یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے!
بی بی سی اردو کی شام اور دُنیا بھر کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
11 دسمبر کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
کچھ عرب ممالک نے گولان کی پہاڑیوں میں بفر زون میں اسرائیلی فوج کے قبضے کی مذمت کی ہے۔ اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ اس نے اب تک شام میں اہم اہداف پر 480 فضائی حملے کیے ہیں۔ اسرائیل کے وزیراعظم نے شامی باغیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایران کو شام میں قدم نہ جمانے دیں ورنہ ان کا بھی وہی حشر ہو گا جو پہلی حکومت کے ساتھ ہوا۔
پیشکش: اعظم خان
بی بی سی اردو کی شام اور دُنیا بھر کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
11 دسمبر کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
،تصویر کا ذریعہReuters
کچھ عرب ممالک نے گولان کی پہاڑیوں میں بفر زون میں اسرائیلی فوج کے قبضے کی مذمت کی ہے۔
مصر، قطر اور سعودی عرب نے کہا ہے کہ اسرائیل کا یہ اقدام شام کی خود مختاری، بین الاقوامی قانون اور 1974 کے ’ڈِس انگیجمنٹ‘ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
قطر کے دفتر خارجہ کے ایک ترجمان نے منگل کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال ان کے لیے ناقابل قبول ہے کہ اسرائیل اس وقت حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔
عرب ممالک کی طرف سے یہ مذمت ایک ایسے وقت پر کی گئی جب یہ خبریں سامنے آئیں کہ اسرائیل افواج دمشق کی طرف پیشقدمی کر رہی ہیں۔
اسرائیل کے فوجی حکام نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔ تاہم اس کے بعد اسرائیلی افواج نے اس کی تصدیق کی کہ وہ غیر فوجی علاقے سے باہر بھی جا کر کارروائی کر سکتی ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے دمشق کی طرف پیشقدمی کو جعلی خبر قرار دیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے شامی باغیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایران سے ہاتھ ملانے سے باز رہیں اور اگر انھوں نے ایران کو شام میں تنظیم نو کی اجازت دی تو پھر ان کا بھی وہ حشر ہو گا جو اس سے قبل بشار الاسد حکومت کا ہوا۔
ایکس پر ایک ویڈیو پیغام میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ شامی باغی ایران یا حزب اللہ کو ہتھیار واپس کریں اور نہ انھیں اپنی سرزمین پر قدم جمانے کا موقع دیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ایسا کچھ کیا گیا تو پھر شامی باغیوں کو اس کی بھاری قیمت چکانی ہو گی اور اسرائیل طاقت کا استعمال کرے گا۔
اسرائیل کے وزیراعظم کا بیان ایک ایسے وقت پر آیا جب پہلے ہی اسرائیل کی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اس وقت گولان کی پہاڑیوں میں بفر زون میں بھی داخل ہو گئی ہے۔
اسرائیل کی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے سینکڑوں حملوں میں گذشتہ 48 گھنٹوں میں شام میں تمام سٹریٹجک ہتھیاروں کے ذخائر تباہ کر دیے ہیں۔
ٹیلیگرام پر ایک پوسٹ میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کی بحریہ نے شام کی دو بحریہ کی جگہوں کو نشانہ بنایا ہے اور اس کے علاوہ سمندر سے سمندر میں 80 سے 190 کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے 15 بحری جہاز بھی تباہ کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے 480 فضائی حملے کیے ہیں اور شام میں اینٹی ایئر کرافٹ بیریئرز، ایئرفیلڈز، ہتھیار بنانے والی فیکٹریوں، ہتھیاروں کے ڈپو، فوجی سٹرکچرز، لانچرز اور فائرنگ پوزیشن کو ہدف بنایا ہے۔
،تصویر کا ذریعہSCP
پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے منگل کو جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے عدالتوں کو ہدایت کی کہ وہ بلا خوف و خطر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔
ایک سرکاری اعلامیہ کے مطابق بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں گوادر بار کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بروقت فراہمی کو معاشرتی ترقی کی بنیاد قرار دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دور دراز علاقوں میں انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے پہلے سرکاری دورے کا آغاز گوادر سے کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بلوچستان کے کم ترقی یافتہ اضلاع میں عدالتی نظام کی بہتری کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں گے۔
،تصویر کا ذریعہBaloch Yekjehti Council
انھوں نے ماتحت عدالتوں کو کسی بھی دباؤ سے آزاد رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے کی ہدایت دی اور کہا کہ اگر کسی قسم کے دباؤ کا سامنا ہو تو وہ براہ راست ان سے رجوع کریں۔
غیرقانونی ٹرالرنگ سے ماہی گیروں کے روزگار کو پہنچنے والے نقصان پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے وکلا اور عوام پر زور دیا کہ وہ آئینی راستے سے مسائل کا حل تلاش کریں۔ انھوں نے کہا کہ عدالت بنیادی حقوق سے متعلق مسائل پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار رکھتی ہے۔
تقریب سے چیف جسٹس بلوچستان جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ آئین و قانون کی حکمرانی ہی معاشرتی ترقی کی ضامن ہے اور عدالت عالیہ انصاف کی فراہمی میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔
،تصویر کا ذریعہBaloch Yekjehti Council
’جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی صورت میں طویل عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے‘
اُدھر دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں عالمی یوم حقوق انسانی کے موقع پر سیمناروں اور مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔
اس مناسبت سے کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام سیمنارکا انعقاد کوئٹہ پریس کلب میں کیا گیا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔
سیمنار میں بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔
،تصویر کا ذریعہBaloch Yekjehti Council
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ ، صبغت اللہ ، بیبرگ بلوچ سمیت دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی صورت میں طویل عرصے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں بلوچستان کے علاوہ کراچی سے جبری گمشدگیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
مقررین نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات کو روکا جائے اور اگر جبری گمشدگی کے شکار کسی پر کوئی الزام ہے تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
،تصویر کا ذریعہPakistani Embassy in Damascus
شام کے دارالحکومت دمشق میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے منگل کو بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھوں نے دمشق سے پاکستانیوں کے انخلا کے لیے پیر کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ کو خصوصی چارٹرڈ طیاروں کے لیے درخواست کی تھی مگر ابھی تک اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔
ان سفارتکاروں کے مطابق حکومت پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملی ہے۔
ایک پاکستانی سفارتکار نے بتایا کہ اس وقت دمشق اور بیروت میں پاکستانی سفارتخانے اپنی طرف سے ایسے پاکستانی شہریوں کو شام سے براستہ بیروت نکال رہے ہیں جو یہاں سے جانے کے خواہشتمند ہیں۔ ان کے مطابق یہ شہری اپنے پیسے خرچ کر کے یہاں سے جا رہے ہیں جبکہ ایسے پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہے جن کے پاس ٹکٹ خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہیں اور وہ حکومتی امداد کے منتطر ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سفارتکار کے مطابق اس وقت چھ سے سات سو تک پاکستانی شہریوں نے اپنے نام کا اندراج کروایا ہے جو شام سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے بھی خاندان ہیں جو شام سے باہر نہیں جانا چاہتے ہیں۔
سفارتکار نے بتایا کہ گذشتہ رات 80 زائرین واپس بھیجے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 25 عام شہریوں کو بیروت کی سرحد عبور کروائی گئی۔ ان کے مطابق 21 ایسے پاکستانی جو یہاں سکولوں میں کام کرتے تھے ان کو بھی بیروت بھیجا گیا ہے۔
سفارتکار کے مطابق اس وقت 15 کے قریب اور ایسے پاکستانی زائرین ہیں جنھیں شام سے نکالا جانا ہے۔ ان کے مطابق سفارتخانے کی طرف سے یہاں مدارس کے طلبہ کے لیے بھی بسوں کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی سفارتکار کے مطابق اس وقت یہاں نئی حکومت سے زیادہ لوگوں کو خطرہ اسرائیلی حملوں سے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہPakistani Embassy in Damascus
ان کے مطابق آج دن کو مزید 158 زائرین کو بیروت بھیجا گیا ہے۔ سفارتکار کے مطابق لبنان کی بارڈر اتھارٹی نے ان سے تعاون کیا ہے اور پاکستانی شہریوں سے فیس بھی نہیں لی ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز یعنی پیر کو پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی سے ٹیلیفونک رابطہ کیا تھا اور ان سے پاکستانی شہریوں کے انخلا میں مدد اور ذاتی مداخلت کی درخواست کی تھی۔
منگل کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شام میں تقریباً 20 اساتذہ اور طالب علموں میں سے بھی سات افراد بیروت پہنچ چکے ہیں۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ شام اور لبنان میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام پاکستانیوں کی باحفاظت واپسی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اُٹھا رہے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہPTV
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد سے بھاگتے وقت علی امین گنڈاپور کی گاڑی پر کارکنوں کی طرف سے ڈنڈے مارے اسے، توڑنے کی کوشش کی تو پھر اس کے بعد ان کے گارڈز نے ان پر (کارکنوں) فائرنگ کی۔
منگل کو قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اس دن پی ٹی آئی کی قیادت کے بھاگنے کی ویڈیو موجود ہے جس میں سب سامنے آجائے گا کہ کون وہاں سے بھاگا اور گولی کس نے چلائی۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 12 ہلاک کارکنوں میں سے کسی ایک کا شناختی کارڈ نہیں دیا ہے اور ان کے رہنماؤں کے بیانات میں تضادات ہیں۔
خواجہ محمد آصف نے کہا ہے وزیراعلیٰ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ صوبے میں امن قائم کریں، ان کو چھوڑ کر وہ وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کے لیے آئے، پی ٹی آئی کی قیادت جانتی ہے رات کو 10 بجے جب جیل کھولی گئی تو عمران خان نے سنگجانی کے مقام پر حامی بھری لیکن ان کی بیگم صاحبہ نے منع کر دیا۔
انھوں نے کہا کہ 26 نومبر کو گزرے دو ہفتے ہوچکے ہیں یہ ابھی تک یہ پتہ نہیں لگ سکا کہ کتنے بندوں کی ہلاکت ہوئی ہے؟ انھوں نے کہ ’پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ابھی تک عوام کو یہ نہیں بتاسکی کہ کتنے افراد ہلاک ہوئے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ان کا کہنا تھا کہ لطیف کھوسہ نے 278 افراد کا دعویٰ کیا تھا، ایوان میں بیٹھے لوگ مختلف تعداد بتاتے رہے ہیں، جن 12 افراد کا ذکر کیا ان کے ابھی تک ان کے شناختی کارڈ، قبریں، ورثا کوئی سامنے نہیں آیا۔
خواجہ آصف نے کہا بغیر کسی ثبوت کے اس طرح کی ہوائی باتیں کرنا قوم کے اجتماعی شعور کی توہین ہے۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اندر اس وقت شدید اختلافات ہیں، ہر بندہ علیحدہ علیحدہ بیانات دیتا ہے، عمر ایوب کی تقریر سے میں نے اخد کیا ہے کہ جب یہ براستہ ’مونال‘ بھاگے ہیں تو بشریٰ بی بی ان کے ساتھ تھیں، وہ ان ریکارڈ کہہ رہی ہیں کہ مجھے چھوڑ کر سارے لوگ بھاگ گئے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس ملک کے اوپر تمام لوگوں کا برابر حق ہے، اگر ان کے کہنے پر کسی اور صوبے سے ایک بندہ بھی نہ آئے تو اس میں لوگوں کا کیا قصور ہے؟
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی سول نافرمانی کی تحریک بھی ناکام ہو گی۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام کی ایک مقامی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے گرفتاری کے احکامات جاری کیے ہیں۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے تھانہ رمنا میں درج مقدمہ میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سمیت چار رہنماﺅں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
پی ٹی آئی کے دیگر رہنماﺅں میں شاہد خٹک اور سہیل آفریدی شامل ہیں جن کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں۔ ان ملزمان کے خلاف ڈی چوک احتجاج کے موقع پر تھانہ رمنا میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہPM Office
پاکستان کی وفاقی کابینہ کو بتایا گیا ہے کہ شام میں پھنسے 250 پاکستانی زائرین میں سے 79 لبنان کے دارالحکومت بیروت پہنچ چکے ہیں جہاں سے انھیں واپس اپنے ملک لایا جائے گا۔
منگل کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شام میں تقریباً 20 اساتذہ اور طالب علموں میں سے بھی سات افراد بیروت پہنچ چکے ہیں۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ شام اور لبنان میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام پاکستانیوں کی باحفاظت واپسی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اُٹھا رہے ہیں۔
گذشتہ روز دمشق میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس وقت شام میں ’ایک ہزار سے زیادہ پاکستانی شہری موجود ہیں جن میں سے 260 صرف زائرین ہیں۔ انھیں (زائرین کو) ترجیحی بنیادوں پر واپس بھیجا جا رہا ہے۔‘
اس کام کے لیے سفارتخانے کے حکام کے مطابق پاکستانی دفتر خارجہ کو خصوصی فلائٹس کی درخواست بھیجی گئی ہے۔ ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ’آج ان 81 زائرین کو بیروت بھیجا گیا ہے جن کے پاس واپسی کے ٹکٹ تھے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کی سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے حکم دیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) عدالت کو مطمئن کرے کہ اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد ہوگیا ہے۔
منگل کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رُکنی آئینی بینچ نے اصغر کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو مطلع کیا کہ حساس اداروں میں قائم سیاسی سیل سیریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ختم کر دیے گئے تھے۔
آئینی بینچ کے رُکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا حساس اداروں کے سربراہان نے سیاسی سیل ختم کرنے کا بیان حلفی دیا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے انھیں جواب دیا کہ حساس اداروں کا آئین و قانون کے تحت سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر پہلے بیانِ حلفی نہیں لیا گیا تو حساس اداروں کے سربراہان سے آج بیان حلفی لے لیں۔
خیال رہے پاکستان کی سپریم کورٹ نے سیاست دانوں میں 1990 کے انتخابات کے دوران رقوم کی منتقل کے حوالے سے دائر اصغر خان کیس کا فیصلہ 19 اکتوبر 2012 کو سُنایا تھا۔
اس مقدمے کے مدعی اصغر خان چھ سال قبل وفات پا گئے تھے اور منگل کو عدالت کے سامنے ان کے وکیل سلمان اکرم راجہ پیش ہوئے۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ حساس اداروں میں سیاسی سیل تھے اور جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی اور یونس حبیب نے الیکشن چوری کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے اصغر خان کیس میں انکوائری بندی کر دی ہے۔
آئینی بینچ کے رُکن جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا سیاستدانوں میں تقسیم رقم ریکور کرلی گئی تھی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کی انکوائری میں رقم کی تقسیم کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
عدالت نے حکم دیا کہ وزارتِ دفاع بھی اس معاملے پر آئینی بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ جمع کروائے۔
اصغر خان کیس کے فیصلے میں کہا گیا گیا تھا؟
اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ انتخابی عمل کو آلودہ کرنا اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ اور انٹرسروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کا انفرادی عمل تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فوج کے دونوں اعلیٰ عہدیداران نے نظرِثانی درخواستیں بھی جمع کروائی گئی تھیں جنھیں مسترد کر دیا گیا تھا۔
اصغر خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ سنہ 1990 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سابق چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے اور اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی تشکیل کے لیے فوج نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت متعدد سیاست دانوں کو پیسے دیے تھے۔
اپنے مختصر فیصلے میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی اور سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کی گئی تھیں اور جو سیاست دان اُن رقوم سے مستفید ہوئے اُن کی بھی تحقیقات کی جائیں۔
سپریم کورٹ کے حکم میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس قانون کے مطابق اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے سرحدوں کا تحفظ کرسکتی ہیں یا حکومت کو مدد فراہم کر سکتی ہیں لیکن اُن کا سیاسی سرگرمیوں، سیاسی حکومتوں کے قیام یا اُنھیں کمزور کرنے میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اقوام متحدہ کے شامی کمیشن کے کوآرڈینیٹر کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کے حراستی مراکز کے حالات کو ظاہر کرنے والی فوٹیج اور تصاویر ’تکلیف دہ‘ تو ہیں مگر ’حیران کر دینے والی نہیں‘ ہیں۔
بی بی سی ریڈیو 4 کے ٹوڈے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے لینیا آرویڈسن بتاتی ہیں کہ اقوام متحدہ کی ٹیمیں 2011 سے شام کے حراستی مراکز کے بارے میں معلومات جمع کر رہی ہیں اور سابق قیدیوں سے بات کر رہی ہیں لیکن انھیں اب اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیر کے روز ہی ان مراکز تک رسائی حاصل ہوئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کھڑکیوں کے بغیر ان زیر زمین سیلز یا کوٹھڑیوں کو دیکھنا، جہاں لوگوں نے سورج کی روشنی کے بغیر برسوں اور دہائیاں گزاری ہیں انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ہم نے جن حالات کے بارے میں سنا تھا وہ واقعی اس سے مماثلت رکھتے ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں۔‘
کمشنر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے ذریعے ان سب کے خلاف مقدمہ چلانے کی کوششوں کو ’ویٹو‘ کیا گیا تھا اور آئی سی سی کے پاس شام میں مداخلت یا وہاں اپنے لوگوں کو بھیجنے کا اختیار نہیں۔ تاہم آرویڈسن تجویز کرتی ہیں کہ اب سب کُچھ سامنے آنے کے بعد انصاف ہونا چاہیے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ شام میں ایک نیا دن ہے اور وہ راستے بھی دکھائی دینے لگنے ہیں کہ جن تک رسائی 2011 کے بعد سے محدود یا نا ہونے کے برابر تھی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شام کے باغی گروہ ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نے بشار الاسد کے دور حکومت میں کام کرنے والے ایسے عہدیداروں کی فہرست تیار کرنے کا اعلان کیا ہے جو اسد کے مخالفین پر ہونے والے تشدد میں ملوث تھے یا جنھوں نے اس عمل کی نگرانی کی تھی۔
ہیئت تحریر الشام کی جانب سے جنگی جرائم میں ملوث افسران کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر انعامات دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔
ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے کہا ہے کہ وہ تشدد میں ملوث افراد کے نام شائع کریں گے اور دوسرے ممالک میں فرار ہونے والوں کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا جائے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’جنگی جرائم‘ میں ملوث سینئر فوجی اور سکیورٹی افسران کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر انعامات دیے جائیں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایرانی پارلیمان اور اسلامی مشاورتی اسمبلی کے رُکن احمد نادری نے پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف حسین سلامی کے ساتھ پارلیمنٹ کے بند کمرے میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں خبر رساں ادارے اسنا کو بتایا کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے قبل ہمارے فوجی مشیر اور افواج آخری لمحے تک شام میں موجود تھیں۔
تاہم نادری نے اس بات پر زور دیا کہ ’اس وقت شام میں کوئی ایرانی فوجی موجود نہیں ہے۔‘
اس سے قبل بی بی سی فارسی کو بتایا گیا تھا کہ بشار الاسد حکومت کی حمایت میں فاطمیون ڈویژن کے حصے کے طور پر ایران کی حمایت سے شام میں حزب اختلاف کے خلاف لڑنے والے افغانوں کا ایک گروپ اب صدر کا تختہ الٹنے اور دمشق سے فرار ہونے کے بعد ’لاتاکیا‘ کی بندرگاہ پر پھنس گیا ہے۔ فاطمیون ڈویژن ایرانی حمایت یافتہ افغان شیعہ ملیشیا پر مشتمل ہے۔
احمد نادری نے خبر رساں ادارے اسنا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے ایک عہدیدار کو بھی اس اجلاس میں شرکت کرنی تھی لیکن وہ نہیں آسکے۔‘
قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان ابراہیم رضائی نے حسین سلامی کی موجودگی میں پارلیمنٹ کے بند کمرے کے اجلاس کے بعد کہا کہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر نے اس بات پر زور دیا کہ ’کسی بھی چیز نے ایران کی طاقت کو کم نہیں کیا ہے ہم دشمن کے تمام اہم مفادات پر اب بھی غالب ہیں۔‘
واضح رہے کہ ایران شام کے معزول صدر بشار الاسد کا قریبی اتحادی رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہMehr News Agency
ایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ مہاجرانی کا کہنا تھا کہ شامی فوج کسی نہ کسی طرح کچھ فوجیوں کے داخلے کو روکنے سے قاصر یا تیار نہیں تھی اور ہم نے شام میں حکومت کی تبدیلی دیکھی ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم شام کی علاقائی سالمیت اور قومی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں اور شام کے عوام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ شام کی قسمت کا فیصلہ اس ملک کے عوام کو کرنا چاہیے۔‘
مہاجرانی کے مطابق ایران شام میں ہونے والی پیش رفت کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے آج شام کی صورتحال سے متعلق ایک اہم بیان جاری کیے جانے کا امکان ہے۔ سلامتی کونسل کی جانب سے بیان جاری کرنے کا فیصلہ شام میں حالیہ پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے بعد کیا گیا۔
تاہم روس اور امریکہ دونوں ہی کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ شام کی علاقائی سالمیت کا تحفظ شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان نے شام کی صورتحال کو 'غیر معمولی' قرار دیا اور کہا کہ انھیں مزید پیش رفت کی توقع ہے۔
کونسل کے ارکان نے شام میں انسانی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا کہ شام کی صورتحال پر کونسل کے اجلاس کا مقصد اس مسئلے کے لیے یک زبان ہو کر آواز اُٹھانا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ملک میں 13 سالہ خانہ جنگی کے دوران لاکھوں شامی بے گھر ہوئے۔ ان میں سے تقریبا 30 لاکھ نے ترکی میں پناہ لی۔ اب جبکہ بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے تو بہت سے لوگ اپنے ملک واپس جانے کے لیے تیار ہیں لیکن یہ اُن سب کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا۔
سنہ 2011 میں شروع ہونے والی اس جنگ کے بعد سے اب تک ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد شامی شہری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق شامی پناہ گزینوں کا بحران، اب تک کی سب سے بڑی جبری نقل مکانی ہے۔
55 لاکھ سے زائد شامی پناہ گزین ترکی، لبنان، اردن، عراق اور مصر جیسے ہمسایہ ممالک میں مقیم ہیں۔ جرمنی وہ مُلک ہے کہ جو شام کا ہمسایہ مُلک تو نہیں ہے تاہم شامیوں کے لیے ایک بہترین میزبان ملک بن کر سامنے آیا ہے، جس نے 850،000 سے زیادہ شامیوں کو پناہ دی ہے۔
جلاوطنی کی زندگی بہت سے پناہ گزینوں کے لئے مُشکلات سے بھری ہوئی ہے جنھوں نے قانونی رکاوٹوں پر قابو پانے، معاشی مشکلات کو برداشت کرنے اور غیر ملکیوں سے نفرت کے ادوار سے نمٹنے کی کوشش میں سالوں گزارے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہWAEL HAMZEH/EPA-EFE/REX/Shutterstock
شامی پناہ گزینوں کی اُمیدوں اور مصائب کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بی بی سی کی عربی ساتھی ثنا الخور کی تیار کردہ رپورٹ درج ذیل پڑھیں۔
جرمنی کے دارلحکومت برلن میں مقیم شام سے تعلق رکھنے والی رشا اس بات سے تو مطمئن ہیں کہ اُن کے ملک شام میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی کوئی اطلاع نہیں ملی لیکن وہ اس سب کے ساتھ اپنے لوگوں کے لیے انتہائی فکرمند بھی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے خوشی ہے کہ اسد کی حکومت اب نہیں رہی لیکن مجھے تنازعات، انتہا پسندی اور جنونیت کے عروج سے ڈر لگتا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہReuters
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں۔ جہاں گزشتہ حکومت کے دوران نقل مکانی کرنے والے سیکڑوں شامی اپنے ملک واپس جانے کا ارادہ کر رہے ہیں، وہیں پیر کو یہ اطلاع ملی تھی کہ سینکڑوں شامی بھی اپنا ملک چھوڑنے کا ارادہ کر رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے لبنانی سرحد پر پہنچ چُکے ہیں۔
شام اور لبنان کی سرحد سے موصول ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت سے شامی جو اپنے ملک کو چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہاں سے لبنان میں داخل ہونے کے لیے مسانق کی سرحد پر موجود ہیں۔
،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/REX/Shutterstock
بیروت کے سرکاری میڈیا کے مطابق پیر کو لبنان کے وزیر مملکت بسام مولوی نے ملک کے انتظامی اداروں کو خبردار کیا کہ ’لبنان میں شامیوں کے غیر قانونی داخلے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔‘
دمشق کے شہریوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ سنیچر کی رات کس اضطراب میں شامی دارالحکومت سے آنے والی خبروں کا انتظار کر رہے تھے۔
باغیوں کے قریب آنے کی اطلاعات کے کئی گھنٹوں بعد باغی فوجوں نے اتوار کی صبح دمشق کو بشار الاسد کی حکمرانی سے آزاد قرار دیا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز (بی بی سی ان کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے) میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ سڑکوں پر باغی جنگجوؤں کو خوش آمدید کہہ رہے اور ان کا استقبال کرتے ہیں اس کے علاوہ بدنام زمانہ صیدنایا جیل سے قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔
ہیومنز آف دمشق کے فیس بک پیج کو چلانے والی رانیہ کتاف کا کہنا ہے کہ 'گذشتہ رات شام میں اور بیرون ملک رہنے والا کوئی شامی نہیں سویا۔'
ہر جگہ رہے والے شامی خبروں کے انتظار میں اپنے فون ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے۔
'میں کیسا محسوس کر رہی ہوں؟ ابھی میں اپنے جذبات کی ترجمانی نہیں کر سکتی۔۔۔ ہم سب کو ایسا لگتا ہے جیسے 13 سال سے ہم پانی کے نیچے رہ رہے تھے۔۔۔ اور اب ہم نے سانس لیا ہے۔'
'اور میں جانتی ہوں کہ بہت سارے لوگ ہیں جو مجھ سے عمر میں بڑے ہیں انھوں نے بہت کچھ سہا ہے۔'
وہ کہتی ہیں کہ جب باغی گروپوں کی طرف سے جارحیت شروع ہوئی اس وقت ان کے 'ملے ملے جذبات' تھے لیکن اب وہ خوفزدہ نہیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ماضی میں وہ اپنی رائے شئیر کرنے سے ڈرتی تھیں 'میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کی کسی پوسٹ پر لائیک یا ہارٹ ایموجی بنانے سے بھی ڈرتی تھی۔'
،تصویر کا ذریعہDanny Makki
’پہلی بار آزادی کا حقیقی احساس ہو رہا ہے‘
دمشق میں رہنے والے ایک صحافی ڈینی مکی نے اتوار کی صبح اموی سکوائر کے مناظر کو بیان کیا جہاں وزارت دفاع اور شامی مسلح افواج سمیت اہم سرکاری ادارے موجود ہیں: 'لوگ ہوائی فائرنگ کر رہے تھے، ناچ رہے تھے، فوٹوز کھینچ رہے تھے اور رو رہے تھے۔'
'میں نے ملیشیا کے سپاہیوں سے بات کی۔ ایک نے بتایا کہ وہ کافی عرصے سے اس کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ حلب میں ہونے والی لڑائی کا حصہ نہیں تھا لیکن جب اس نے باغیوں کو دمشق کے مضافات میں آتے دیکھا تو اس نے ہتھیار اٹھا لیے۔'
ان کا کہنا تھا کہ باغی جنگجوؤں میں سے کچھ شامی فوج کی لاوارث چھوڑی گئی گاڑیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
'جب میں دمشق کے ارد گرد گاڑی چلا رہا تھا تو میں نے شامی فوج کو شہری لباس میں سڑک پر چلتے ہوئے دیکھا، ایسے لگ رہا تھا کہ انھیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ کہاں جانا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ لوگ جشن منا رہے ہیں لیکن انھیں سکیورٹی کے حوالے سے تشویش بھی ہے اور وہ یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کی صفوں میں کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو۔
دمشق کے ایک اور رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا: 'پہلی بار آزادی کا حقیقی احساس ہو رہا ہے۔'
'ہم ویسا ہی محسوس کر رہے ہیں جیسا ہم نے 2011 میں شروع ہونے والے انقلاب کے دوران محسوس کیا تھا۔ یہ اسی خواب کا تسلسل ہے جو اس سال شروع ہوا تھا۔'
انھوں نے کہا کہ شامی خوف میں ہیں اور مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں لیکن 'آج تمام شامی عوام صرف جشن منائیں گے۔'
،تصویر کا ذریعہRania Kataf
’لوگوں کو لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں، ہم آج سے پہلے بہت ڈرتے تھے‘
جنوب کی جانب یزان العماری درعا شہر میں ایک چھوٹی سی فون کی دکان چلاتے ہیں جہاں حیات تحریر الشام سے وابستہ ملیشیا پہلے ہی کنٹرول حاصل کر چکی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ آج جشن منانے کے لیے دوستوں کے ساتھ شام کے دارالحکومت جا رہے ہیں۔
'جب ہم بیدار ہوئے اور خبر دیکھی تو پہلے تو ہم اسے پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔۔ ہم افواہوں سے بہت خوفزدہ تھے۔'
'لیکن جب ہمیں احساس ہوا کہ یہ حقیقت میں سچ ہے تو ہم اپنی گاڑیوں میں سوار ہو گئے اور اب ہم جشن منانے کے لیے دمشق جا رہے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ لوگوں کو ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں 'لوگ رو رہے تھے۔۔۔ ہم آج سے پہلے تک بہت ڈرتے تھے۔'
العماری کا کہنا ہے کہ کئی سالوں بعد یہ پہلا موقع ہے جب وہ آزادانہ طور پر بات کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا 'میں اپنے چھوٹے سے شہر کو چھوڑنے یا آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرنے سے قاصر تھا۔ لیکن اب میں جہاں چاہوں جا سکتا ہوں۔'
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ہم آرتھوڈوکس میسحی ہیں، مجھے ڈر ہے کہ میرے خاندان کو ذبحہ کر دیا جائے گا‘
لیکن بہت سے لوگوں کو مستقبل کی غیر یقینی کا خوف بھی ہے۔
لندن میں ایک شامی شخص نے مجھے شام کے ساحلی علاقے میں رہنے والے اپنے خاندان کے خوف کے بارے میں بتایا۔
اس شخص نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'ہم مشرقی آرتھوڈوکس میسحی ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ میرے خاندان کو ذبحہ کر دیا جائے گا۔'
'ہر کوئی گھبرایا ہوا ہے اور وہ ملک سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'
ان کا خاندان شام چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے لیکن لبنان اور اردن کے ساتھ سرحدیں بند ہیں۔
انھوں نے بتایا 'بیگ پیک ہیں۔ ہم صرف اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ہوائی اڈہ کسی اردگرد کے ملک کے لیے پروازیں کھولے۔ یا زمینی سرحدیں کسی خاص گروہ (اقلیت) کو شام سے جانے کی اجازت دے دیں۔'
،تصویر کا ذریعہGetty Images
لوگ خوف کی وجہ سے جشن منا رہے ہیں ’انھیں ڈر ہے اگر وہ خوشی ظاہر نہیں کرتے تو انھیں قتل کر دیا جائے گا‘
انھوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ خوف کی وجہ سے جشن منا رہے ہیں۔
'وہ جشن منا رہے ہیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ اگر وہ اپنی خوشی ظاہر نہیں کرتے تو انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ ایک طرف ہم سب خوش ہیں کہ حکومت ختم ہو گئی ہے، دوسری طرف ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ متبادل حکومت کیسی ہو گی؟ آخرگار یہ باغی گروہ القاعدہ کی ایک شاخ ہے۔'
ملک کے بڑے حصے پر قبضے کرنے والے گروپ ہیئت تحریر الشام کا کہنا ہے کہ مسیحیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
تاہم اس شخص کا کہنا تھا کہ انھیں یقین نہیں ہے کہ یہ بیان کس حد تک درست ہے۔
بشارالاسد کے بعد دمشق کی سڑکوں پر کیا مناظر ہیں؟
جب بی بی سی کی ٹیم دمشق پہنچی تو گاڑیوں کا ہجوم تھا۔۔۔ کوئی نعرے مار رہا ہے اور کوئی باغیوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔
راتوں رات دمشق کے گرنے اور شام کے صدر کے فرار ہونے کی خبریں سنتے ہی لبنان میں موجود شامی دارالحکومت کے قریب ترین سرحدی کراسنگ المصنع کی طرف بھاگے۔
یہاں پہنچے تو ہمارے ارد گرد کے لوگوں میں بہت جوش و خروش تھا اور اسی کے بیچ گھنگریالے بالوں والا ایک لمبے آدمی سے ملاقات ہوئی جو دوسری طرف جانے کی کوشش کر رےہ تھے۔۔۔ وہ رو رہے تھے۔
اس شخص کا نام حسین تھا اور وہ صدر بشار الاسد کے حامی تھے۔۔ وہ ڈرے ہوئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ وہ ہمیں مار سکتے ہیں۔۔۔ ہر طرف افراتفری ہے۔'
'باغیوں کا کہنا ہے کہ جو بھی حکومت یا فوج کے ساتھ کام کرتا تھا وہ اسے محفوظ راستہ دیں گے لیکن کوئی نہیں جانتا آگے کیا ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو انھیں بھی اس عمل کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔'
وہ اپنے خاندان کو بھی اپنے ساتھ لائے تھے لیکن ان کے پاس لبنان میں داخل ہونے کے لیے کاغذات نہیں تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فرار ہونے والے فوجی جیپییں، ٹینک اور وردیاں تک سڑکوں پر چھوڑ گئے
ایک گھنٹے بعد ہم شام میں داخل ہوئے۔ دمشق تک جانے کا راستہ کھلا تھا۔ جب ہم دارالحکومت کے قریب پہنچے تو ہم پیچھے ہٹتی فوج کے نشانات دیکھ سکتے تھے۔۔۔ فوجی جیپیں اور ٹینک چھوڑ گئے تھے۔۔ سڑکیں فوجی وردیوں نے بھری ہوئی تھیں جنھیں وہ پھاڑ کر سڑک پر پھینک گئے تھے۔
گلیوں میں ٹریفک تو تھی لیکن دکانیں بند تھیں۔ لوگ اموی سکوائر میں جمع تھے۔
مسلح افراد جشن کی مسلسل گہما گہمی میں ہوائی فائرنگ کر رہے تھے۔ ہم نے اسی فائرنگ کے نتیجے میں ایک چھوٹے لڑکے کو زخمی ہوتے دیکھا۔
شہری اپنی گاڑیوں میں گھوم رہے تھے اور امن کے پلے کارڈز لہرا رہے تھے۔۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بشار الاسد چلے گئے ہیں لہذا اب حالات بہتر ہو جائیں گے۔
ایک بوڑھی عورت رو رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں 'شکریہ، شکریہ' وہ دعا مانگتے ہوئے بولیں 'ظالم کی حکومت گر گئی، ظالم کی حکومت گر گئی۔'
انھوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کے بہت سے لوگ اسد کی حکومت میں مارے جا چکے ہیں اور کچھ جیلوں میں تھے۔
ہم چار چھوٹے بچوں کے ساتھ موجود ایک جوڑے کے پاس پہنچے۔ ان کے والدین خوشی سے بولے 'یہ ایک ناقابل بیان احساس ہے۔ ہم بہت خوش ہیں۔'
اس جوڑے میں موجود مرد کا کہنا تھا 'ہم نے اپنی تمام زندگیاں آمریت کے زیرِ اثر گزاری ہیں۔ ہم 2014 میں جیل میں تھے اور اب ہم خدا کا شکر ادا کر رہے ہیں۔ ہم اپنے جوانوں، اپنے جنگجوؤں کی وجہ سے جیت گئے ہیں اور اب ہم شام کو عظیم ترین بنانے جا رہے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا کہ 'ہم اپنی ان بہنوں اور بھائیوں کو جو ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں، یہ پیغام دیتے ہیں کہ واپس آجائیں۔ ہمارے دل اور گھر کے دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں۔'
بشار الاسد کا ٹھکانہ اس وقت تک ایک معمہ رہا جب تک کہ روس نے یہ اعلان نہیں کیا وہ ماسکو پہنچ گئے ہیں۔ ہم نے دمشق میں ان رہائش گاہ کا دورہ کیا جو اب سیاحت کا مقام بن چکی ہے۔ اور جہاں سے ہر قیمتی چیز چرا لی گئی ہے۔'
ہم نے لوگوں کو فرنیچر لیجاتے دیکھا اور کوئی بھی انھیں روکنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ باغی آزادی تو لائے ہیں لیکن سکیورٹی نہیں۔
شہریوں کو امن کی امید مگر وہ آنے والے دنوں کی غیر یقینی سے خوف زدہ بھی ہیں
لٹیرے آس پاس کی دوسری عمارتوں میں بھی گھس رہے تھے۔ اور ایسے ہی عوامل ملک میں کسی کسی حکومت کے نہ ہونے کے متعلق بے چینی کو بڑھا رہے ہیں۔
اپنے پڑوسیوں کے ساتھ باہر کھڑے تین بچوں کے ایک 36 سالہ والد علا دادوچ نے کہا 'اقتدار کی منتقلی مناسب اور درست طریقے سے ہونی چاہیے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'میں اب بھی بشار الاسد کا ذکر کرنے سے ڈرتا ہوں۔ لیکن جس طرح وہ ملک چھوڑ گئے ہیں یہ خود غرضی ہے۔ ہمارے صدر کو ایسے ضروری اور مناسب اقدامات کرنے چاہیے تھے جن کے تحت نئے صدر کے آنے تک فوج یا پولیس کا کنٹرول برقرار رہتا۔'
'ان کا کہنا تھا 'دو دن پہلے تک میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ خود غرض ہیں۔ یہ میرے لیے مسئلہ بن جاتا۔ اور بہت کچھ بدل چکا ہے۔'
'اب آپ سانس لے سکتے ہیں، گھوم پھر سکتے ہیں۔ آپ اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ آپ خوفزدہ ہوئے بغیر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو کیا پریشان ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ ایک اچھی تبدیلی ہے۔ لیکن ہم 13 سال سے جھوٹی امید کے تحت خانہ جنگی میں زندگی گزار رہے تھے۔'
یہ ملک خوشی اور خوف کے بیچ میں کہیں پھنسا ہوا ہے۔۔۔ شہریوں کو امن کی امید بھی ہے اور وہ آنے والے دنوں کی غیر یقینی کو لے کر خوف زدہ بھی ہیں۔
گیارہ سال پہلے میں نے دمشق چھوڑ دیا تھا اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کبھی یہاں واپس آؤں گی بھی یا نہیں۔
اُس وقت یہ شہر جنگ کی لپیٹ میں تھا۔ اُس وقت صدر بشار الاسد کی جانب سے جمہوریت کے حق میں مظاہروں میں شامل افراد پر وحشیانہ کریک ڈاؤن کے بعد شدید تشدد نے دارالحکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حالات اس نہج پر پہنچ چُکے تھے کہ کسی بھی وقت آپ کو راہ چلتے گولی مار کر ہلاک کیا جا سکتا تھا۔
بی بی سی کی دمشق میں موجود مشرق وسطیٰ کی نامہ نگار لینا سنجاب نے شام کے دارلحکومت دمشق میں 2011 میں ہونے والے مظاہروں کے بارے میں شام کے اندر سے بی بی سی کو زمینی حقائق پہنچانے کا کام کیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ’تلخیوں سے بھرپور ایام‘ میں رپورٹنگ کی۔ پھر فائرنگ، قتل، گمشدگیوں، فضائی حملوں اور بیرل بموں کے بارے میں بھی خبریں پہنچانے کا کام کیا۔ یہاں تک کہ میں خود بے حس ہو چکی تھی اور اندر ہی اندر کہیں اُمید بھی کھو بیٹھی تھی۔‘
لینا سنجاب کہتی ہیں کہ ’مجھے کئی بار گرفتار کیا گیا۔ حکومت نے میری نقل و حرکت کو محدود کر دیا اور مجھے دھمکیاں دیں پھر سنہ 2013 میں مجھے وہ شہر چھوڑنا پڑا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ ایک دہائی کے دوران میں نے اپنے آپ کو اُمید اور مایوسی کے درمیان پایا ہے۔ اپنے ملک کو بیرون ملک سے الگ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ موت، تباہی، قید یہاں سب کُچھ دیکھا۔ لاکھوں لوگوں کو یہاں وہاں بے چینی کے عالم میں بھاگتے دیکھا، یہاں تک کہ اُنھوں نے اپنا گھر بار چھوڑا اور ہنستے بستے گھروں سے نکل کر انھیں پناہ گزینوں کے طور پر زندگی گُزارنی پڑی۔
بہت سے شامیوں کی طرح مجھے بھی ایسا لگانے لگا تھا کہ بس اب ہم دنیا سے کٹ گئے ہیں اور دُنیا ہمیں بھول گئی ہے۔ حتیٰ کہ اُمید کی کوئی کرن یا تاریکی کے ختم ہونے کی کوئی اُمید تک نہیں تھی۔
جب لوگ حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ روس اور ایران میں صدر اسد کے طاقتور حامیوں کے ہوتے ہوئے کبھی ایسا ہوگا۔
میں حراست میں لیے جانے کے خوف کے بغیر سرحد پار کر کے شام میں داخل ہوئی۔ جب میں دمشق سے بی بی سی کے لیے آن ایئر ہوئی تو میں بغیر کسی خوف کے اپنی ذمہ داری ادا کی اور بی بی سی کے لیے رپورٹنگ کی۔
دمشق کی فضا میں خوشی کا احساس ہے، اس کے باوجود کہ مُلک پر باغیوں کا کنٹرول ہے اور کیا وہ ملک میں سلامتی کو یقینی بنائیں گے یا نہیں۔ باغی گروہ ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے جنگجوؤں نے صدارتی محل پر ہجوم کے حملے کے بعد سرکاری اداروں کو لوٹ مار سے بچایا ہے اور قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
علوی برادری کے کچھ لوگ جو طویل عرصے سے بشار الاسد کی حمایت کر رہے ہیں اس بارے میں فکرمند ہیں کہ اب اُن کا کیا ہوگا لیکن اب تک فرقہ وارانہ تشدد کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
دمشق چھوڑ کر چلے جانے والے میرے دوست اور اہلِ خانہ اب اتوار سے مجھے میسج کر رہے ہیں اور کہ رہے ہیں کہ وہ واپس آ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی گھر واپس جانا چاہتا ہے۔
جب میں نے آخری بار جنوری میں شام میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی تو مُجھے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی تھیں اور کہاں گیا تھا کہ ’مُجھے زمین کی سات تہوں میں دفنا دیا جائے گا اور کسی کو اس بارے میں پہ بھی نہیں چلے گا کہ میرے ساتھ کیا ہوا‘۔
تاہم اب جب میں اپنے مُلک واپس آئی ہوں تو نہ وہ سکیورٹی افسران اور اہلکار نہ ہی تفتیش کار جنھوں نے مجھے دھمکیاں دیں تھیں۔ میں حیران ہوں کہ اب وہ کہاں ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شامی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے دارالحکومت دمشق سمیت ملک بھر میں درجنوں حملے کیے ہیں۔
برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے شام میں 100 سے زائد فوجی اہداف پر حملے کیے گئے ہیں۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق جن مقامات پر اسرائیل کی جانب سے حملے کیے گئے ہیں اُن میں کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کا ایک تحقیقی مرکز بھی شامل ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ہتھیاروں کو ’شدت پسندوں کے ہاتھوں‘ جانے سے روکنے کے لیے کارروائی کر رہا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس شام میں معزول صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد ملک کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ہو رہا ہے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو دنوں کے دوران اسرائیل کی جانب سے شام میں سینکڑوں فضائی حملے کیے گئے ہیں جن میں دمشق کے اُس مقام کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے کہ جس کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسے ایرانی سائنسدان راکٹس کی تیاری کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں کے نگران ادارے نے شام میں حکام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کیمیائی ہتھیاروں کے مشتبہ ذخیرے محفوظ ہیں۔
شام نے سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کے کیمیائی نگران ادارے او پی سی ڈبلیو کے کیمیائی ہتھیاروں کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کیے تھے جو دارالحکومت دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے ایک ماہ بعد ہوا تھا جس میں اعصابی ایجنٹ سارین شامل تھا اور 1،400 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس حملے میں تڑپتے ہوئے متاثرین کی ہولناک تصاویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ یہ حملہ صرف حکومت کی جانب سے کیا جا سکتا تھا لیکن اسد نے اس کا الزام حزب اختلاف پر عائد کیا۔
سنہ 2018 میں بی بی سی کے تجزیے سے اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ سنہ 2014 سے سنہ 2018 کے درمیان شام کی خانہ جنگی میں کم از کم 106 مرتبہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔
شام پر قبضہ کرنے والے باغی گروپ کے رہنما نے اقتدار کی منتقلی میں تعاون کے لیے سابق وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے۔
باغیوں کی ملٹری آپریشنز کمانڈ کی جانب سے جاری کی گئی فوٹیج میں ابو محمد الجولانی کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اقتدار کی منتقلی کے دوران پرانی حکومت کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔
الجولانی نے کہا ’نوجوانوں نے اب کافی تجربہ حاصل کر لیا ہے۔‘
’ادلب چھوٹا شہر ہے اور وہاں اتنے وسائل نہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہم کچھ بڑا کرنے میں کامیاب رہے۔ آپ کو تجربہ نظر آئے گا۔‘
’تاہم ہم پرانی انتظامیہ کو مکمل ختم نہیں کریں گے اور ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ترکی کے صدر طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ ترکی لاکھوں شامی تارکین وطن کی رضاکارانہ واپسی میں مدد کے لیے شام کے ساتھ سرحدی گیٹ دوبارہ کھول رہا ہے۔
ترکی کے صوبہ ہاتے میں واقع یالادگی سرحدی گیٹ دونوں ممالک کے درمیان ایک کراسنگ پوائنٹ ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ترکی میں تیس لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین موجود ہیں۔