یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے!
بی بی سی اردو کی شام کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ روز کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
روسی سرکاری خبر رساں اداروں نے کریملن میں ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ معزول شامی صدر بشارالاسد اور ان کی فیملی ماسکو پہنچ چکے ہیں۔ بی بی سی تاحال ان معلومات کی آزادانہ تصدیق نہیں کر پایا۔
پیشکش: محمد صہیب اور اعظم خان
بی بی سی اردو کی شام کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ روز کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
روس کا کہنا ہے کہ وہ شامی حزبِ اختلاف کے گروہوں کے ساتھ روابط بحال رکھے ہوئے ہے اور ان کی جانب سے روس کے فضائی اڈوں کی سکیورٹی کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ تاہم صورتحال اتنی بھی آسان نہیں ہے۔
اس وقت شام میں کُل 7500 روسی فوجی تعینات ہیں جن میں سے اکثر اہم روسی ملٹری تنصیبات پر موجود ہیں جن میں طرطوس اور لاذقیہ شامل ہیں۔
تاہم کئی درجن روسی فوجی جن میں سے اکثر ایلیٹ سپیشل فورسز کے آپریٹرز ہیں شام میں مختلف جگہوں پر ہیں۔ ان میں سے کچھ یونٹس باغیوں کی پیش قدمی کے دوران روسی اڈوں کے قریب آنے میں کامیاب ہو گئی تھیں تاہم درجنوں اب بھی مرکزی گروپ سے الگ ہو گئے تھے۔
ان معلومات کی تصدیق دو ریٹائرڈ روسی افسران نے کی ہے جو شام میں فوجیوں کے براہ راست رابطے میں ہوتے ہیں۔ ان دونوں نے ہی اس بارے میں اپنے بلاگز میں لکھا ہے۔
تاہم فجوی اڈوں کا مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے۔ بی بی سی روسی کی جانب سے جن سیٹیلائٹ امیجز کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تارتوس میں بحری اڈے سے اکثر روسی بحری جہاز تین دسمبر تک جا چکے تھے۔
دوسری جانب لاذقیہ میں جنگی طیارے ایئرفیلڈ میں اب بھی موجود ہیں۔ اس حوالے سے غیر مصدقہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ کل سے یہاں سے طیاروں اور فوجیوں کا انخلا شروع ہو گا۔
روسی حکام نے تاحال ان رپورٹس کے بارے میں بات نہیں کی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ صدر بشار الاسد کے اقتدار کا تختہ الٹنا ایک تاریخی موقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روس، ایران اور نہ ہی حزب اللہ اس ریجیم کو بچانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔
بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکہ تمام شامی گروہوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
روسی سرکاری خبر رساں اداروں نے کریملن میں ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ معزول شامی صدر بشارالاسد اور ان کی فیملی ماسکو پہنچ چکے ہیں۔
روسی خبررساں اداروں کی اطلاعات کے مطابق بشارالاسد اور ان کے خاندان کو روس میں پناہ دے دی گئی ہے۔
بی بی سی تاحال ان معلومات کی آزادانہ تصدیق نہیں کر پایا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس کا 24 گھنٹے پہلے تک کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ پیشگی اطلاع اور انتظامات کے بغیر ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے پرانے دمشق میں تاریخی مسجدِ اموی کا اچانک دورہ کیا۔
عسکریت پسند تنظیم کے سربراہ کو اتنے قریب سے دیکھنا خاصا غیر معمولی تھا۔ یہ مسجد کئی دہائیوں سے ایک ایسی علامتی جگہ تھی جہاں بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد عید کی نماز پڑھنے جایا کرتے تھے۔
آج الجولانی کے گرد ان کے سینکڑوں جنگجو اور ذاتی گارڈز موجود تھے جب وہ مسجد میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے مغرب کی نماز پڑھی اور وہاں موجود نمازیوں سے مختصر خطاب کیا تو اس دوران فتح اور اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوئے۔
اس سے قبل جولانی نے شہر کے اہم علاقوں کا دورہ کیا تھا جن میں اموی سکوائر بھی شامل تھا جس کے گرد شام کی اہم سرکاری عمارتیں موجود ہیں جیسا کہ سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارت اور جنرل سٹاف ہیڈکوارٹر۔ یہاں بھی انھوں نے نماز پڑھی اور اس کے بعد اپنا بقیہ دورہ جاری رکھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
میں اس وقت سکوائر میں موجود تھا تاہم ان کے گارڈز نے ہر کسی کو ان سے دور ہی رکھا۔
جہاں اکثر شامیوں نے ان کی فتح پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے اہم ترین موڑ قرار دیا، وہیں ان کے جشن میں اضطراب کی جھلک بھی موجود تھی اور وہ اس غیر یقینی کا باعث تھی جو انھیں مستقبل میں دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
جب جولانی کا دورہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا تو آسمان پر گہرے دھوئیں کے بادل تھے جو مستقبل کو مزید غیر یقینی بنا رہے تھے اور آنے والے دنوں اور ہفتوں کے بارے میں سوالات کو جنم دے رہے تھے۔
فوجی لباس میں ملبوس جولانی نے اس دورے کے ذریعے خود کو دمشق کے سربراہ کے طور پر دکھانے کی کوشش کی، وہ ایک ایسے شہر اور ایسی قوم سے مخاطب تھے جو بشارالاسد اور البعث ریجیم کے ہاتھوں دہائیوں سے مظالم کا سامنا کر رہی تھی۔ صرف دو ہفتوں میں یہ ریجیم ختم ہو گئی اور صرف اس کی یاد ہی باقی رہ گئی۔
تاہم جولانی کے متنازع جہادی ماضی کے باعث سوال اب بھی برقرار ہے کہ کیا وہ دارالحکومت اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر کامیابی سے حکمرانی کر پائیں گے؟
،تصویر کا ذریعہBBC/Getty Images
شام کے دارالحکومت دمشق پر باغیوں کی جانب سے قبضہ کرنے کے چند گھنٹوں بعد اس کے اتحادی ملک روس نے اعلان کیا ہے کہ صدر بشار الاسد اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد شام چھوڑ چکے ہیں۔
روس کی وزارتِ خارجہ نے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں دیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں لیکن یہ سرکاری طور پر پہلی تصدیق تھی کہ وہ ملک چھوڑ چکے ہیں۔
آخری مرتبہ بشار الاسد کی تصویر ایک ہفتہ قبل ایرانی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے دوران سامنے آئی تھی۔ اس روز انھوں نے تیزی سے ملک کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے والے باغیوں کو 'کچلنے' کا اعادہ کیا تھا۔
اتوار کو علی الصبح جب جنگجوؤں نے دمشق شہر میں بغیر کسی مزاحمت میں داخل ہو رہے تھے تو عسکریت پسند گروہ ہیئت تحریر الشام اور ان کے اتحادیوں نے اعلان کیا کہ 'ظالم بشار الاسد (شام) چھوڑ گئے ہیں۔'
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شام کے دارالحکومت دمشق میں دوسرے بڑے دھماکے کی گونج سنائی دی ہے۔
اس سے قبل ہونے والے دھماکے کے بارے میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ اسرائیل نے دمشق کے ضلع كفر سوسہ میں ایک بڑے سکیورٹی کملیکس پر حملہ کیا ہے جس کے ساتھ ایک تحقیقاتی مرکز بھی ہے جہاں اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ایرانی سائنسدان میزائل بناتے تھے۔ تاہم ہم ان دعوؤں اور اطلاعات کی تصدیق نہیں کر سکے۔
تاہم ہمیں ایک جگہ آگ ضرور نظر آئی جس کے باعث مزید چھوٹے دھماکے بھی ہوئے۔
روئٹرز کی جانب سے خطے میں دو سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے دمشق میں ایک بڑے سکیورٹی کمپلیکس اور ایک تحقیقاتی مرکز پر تین فضائی حملے کیے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے شام میں بشار الاسد کے ’زوال‘ کو مشرق وسطیٰ کے لیے ’تاریخی دن‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ’ایران کی مزاحمت کے محور کی مرکزی کڑی‘ توڑ دی گئی ہے۔
انھوں نے اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ان حملوں کا براہ راست نتیجہ ہے جو ہم نے اسد کے اہم حامیوں ایران اور حزب اللہ پر کیے ہیں۔ اس اقدام نے پورے مشرق وسطیٰ میں ایک سلسلہ وار ردِعمل شروع کر دیا ہے اور اس جابرانہ حکومت سے آزادی کے خواہاں لوگوں کو بااختیار بنایا ہے۔‘
بنیامن نیتن یاہو نے یہ بھی اعلان کیا کہ انھوں نے اسرائیلی فوج کو گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی بفر زون پر قبضہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اسرائیل اور شام کے درمیان 1974 کا علیحدگی کا معاہدہ 50 سال سے جاری تھا، لیکن یہ کل رات ٹوٹ گیا۔ شامی فوج نے اپنی پوزیشنز چھوڑ دیں۔ ہم نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا کہ وہ ان پوزیشنوں پر قبضہ کر لیں تاکہ اسرائیلی سرحد کے ساتھ دشمن افواج کی ممکنہ دراندازی کو روکا جا سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک عارضی دفاعی پوزیشن ہے جب تک کہ اس مسئلے کا کوئی مناسب حل نہیں مل جاتا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شام کے صدر بشار الاسد کی زندگی میں بہت سے اہم لمحات ہیں لیکن شاید سب سے زیادہ متاثر کن وہ کار حادثہ تھا جو اس مقام سے ہزاروں کلومیٹر دور پیش آیا جہاں وہ رہ رہے تھے۔
بشار الاسد کو ابتدائی طور پر اپنے والد سے وراثت میں اقتدار سنبھالنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ 1994 کے اوائل میں دمشق کے قریب ایک کار حادثے میں ان کے بڑے بھائی باسل کی موت کے بعد شروع ہوا۔
اس وقت بشار لندن میں امراض چشم کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
باسل کی موت کے بعد چھوٹے بھائی کو شام میں اقتدار کے وارث کے طور پر تیار کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ بعد میں انھوں نے ایک جنگ کے ذریعے ملک کی قیادت کی۔۔۔ ایک ایسی جنگ جس میں لاکھوں جانیں گئیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔
لیکن بشار الاسد ڈاکٹر سے ایک ایسے آمر رہنما میں کیسے تبدیل ہوئے جس پر جنگی جرائم کا الزام ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک ہفتہ قبل تک شام کے حکمران بشار الاسد کا تختہ اُلٹنا ناقابل تصور تھا۔ اس وقت باغیوں نے شمال مغربی شام میں ادلب کے گڑھ سے اپنی جارحانہ مہم شروع کی تھی۔
یہ شام کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے والد نے 29 سال تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔
بشار الاسد کو وراثت میں ہی ایک ایسا ملک ملا جہاں حکومت کا کنٹرول سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس کے بارے میں ناقدین مخالفین کو دبانے کا الزام لگاتے تھے۔ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔
پہلے یہ امید تھی کہ چیزیں مختلف ہوں گی، سب کام شفافیت سے ہوں گے اور ظلم کم ہوگا۔ مگر یہ توقعات دیر تک قائم نہ رہ سکیں۔
اسد کو ہمیشہ ایک ایسے آدمی کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011 میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور 60 لاکھ بے گھر۔
،تصویر کا ذریعہTaliban
افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت خارجہ نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے پر ’تحریک کی قیادت اور شام کے عوام‘ کو مبارکباد دی ہے۔
وزارت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ اقتدار کی منتقلی کا عمل اسی طرح آگے بڑھے گا جس طرح شامی عوام چاہتے ہیں اور ایک آزاد، فلاحی اسلامی نظام کے قیام کی راہ ہموار ہو گی۔
آج مشرقی افغانستان کے شہر جلال آباد میں طالبان کے متعدد حامیوں نے جھنڈے اٹھا کر بشار الاسد کے مخالف گروہوں کی فتح کا جشن منایا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں عسکریت پسند تنظیم ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کو دمشق کی مسجدِ اموی میں اب سے کچھ دیر قبل کارکنوں سے خطاب کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جب الجولانی مسجد میں داخل ہوا تو عمارت اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہم اس سے پہلے یہ رپورٹ کر چکے ہیں کہ دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے پہلے بیان میں جولانی نے کہا تھا کہ ’اب واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اب مستقبل ہمارا ہے۔‘
ابو محمد الجولانی کون ہیں؟
دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد عسکریت پسند تنظیم ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کی جانب سے جاری ہونے والے پہلے بیان میں کہا گیا ہے کہ اب واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اب ’مستقبل ہمارا ہے۔‘
جب نومبر کے اختتام پر شام کے شہر حلب پر حکومت مخالف باغیوں قبضہ ہوا تو اس حملے کی قیادت کرنے والے ایک باریش شخص کی تصاویر منظر عام پر آئیں جس نے عسکری لباس زیب تن کر رکھا تھا۔
اس شخص کا نام ابو محمد الجولانی ہے، جو ہیئت تحریر الشام نامی گروہ کے سربراہ ہیں۔
وہ جس گروہ کی وہ سربراہی کر رہے ہیں اس پر مغربی ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ اور چند مسلم ممالک نے بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اسے ’دہشت گرد گروہ‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دمشق میں مسلح گروپ نے اٹلی کے سفارتخانے کا گھیراؤ کر لیا ہے۔
اب اٹلی کے وزیر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ مسلح گروپ ان کے سفیر کے گھر داخل ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے انسا کے مطابق انتونیو تیجانی نے صحافیوں کو بتایا کہ اتوار کی صبح مسلح گروپ اٹلی کے سفیر کے گھر کے صحن میں داخل ہوا۔
ان کے مطابق ’یہ گروپ اپنے ساتھ تین کاریں لے کر چلا گیا۔ انھوں نے نہ تو سفیر کو اور نہ ہی ملٹری پولیس کو کچھ کہا۔‘
واضح رہے کہ اس سے قبل دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر بھی حملے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ دوسری جانب عراق نے بھی دمشق میں اپنا سفارتخانہ خالی کرا دیا ہے۔
کچھ نئی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں شام کے دارالحکومت دمشق میں لوگوں کو معزول صدر بشارالاسد کی رہائش گاہ کے اندر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصاویر سے واضح ہوتا ہے کہ اس رہائش گاہ سے لوگ سامان بھی لوٹ رہے ہیں۔
یہ تصاویر دمشق میں موجود بی بی سی کے رپورٹرز نے بھیجی ہیں جن میں اس رہائش گاہ کے اندرونی مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وقت دمشق میں کرفیوں کا نفاذ جاری ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
شامی باغیوں کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دمشق میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ مقامی وقت کے مطابق یہ کرفیوں چار بجے نافذ کیا گیا۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کرفیو ہٹایا جائے گا۔
ہیئت تحریر الشام کے باغی رہنما نے شام کے ٹی وی چینل پر اپنے پہلے بیان میں کہا ہے کہ ’مستقبل ہمارا ہے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ ابو محمد الجولانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’اب واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مستقبل ہمارا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
مغربی ممالک شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکخواں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’بالآخر جابر ریاست گر گئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں اس غیریقنی صورتحال میں شام کے عوام کو ان کی بہادری اور تحمل پر خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میں ان کی سلامتی، آزادی اور اتحاد کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ فرانس مشرق وسطیٰ میں سب کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمنی کے چانسلر اولاف شالز نے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ایک اچھی خبر ہے۔ انھوں نے شام میں استحکام کے لیے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
بشار الاسد نے ظالمانہ انداز سے اپنے عوام سے رویہ رکھا۔ انھوں نے کہا وہ کئی قیمتی زندگیوں کے خاتمے کے بھی ذمہ دار ہیں اور ان کی وجہ سے کئی لوگ ملک چھوڑ کر جرمنی آئے۔
برطانیہ کے نائب وزیراعظم انجیلا رینر کا کہنا ہے کہ اگر اسد حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے تو پھر برطانیہ اس پیشرفت کا خیر مقدم کرتا ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ بشارالاسد نے فریقین سے بات چیت کے بعد اقتدار سے علحیدگی اختیار کی۔ روس کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ بشارالاسد نے اپنا عہدہ اور ملک چھوڑنے سے قبل تنازع میں شریک تمام مسلح گروہوں سے بات چیت کی ہے۔
ماسکو کے مطابق ان مذاکرات کے نتیجے میں بشارالاسد نے پرامن منتقلی اقتدار کی ہدایات بھی دیں۔
روس کا کہنا ہے کہ وہ ان مذاکرات کا کسی بھی طور پر حصہ نہیں تھا اور یہ کہ روس کی شام میں فوجی اڈے ہائی الرٹ پر ضرور ہیں مگر انھیں کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تمام اپوزیشن گروہوں سے رابطے میں تھے۔
واضح رہے کہ روس بشارالاسد کا اہم اتحادی رہا ہے۔ اس سے قبل انھیں اقتدار میں رکھنے کے لیے ماسکو نے انھیں فوجی امداد کی بھی پیشکش کی تھی۔
بشارالاسد کے ملک چھوڑ جانے کی اطلاعات کے بعد شام میں اسد خاندان کے 50 برس کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اتوار کو جب شامی باغی دمشق میں داخل ہوئے تو اس وقت سرکاری فوج نے یا تو پسپائی اختیار کی یا پھر وہ ان باغیوں کے ساتھ مل گئی۔
باغیوں کی آمد کے بعد دمشق میں اس وقت مرکزی اموی سکوائر پر جشن منایا جا رہا ہے۔ اموی سکوائر وہ جگہ ہے جہاں سے سرکاری ٹی وی اپنی نشریات کرتا ہے۔
جشن کے طور پر اس وقت ہوائی فائرنگ بھی کی جا رہی ہے۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ صدارتی محل میں لوٹ مار بھی کی جا رہی ہے۔
دمشق کی سڑکوں پر جشن منایا جا رہا ہے اور باغی شام کی آزادی کے جھنڈے لہرا کر اپنی فتح پر بہت خوشی منا رہے ہیں۔
عام شہری گاڑیاں لے کر سڑکوں پر نکل آئے، جس سے امن کا تاثر ملتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اب زندگی کتنی خوشگوار ہو جاؤ گی۔ ان مظاہرین میں سے کچھ چلا رہے ہیں اور کچھ ہنس رہے ہیں۔
ہم نے ایرانی سفارتخانے کے باہر دو نوجوانوں سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت خوش ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بشارالاسد کے دور میں زندگی بہت اجیرن تھی اور وہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہے تھے۔ مگر اب بہتری آنے کے امکانات ہیں۔