاسد نے سنہ 1971 سے سنہ 2000 تک شام پر حکومت کی۔ ان کی موت کے بعد ان کے بیٹے بشارالاسد کو ملک کا صدر بنا دیا گیا تھا۔
حافظ الاسد علوی شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے جو کہ شام کی کل آبادی کا 10 فیصد ہیں۔ علویوں کی سب سے زیادہ تعداد بحیرہ روم کے کنارے آباد شام کے صوبے لتاکیا میں موجود ہے۔
اسد خاندان کے پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط دورِ حکمرانی میں انھیں علویوں کی حمایت حاصل رہی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنباغیوں کی جانب سے ملک کا کنٹرول حاصل کیے جانے کے بعد سے ملک بھر میں معزول شامی صدر اور ان کے والد کے پوسٹرز اور مجسمے بھی ہٹائے جا رہے ہیں۔ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اب انھیں خدشہ ہے کہ باغی انھیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سوموار کے روز باغیوں کے ایک وفد نے قرداحہ میں علاقے کے عمائدین سے ملاقات کی جنھوں نے وفد کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق باغیوں کے وفد نے ایک دستاویز پر دستخط کیے جس میں شام کی مذہبی اور ثقافتی تنوع کو برقرار رکھنے کا اعادہ کیا گیا ہے۔
دمشق پر کنٹرول کے بعد سے ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجونی نے وعدہ کیا ہے کہ ملک میں موجود تمام مذہبی گروہوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔
طالبان حکومت میں وزیر اور سراج الدین حقانی کے چچا خلیل الرحمان حقانی کابل دھماکے میں ہلاک
،تصویر کا ذریعہGetty Images
طالبان حکومت کے پناہ گزینوں کے امور کے وزیر خلیل الرحمن حقانی کابل میں وزارت کی عمارت میں ہونے والے ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
طالبان حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بی بی سی پشتو کو تصدیق کی ہے کہ خلیل الرحمان حقانی کابل میں ایک ’خودکش دھماکے‘ میں ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے تاحال سرکاری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
خلیل الرحمان حقانی طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے چچا اور افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال دین حقانی کے بھائی تھے۔ انھیں نیٹ ورک کی نمایاں شخصیات میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔
اطلاعات کے مطابق کابل میں وزارت امیگریشن کے اندر ہونے والے ’خودکش حملے‘ کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
طالبان حکومت کی وزارت اطلاعات و ثقافت کے ترجمان نے خلیل الرحمٰن حقانی کی موت کی تصدیق کے بعد میڈیا سے کہا کہ وہ ان کی موت کے بارے میں لفظ ’شہادت‘ کے علاوہ دیگر الفاظ استعمال کرنے سے سختی سے گریز کریں۔
تاحال کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
یہ طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے گروپ کے کسی بھی سینیئر رہنما پر ہونے والا تیسرا حملہ ہے۔
مارچ 2023 میں طالبان حکومت میں بلخ صوبے کے گورنر محمد داؤد وفا مزمل پر حملہ کیا گیا تھا جس میں محمد داؤد سمیت تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری نام نہاد عسکریت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے قبول کی تھی۔
اس سے قبل اکتوبر 2022 میں کابل میں طالبان کی وزارتِ داخلہ میں ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں چار افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
خلیل الرحمان حقانی کون تھے؟
خلیل الرحمٰن حقانی سنہ 1966 میں افغانستان کے صوبہ پکتیا کے ضلع گردہِ روا کے گاؤں کانڈو میں پیدا ہوئے۔ وہ افغانستان کے طاقتور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے چچا اور طالبان کی حقانی شاخ کی نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے۔
وہ حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کے بھائی تھے جو 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کے اعلیٰ کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ خلیل الرحمان نے خود بھی سویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔
طالبان حکومت کے قیام کے آغاز سے ہی انھیں پناہ گزینوں اور ملک واپس آنے والوں کی سہولت کے لیے بنائی گئی وزارت میں وزیر مقرر کیا گیا تھا اور طالبان کے دیگر عہدیداروں کے برعکس جو مختصر مدت کے بعد دوسرے عہدوں پر منتقل ہو جاتے ہیں، وہ اپنی موت تک اس عہدے پر فائز رہے۔
وزارتِ پناہ گزین میں وہ بین الاقوامی امداد کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے تھے، خاص طور پر گذشتہ دو سالوں میں جب پاکستان اور ایران نے افغان مہاجرین اور تارکین وطن کی جبری ملک بدری کے عمل کا اعلان کیا اور اس عمل کے دوران تقریباً 15 لاکھ افراد کو افغانستان واپس بھیجا گیا۔
ماضی میں امریکہ کی جانب سے ان کے بارے میں معلومات دینے پر 50 لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔ امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کو ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
سنہ 2001 میں ایک انٹرویو میں حقانی نے بتایا تھا کہ امریکہ نے ان کے گھر پر بمباری کی تھی جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن وہ کابل سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
ان کے مطابق ’ہمیں ایک سال تک کمرے میں بند کیے رکھا، ہمارے ہاتھ، پیر باندھے گئے تھے اور آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی اور میرے پیر بیڑیوں کی وجہ سے زخمی ہو گئے تھے۔‘
امریکی حکومت کی ’انصاف کے لیے انعام‘ کی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ خلیل الرحمٰن حقانی ’2010 سے افغانستان کے صوبہ لوگر میں طالبان کے ارکان کی مدد کر رہے ہیں۔‘
سنہ 2009 میں خلیل ان افراد میں شامل تھے جنھیں گرفتار کیا گیا تھا۔ فروری 2011 میں امریکی محکمہ خزانہ نے انھیں ’بین الاقوامی دہشت گردوں‘ کی فہرست میں شامل کیا اور اسے امریکی پابندیوں کا نشانہ بنایا اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مالی تعلقات کو ’جرم‘ قرار دیا۔
ہمیں دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کیا جائے، ایوان ہمیں انصاف دے: چیئرمین تحریک انصاف, شہزاد ملک، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ اب نو مئی کی دھول بیٹھ جانی چاہیے، ایوان ہمیں انصاف دے اور ہمیں دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی نے ڈپٹی سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ ایوان صرف سوگ نہ منائے، اپنے آپ کو منوائے، عمران خان نے مزاکرات کے لیے کمیٹی بنائی ہے مگر یہ سمجھتے ہیں کمیٹی بنانا کمزوری کی علامت ہے، مگر یہ کمزوری نہیں، ہم چاہتے ہیں ایوان پر کوئی تیسری قوت قابض نہ ہو۔‘
یاد رہے کہ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں 26 نومبر کے احتجاج کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فائرنگ سے 12 کارکن ہلاک ہوئے تھے تاہم پاکستان کی حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں احتجاج کے دوران فسادات کی تحقیقات کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دے رکھی ہے اور دھرنوں میں قانون پامال کرنے والوں کو سخت سزا دینے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے کمیٹی اس لیے بنائی ہے کہ اسے کمزوری نہ سمجھا جائے بلکہ کمیٹی کا مقصد یہ ہے کہ جتنی غلطیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ کرلیا جائے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ ’تحریک انصاف کے اسلام آباد آنے والے کارکن پرامن تھے، اس بات کی سختی سے تردید کرتا ہوں کہ ان میں سے کسی کے پاس اسلحہ موجود تھا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اگر گولی چلی ہے تو زمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے، 2014 میں بھی گولی چلی مگر کچھ پتا نہیں چلا، 2024 میں گولی چلی مگر اسے دبایا گیا، کتنے بڑے لوگ ہم نے گنوا دیے، کمیشن بنتے رہے، مگر کوئی رپورٹ نہیں آئی۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے ظلم کا جواب ظلم سے نہیں دیا، خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت ہے مگر ساری عوام تو تحریک انصاف کی نہیں ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے لوگ موجود ہیں، کیا وہاں کی حکومت ان لوگوں پر گولیاں چلائے؟ ہم نے تو ایسا نہیں کیا، ہم دو الیکشن ہارے مگر آپ کی طرح دھاندلی نہیں کی۔
بیرسٹر گوہر نے خواجہ آصف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پختونوں میں ایک گولی چلتی ہے تو نسلیں اسے یاد رکھتی ہیں، آفتاب شیرپاؤ کے دور میں نفاذ شریعت کی تحریک میں گولی چلی، آٹھ افراد مرے پھر سب کے گھروں میں جاکر معافی مانگی گئی، سب نے کہا ہم نے معاف کیا۔
انھوں نے کہا کہ یہ بدلہ لینے کا وقت نہیں تھا لیکن آپ بھی پرچہ درج کرانے کا تو کہہ دیتے، کیس کی تحقیقات کا تو کہتے۔
انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 45 سال بعد سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملا، اب بھی وقت ہے کہ ہمارے لوگوں کو انصاف ملنا چاہیے، یہ انصاف ہم اس ایوان کے ذریعے لینا چاہتے ہیں، ہمیں مجبور نہ کریں کہ ہم دوبارہ سڑکوں پر آئیں، یہ ایوان ہمیں انصاف دے۔
بریکنگ, شام کے واقعات کی منصوبہ بندی امریکہ اور اسرائیل کے کمانڈ روم میں ہوئی: آیت اللہ خامنہ ای
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا ہے کہ شام کے واقعات کے اصل ذمہ دار اور سازش کرنے والے امریکہ اور اسرائیل تھے۔
ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ’شواہد اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے کہ شام کے واقعات کے اصل مرتکب اور سازش کرنے والے امریکہ اور اسرائیل تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’شام کی ایک ہمسایہ حکومت نے واضح کردار ادا کیا ہے اور اب بھی ادا کر رہی ہے لیکن اصل کمانڈ سینٹر امریکہ اور صیہونی حکومت میں ہے۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ رہبرِ اعلیٰ یہاں بشارالاسد کے خلاف باغیوں کی حمایت میں ترکی کے کردار کا حوالہ دے رہے ہیں۔
شامی باغیوں کا ’تیل سے مالا مال شہر‘ دیرالزور پر قبضہ
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شامی باغی فورسز نے شام کے شہر دیرالزور پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس پر اس سے قبل امریکہ نواز کرد فورسز کا کنٹرول تھا۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک روز پہلے ہی ہیئت تحریر الشام کی جانب سے نیا عبوری وزیرِ اعظم محمد البشیر تعینات کیا تھا۔
منگل کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے شامی باغی فورسز کو خبردار کیا تھا کہ وہ ایران کو ملک میں دوبارہ جڑیں مضبوط کرنے کا موقع نہ دے۔
ادھر اسرائیل فوج کا کہنا ہے کہ اس نے اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے شام میں سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں۔
جیسے ہم پہلے رپورٹ کر چکے ہیں کہ منگل کو اسرائیل نے شامی بحری بیڑے کو بھی نشانہ بنایا جو اس کے مطابق ملک کے عسکری اثاثوں کو کمزور کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق شامی باغیوں کی جانب سے ملک کے تیل سے مالا مال مشرقی شہر دیر الزور پر قبضہ ملکی وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
ہیئت تحریر الشام کے ایک سینیئر کمانڈر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے شہر اور اس کے فوجی ایئرپورٹ کو فتح کروا لیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہماری فورسز نے دیرالزور شہر پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔‘
خیال رہے کہ اس سے قبل جب صدر بشار الاسد کی جانب سے اپنی فوجوں کو شہر سے ہٹایا گیا تھا تو ان کی جگہ کرد فورسز نے سنبھال لی تھی۔
مارشل لا کی ناکام کوشش: جنوبی کوریا کی پولیس کا ملک کے صدر کے دفتر پر چھاپہ، مارشل لا منصوبے کے مرکزی کردار اور سابق وزیر دفاع کی خودکشی کی کوشش
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جنوبی کوریا کے مقامی میڈیا کے مطابق پولیس کے ایک خصوصی تحقیقاتی یونٹ نے ملک کے صدر یون سوک یول کے دفتر پر ملک میں مارشل لا نافذ کرنے سے قبل رات گئے ہونے والی کابینہ کی میٹنگ کا ریکارڈ قبضے میں لینے کے لیے چھاپہ مارا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے کے دوران جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول نے پورے ملک کو اُس وقت حیران کر دیا تھا جب منگل کی رات اچانک ہی انھوں نے ملک میں مارشل لا لگانے کا اعلان کیا۔ صدر کی جانب سے یہ انتہائی اقدام بظاہر ریاست مخالف قوتوں اور شمالی کوریا کے خطرے کے پیش نظر اٹھایا گیا تاہم جلد ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ اس کی اصل وجہ بیرونی خطرات نہیں بلکہ اُن کو درپیش اپنی سیاسی مشکلات تھیں۔
اس اعلان کے بعد ہزاروں لوگ پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کے لیے جمع ہو گئے اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی مارشل لا ختم کروانے کے لیے ایمرجنسی ووٹ دینے پارلیمان پہنچے اور یوں چند ہی گھنٹوں کے اندر شکست خوردہ صدر نے پارلیمنٹ کے ووٹ کو تسلیم کرتے ہوئے مارشل لا ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
اس معاملے پر اب جنوبی کوریا میں تفتیش جاری ہے اور سپیشل یونٹ کی جانب سے صدر کے دفتر پر ان کی گرفتاری کے لیے چھاپہ بھی اسی سلسلے میں مارا گیا ہے۔
صدارتی دفتر کے علاوہ خصوصی تحقیقاتی یونٹ نے نیشنل پولیس ایجنسی، سیول میٹروپولیٹن پولیس ایجنسی اور نیشنل اسمبلی سکیورٹی سروس کے دفاتر پر بھی چھاپے مارے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’یونہاپ‘ کے مطابق چھاپہ مار ٹیم، جو کہ 18 تفتیش کاروں پر مشتمل تھی، کو صدر کی جانب سے مارشل لا کے اعلان کی رات ہونے والے کابینہ کے اجلاس سے متعلق ریکارڈ قبضے میں لینے کے لیے صدارتی دفتر بھیجا گیا تھا۔ تاہم صدر یون، جو سرچ وارنٹ پر درج مشتبہ افراد کی فہرست میں شامل تھے، چھاپے کے دوران اپنے دفتر میں موجود نہیں تھے۔
دوسری جانب جنوبی کوریا کی وزارت انصاف کا کہنا ہے کہ مارشل لا کے اس اقدام کے بڑے حامی اور ملک کے سابق وزیر دفاع کم یونگ ہیون نے دورانِ حراست خودکشی کی کوشش کی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یاد رہے کہ سابق وزیر دفاع نے مارشل لا کے نفاذ کی کوشش میں مرکزی کردار ادا کرنے پر قوم سے معافی مانگی تھی اور انھیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔
انھوں نے منگل کی رات گئے دوران حراست خودکشی کی کوشش کی تاہم وزارت صحت کا کہنا ہے اب انھیں ایک حفاظتی کمرے میں رکھا گیا ہے اور انھیں ’صحت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔‘
اطلاعات کے مطابق سابق وزیر دفاع کم ہی وہ شخص تھے جنھوں نے صدر کو مارشل لا کے اعلان کی تجویز پیش کی تھی۔ انھوں نے گذشتہ جمعرات کو یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ معاملے کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
دوسری جانب جنوبی کوریا کی حکمراں پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) کے نمائندے کم جے سیوپ نے صدر یون کے مواخذے کی حمایت کرتے ہوئے پوری پارٹی سے اس کی سپورٹ میں ووٹ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس طرح وہ ملک میں حکمراں جماعت کے چھٹے ایسے رکن پارلیمنٹ بن گئے ہیں جو صدر یون کے مواخذے کی حمایت کر رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کے ارکان کی جانب سے بڑے پیمانے پر واک آؤٹ کے بعد قومی اسمبلی میں ووٹوں کی گنتی کے لیے بہت کم ارکان رہ گئے تھے۔
کم کا کہنا تھا کہ انھوں نے گذشتہ ہفتے ووٹ نہیں دیا کیونکہ ان کے خیال میں صدر کو استعفیٰ دینے سے قبل معاملات طے کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
حزب اختلاف کے پاس پارلیمنٹ میں 192 نشستیں ہیں تاہم صدر کے مواخذے کے عمل ہو کامیاب بنانے کے لیے انھیں حکمراں جماعت کے کم از کم 8 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے جن میں سے چھ حمایت کا اعلان کر چکے ہیں تاہم دو ووٹ اب بھی باقی ہیں۔
شام کے عبوری وزیرِاعظم کی عوام سے پُرامن رہنے کی اپیل, ڈیوڈ گریٹن، بی بی سی نیوز
،تصویر کا ذریعہTelegram
،تصویر کا کیپشنمحمد البشیر نے عبوری اور سابقہ دونوں حکومتوں کے وزراء کے ساتھ ایک اجلاس کی صدارت کی۔ شام کی نئی عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم محمد البشیر نے کہا ہے کہ ’صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ شام کے لوگ امن اور سکون سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔‘
محمد البشیر کو عسکریت پسند گروپ ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) اور اُس کے اتحادیوں کی جانب سے مارچ 2025 تک حکومت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
محمد البشیر نے منگل کے روز دمشق میں ایک اجلاس کی صدارت بھی کی جس میں اُن کی نئی حکومت اور اسد کی سابق کابینہ کے اراکین نے شرکت کی اور مُلکی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
یاد رہے کہ شام کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی نے کہا ہے کہ باغیوں کو اپنے ’اچھے پیغامات‘ کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔
دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ واشنگٹن مستقبل کی شامی حکومت کو اُس وقت تک تسلیم کرے گا اور اس کی مکمل حمایت کرے گا جب تک کہ وہ ایک قابل اعتماد اور جامع عمل کا مظاہرہ کرے جس میں اقلیتوں کا احترام کیا جائے۔
یاد رہے کہ سنہ 2011 میں شام کے معزول صدر بشار الاسد نے جمہوریت کے حق میں ہونے والی پُرامن عوامی بغاوت کو بیدردی سے کچل دیا تھا جس کے نتیجے میں ایک تباہ کُن خانہ جنگی شروع ہوئی تھی جس میں اندازوں کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
،تصویر کا کیپشنمنگل کے روز دمشق کی سڑکوں پر بری تعداد میں پیدل چلنے والوں اور گاڑیوں کی طویل قطاریں دیکھنے کو ملیں۔ محمد البشیر الیکٹریکل انجینئر ہیں اور سنہ 2011 میں ملک میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے آغاز سے قبل وہ مُلاًک کے اہم گیس پلانٹس میں کام کرتے رہے۔
جنوری میں بشیر کو سالویشن گورنمنٹ (ایس جی) کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا جسے ایچ ٹی ایس نے اپنے زیرِ کنٹرول علاقے کو چلانے کے لئے قائم کیا تھا۔
ایس جی ایک ریاست کی طرح کام کرتا تھا جس میں وزارتیں، مقامی محکمے، عدالتی اور سکیورٹی حکام شامل تھے جبکہ اسلامی قانون کی رہنمائی میں مذہبی کونسل کو برقرار رکھا گیا تھا۔
تقریبا 40 لاکھ افراد جن میں سے زیادہ تر ملک کے دیگر حصوں سے بے گھر ہوئے تھے ان کی حکمرانی والے علاقوں میں رہتے تھے۔
شام کے ایک مسلمان عالم دین نے بی بی سی کو بتایا کہ شامی لوگ مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وہ اب طویل جنگ کے بعد ایک پرامن اور متحد ملک چاہتے ہیں۔
اسرائیل کی شامی بحری بیڑے پر حملے کی تصدیق: ’البیضا اور اللاذقيہ کی بندرگاہوں پر لنگر انداز جہازوں کو نشانہ بنایا،‘ اسرائیلی فوج
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیل نے تصدیق کی ہے کہ اس نے اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں فوجی اثاثوں کو بے اثر کرنے کے دوران شام کے بحری بیڑے پر بھی ایک بڑا حملہ کیا ہے۔
اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے جہازوں نے پیر کی رات البیضا اور اللاذقيہ کی بندرگاہوں کو نشانہ بنایا جہاں شامی بحریہ کے 15 بحری جہاز لنگر انداز تھے۔
بی بی سی نے ان ویڈیوز کی تصدیق کی ہے جن میں لتاکیا کی بندرگاہ پر ہونے والے دھماکوں کو دکھایا گیا ہے اور فوٹیج میں جہازوں اور بندرگاہ کے کچھ حصوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچتا ہوا دکھایا گیا ہے۔
آئی ڈی ایف نے یہ بھی کہا کہ اس کے جنگی طیاروں نے شام بھر میں متعدد فوجی اور عسکریت پسندوں کے اہداف پر 350 سے زیادہ فضائی حملے کیے ہیں جبکہ زمینی افواج کو شام اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کے درمیان غیر فوجی بفر زون میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
تاہم گزشتہ روز کچھ عرب ممالک نے گولان کی پہاڑیوں میں بفر زون میں اسرائیلی فوج کے قبضے کی مذمت کی تھی۔
،تصویر کا ذریعہEPA
مصر، قطر اور سعودی عرب کی جانب سے جاری بیانات میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کا یہ اقدام شام کی خود مختاری، بین الاقوامی قانون اور 1974 کے ’ڈِس انگیجمنٹ‘ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
قطر کے دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے منگل کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال ان کے لیے ناقابل قبول ہے کہ اسرائیل اس وقت حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔
اس سے قبل برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) نے کہا تھا کہ اس نے اتوار کو باغیوں کے ہاتھوں شامی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے آئی ڈی ایف کے 310 سے زیادہ حملوں کی دستاویزات تیار کی ہیں۔
،تصویر کا ذریعہEPA
ایک بیان میں اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا کہ آئی ڈی ایف کا مقصد اُن ’سٹریٹجک صلاحیتوں کو تباہ کرنا ہے جو اسرائیل کی ریاست کے لئے خطرہ ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ شامی بیڑے کو تباہ کرنے کا آپریشن ایک ’بڑی کامیابی‘ ہے۔
آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ ’شام کے دارالحکومت دمشق کے علاوہ حمص، طرطوس اور پالمیرا میں ہوائی اڈوں، فوجی گاڑیوں، طیارہ شکن ہتھیاروں اور اسلحے کی پیداوار کے مقامات سمیت وسیع پیمانے پر اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔‘
آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہتھیاروں کے گوداموں، گولہ بارود کے ڈپواور سمندر سے سمندر میں مار کرنے والے ’درجنوں‘ میزائلوں کو بھی نشانہ بنایا۔
اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ انھوں نے شامی فوجی تنصیبات کو نشانہ اس لیے بنایا ہے کہ انھیں ’انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکا‘ جا سکے۔
’اسرائیل صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے‘، عرب ممالک کی اسرائیلی فوج کی بفر زون پر قبضے کی مذمت
،تصویر کا ذریعہReuters
کچھ عرب ممالک کی جانب سے منگل کے روز اسرائیل کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں میں بفر زون میں قبضے کی مذمت کی گئی۔
منگل کے روز مصر، قطر اور سعودی عرب نے کہا ہے کہ اسرائیل کا یہ اقدام شام کی خود مختاری، بین الاقوامی قانون اور 1974 کے ’ڈِس انگیجمنٹ‘ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
قطر کے دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے منگل کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال ان کے لیے ناقابل قبول ہے کہ اسرائیل اس وقت حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔
عرب ممالک کی طرف سے یہ مذمت ایک ایسے وقت پر کی گئی جب یہ خبریں سامنے آئیں کہ اسرائیل افواج دمشق کی طرف پیشقدمی کر رہی ہیں۔
اسرائیل کے فوجی حکام نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔ تاہم اس کے بعد اسرائیلی افواج نے اس کی تصدیق کی کہ وہ غیر فوجی علاقے سے باہر بھی جا کر کارروائی کر سکتی ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے دمشق کی طرف پیشقدمی کو جعلی خبر قرار دیا ہے۔
شامی باغی اب ایران سے ہاتھ ملانے کی غلطی نہ کریں: سینکڑوں فضائی حملوں کے بعد اسرائیل کا انتباہ
،تصویر کا ذریعہReuters
اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے منگل کے روز شامی باغیوں کو خبردار کیا کہ وہ ایران سے ہاتھ ملانے سے باز رہیں اور اگر انھوں نے ایران کو شام میں تنظیم نو کی اجازت دی تو پھر ان کا بھی وہ حشر ہو گا جو اس سے قبل بشار الاسد حکومت کا ہوا۔
ایکس پر منگل کے روز ایک ویڈیو پیغام میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ شامی باغی ایران یا حزب اللہ کو ہتھیار واپس کریں اور نہ انھیں اپنی سرزمین پر قدم جمانے کا موقع دیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ایسا کچھ کیا گیا تو پھر شامی باغیوں کو اس کی بھاری قیمت چکانی ہو گی اور اسرائیل طاقت کا استعمال کرے گا۔
اسرائیل کے وزیراعظم کا بیان ایک ایسے وقت پر آیا جب پہلے ہی اسرائیل کی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اس وقت گولان کی پہاڑیوں میں بفر زون میں بھی داخل ہو گئی ہے۔
اسرائیل کی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے سینکڑوں حملوں میں گذشتہ 48 گھنٹوں میں شام میں تمام سٹریٹجک ہتھیاروں کے ذخائر تباہ کر دیے ہیں۔
ٹیلیگرام پر ایک پوسٹ میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کی بحریہ نے شام کی دو بحریہ کی جگہوں کو نشانہ بنایا ہے اور اس کے علاوہ سمندر سے سمندر میں 80 سے 190 کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے 15 بحری جہاز بھی تباہ کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے 480 فضائی حملے کیے ہیں اور شام میں اینٹی ایئر کرافٹ بیریئرز، ایئرفیلڈز، ہتھیار بنانے والی فیکٹریوں، ہتھیاروں کے ڈپو، فوجی سٹرکچرز، لانچرز اور فائرنگ پوزیشن کو ہدف بنایا ہے۔
دمشق سے پاکستانیوں کے انخلا کے لیے ابھی بھی اسلام آباد سے چارٹرڈ طیاروں کا انتظار ہے: سفارتکار, اعظم خان، بی بی سی اردو
،تصویر کا ذریعہPakistani Embassy in Damascus
شام کے دارالحکومت دمشق میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے منگل کے روز بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے دمشق سے پاکستانیوں کے انخلا کے لیے پیر کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ کو خصوصی چارٹرڈ طیاروں کے لیے درخواست کی تھی مگر ابھی تک اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
ان سفارتکاروں کے مطابق حکومت پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملی۔
ایک پاکستانی سفارتکار نے بتایا کہ اس وقت دمشق اور بیروت میں پاکستانی سفارتخانے اپنی طرف سے ایسے پاکستانی شہریوں کو شام سے براستہ بیروت نکال رہے ہیں جو یہاں سے جانے کے خواہشتمند ہیں۔ ان کے مطابق یہ شہری اپنے پیسے خرچ کر کے یہاں سے جا رہے ہیں جبکہ ایسے پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہے جن کے پاس ٹکٹ خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں اور وہ حکومتی امداد کے منتطر ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سفارتکار کے مطابق اس وقت چھ سے سات سو تک پاکستانی شہریوں نے اپنے نام کا اندراج کروایا ہے جو شام سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے بھی خاندان ہیں جو شام سے باہر نہیں جانا چاہتے ہیں۔
سفارتکار نے بتایا کہ گذشتہ رات 80 زائرین واپس بھیجے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 25 عام شہریوں کو بیروت کی سرحد عبور کروائی گئی۔ ان کے مطابق 21 ایسے پاکستانی جو یہاں سکولوں میں کام کرتے تھے ان کو بھی بیروت بھیجا گیا ہے۔
سفارتکار کے مطابق اس وقت 15 کے قریب اور ایسے پاکستانی زائرین ہیں جنھیں شام سے نکالا جانا ہے۔ ان کے مطابق سفارتخانے کی طرف سے یہاں مدارس کے طلبہ کے لیے بھی بسوں کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی سفارتکار کے مطابق اس وقت یہاں نئی حکومت سے زیادہ لوگوں کو خطرہ اسرائیلی حملوں سے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہPakistani Embassy in Damascus
ان کے مطابق آج دن کو مزید 158 زائرین کو بیروت بھیجا گیا ہے۔ سفارتکار کے مطابق لبنان کی بارڈر اتھارٹی نے ان سے تعاون کیا ہے اور پاکستانی شہریوں سے فیس بھی نہیں لی ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز یعنی پیر کو پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا تھا اور ان سے پاکستانی شہریوں کے انخلا میں مدد اور ذاتی مداخلت کی درخواست کی تھی۔
منگل کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شام میں تقریباً 20 اساتذہ اور طالب علموں میں سے بھی سات افراد بیروت پہنچ چکے ہیں۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ شام اور لبنان میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام پاکستانیوں کی باحفاظت واپسی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اُٹھا رہے ہیں۔
شام میں پھنسے 86 پاکستانی لبنان پہنچ گئے: وزیرِ اعظم ہاؤس
،تصویر کا ذریعہPMO
پاکستان کی وفاقی کابینہ کو بتایا گیا ہے کہ شام میں پھنسے 250 پاکستانی زائرین میں سے 79 لبنان کے دارالحکومت بیروت پہنچ چکے ہیں جہاں سے انھیں واپس اپنے ملک لایا جائے گا۔
منگل کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شام میں تقریباً 20 اساتذہ اور طالب علموں میں سے بھی سات افراد بیروت پہنچ چکے ہیں۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ شام اور لبنان میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام پاکستانیوں کی باحفاظت واپسی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اُٹھا رہے ہیں۔
گذشتہ روز دمشق میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس وقت شام میں ’ایک ہزار سے زیادہ پاکستانی شہری موجود ہیں جن میں سے 260 صرف زائرین ہیں۔ انھیں (زائرین کو) ترجیحی بنیادوں پر واپس بھیجا جا رہا ہے۔‘
اس کام کے لیے سفارتخانے کے حکام کے مطابق پاکستانی دفتر خارجہ کو خصوصی فلائٹس کی درخواست بھیجی گئی ہے۔ ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ’آج ان 81 زائرین کو بیروت بھیجا گیا ہے جن کے پاس واپسی کے ٹکٹ تھے۔‘
بی بی سی کے لائیو پیج میں خوش آمدید!
بی بی سی کے لائیو پیج میں خوش آمدید۔
شام اور دُنیا بھر کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق جاننے کے لیے بی بی سی کی لائیو پیج کوریج جاری ہے۔ گزشتہ روز کی اہم خبروں کے لیے یہاں کلک کریں۔