پاکستان 500 رنز بنا کر بھی اننگز سے ٹیسٹ میچ ہارنے والی دنیا کی پہلی کرکٹ ٹیم بن گئی

شان مسعود

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپاکستان ہوم گراؤنڈ پر گذشتہ 11 ٹیسٹ میچوں میں سے ایک بھی نہیں جیت سکا ہے

ملتان میں جب جمعے کی صبح پاکستانی ٹیم پہلے کرکٹ ٹیسٹ میں اپنی دوسری اننگز مکمل کرنے کے لیے میدان میں اتری تو مبصرین ہوں یا شائقین سب کو ایک ہی خدشہ تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا ایک اور برا ریکارڈ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے حصے میں آنے والا ہے۔

یہ ریکارڈ ٹیسٹ کرکٹ کی 147 سالہ تاریخ میں کسی ٹیسٹ میچ میں 500 رنز کا مجموعہ بنانے کے بعد بھی اننگز کی شکست کے ہزیمت سے دوچار ہونے کا تھا اور میچ کے آخری دن کھانے کے وقفے سے قبل ہی یہ پاکستان کے نام ہو گیا۔

ملتان ٹیسٹ میں پاکستان کو پہلی اننگز میں 556 رنز بنانے کے باوجود ایک اننگز اور47 رنز سے شکست ہوئی ہے کیونکہ وہ انگلینڈ کی جانب سے پہلی اننگز میں 823 رنز بنانے اور میزبان ٹیم پر 267 رنز کی برتری حاصل کرنے کے بعد دوسری اننگز میں صرف 220 رنز ہی بنا پائی۔

یہ 1976 کے بعد صرف دوسرا موقع ہے جب انگلینڈ نے ایشیا میں کوئی میچ اننگز کے فرق سے جیتا ہے جبکہ پاکستان کا اپنے ہوم گراؤنڈز پر ٹیسٹ میچ نہ جیت پانے کا سلسلہ 11 میچوں تک دراز ہو گیا ہے۔

پاکستانی بلے بازوں نے پانچویں روز کے کھیل کا آغاز 152 رنز پر چھ وکٹوں کے نقصان سے کیا۔ سلمان آغا نصف سنچری بنانے کے بعد جیک لیچ کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے اور اننگز کی سب سے طویل 109 رنز کی شراکت اپنے اختتام کو پہنچی۔

جیک لیچ نے پھر شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو بھی اپنے جال میں پھنسایا جبکہ ابرار احمد پانچویں روز بیٹنگ کے لیے نہ آ سکے کیونکہ وہ چوتھے روز کے آغاز میں بیمار ہوگئے تھے اور انھیں ملتان کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا گیا تھا۔

دوسری اننگز میں لیچ چار وکٹیں حاصل کر کے سب سے کامیاب انگلش بولر رہے لیکن اس میچ کی نمایاں بات انگلش بلے باز ہیری بروک کی ٹرپل سنچری تھی جو انھوں نے قریب 100 کے سٹرائیک ریٹ سے بنائی۔

babar azam

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’بولرز کا قبرستان‘ ملتان کی پِچ جو اچانک ان کے لیے ’جنت‘ بن گئی

پہلی اننگز میں ساڑھے پانچ سو رنز بنانے والی پاکستانی ٹیم کو میچ کے چوتھے روز چائے کے وقفے کے بعد ہی انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کھیل کے اختتام پر اس کے چھ کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے اور حیران کن طور پر انگلینڈ کو پاکستان پر 115 رنز کی برتری تھی۔

ایک ایسی پچ پر جہاں انگلینڈ کے بلے باز چند ہی گھنٹوں پہلے تک جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھے اور پاکستانی بولرز کو ملتان کی دھوپ میں 150 اوورز تک بولنگ کروانے پر مجبور کرنے کے بعد تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے خلاف آٹھ سو رنز بنا چکے تھے، وہاں پاکستانی بلے بازوں کی لائن لگ گئی۔

چوتھے روز جو روٹ اور ہیری بروک نے انگلینڈ کی تاریخ کی سب سے بڑی 412 رنز کی شراکت بنائی اور پاکستان کے لیے تیسری اننگز کو چوتھی اننگز میں تبدیل کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ اب سارا دباؤ پاکستان پر ہو گا۔

مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

پاکستان نے جب اپنی اننگز کا آغاز کیا تو یہ دباؤ عیاں تھا اور پہلی گیند پر عبداللہ شفیق کو ووکس نے بولڈ کیا اور پھر کپتان شان مسعود، بابر اعظم، صائم ایوب، محمد رضوان اور سعود شکیل بھی سکور میں زیادہ اضافہ کیے بغیر پویلین لوٹ گئے۔

یوں یہ اس سال چوتھا ٹیسٹ ہے جس میں پاکستان کو دوسری اننگز میں بیٹنگ میں مشکلات کا سامنا ہے۔

آج اسی پچ پر انگلینڈ کے بلے بازوں نے 49 اوورز میں 331 رنز بنائے جس میں ہیری بروک کے 317 اور جو روٹ کے 262 رنز کی شاندار اننگز شامل تھیں۔ یوں انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف 267 رنز کی برتری حاصل کر لی۔

اس ٹیسٹ میچ کے آغاز سے ہی پچ کے بارے میں بحث سوشل میڈیا پر جاری ہے اور اس حوالے سے پی سی بی پر تنقید کی جا رہی ہے۔

سنہ 2022 میں جب رمیز راجہ انتظامیہ کی جانب سے پچز کو ’نیوٹرل‘ بنانے کی کوشش کی گئی تھی، اس کے بعد سے پاکستان کی ہوم سیریز میں ہر مرتبہ ہی پچز زیرِ بحث رہتی ہیں۔

میچ کے آغاز میں پچ پر کچھ گھاس چھوڑی گئی تھی جس کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ شاید پہلے روز پچ فاسٹ بولرز کے لیے سازگار ثابت ہو گی۔

تاہم یہ ملتان میں ماضی کی پچز کی طرح انتہائی فلیٹ پچ ثابت ہوئی۔ جہاں پاکستان کی جانب سے تین بیٹرز نے سنچریاں سکور کیں وہیں انگلینڈ کی جانب سے جو روٹ اور ہیری بروک کی جارحانہ سنچریوں اور بین ڈکٹ اورزیک کرالی نے نصف سنچریاں بنائیں۔

انگلینڈ کے جو روٹ اور ہیری بروک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گذشتہ 11 ٹیسٹ میچوں میں مایوس کن ریکارڈ

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو 11 ٹیسٹ میچوں میں سے وہ کسی ایک میں بھی ہوم گراؤنڈ پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ان 11 ٹیسٹ میچوں میں سے سات میں شکست اور چار ڈرا ہوئے ہیں۔

اس کی وجوہات میں سے ایک پاکستانی ٹیم کا ہوم گراؤنڈز پر ایسی پچز نہ بنا پانا ہے جو قومی ٹیم کے پاس موجود فاسٹ بولرز کے لیے سازگار ثابت ہوں۔

پاکستانی کپتان شان مسعود میچ سے پہلے کی گئی پریس کانفرنس میں اس بات سے اتفاق کر چکے ہیں کہ پاکستان کو تاحال یہ نہیں معلوم کہ بطور ٹیم کی ان کی قوت کیا ہے اور اس حوالے سے کس قسم کی پچز پاکستانی بلے بازوں اور بولرز کے لیے سازگار ہوں گی۔

پاکستان نے بنگلہ دیش کی ٹیسٹ سیریز سے پہلے گرین پچ بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ الٹا ان کے بلے بازوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا تھا جبکہ اس کے فاسٹ بولرز اس پچ سے وہ مدد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے جو بنگلہ دیشی بلے بازوں کو ملی تھی۔

یوں پاکستان کو بنگلہ دیش نے ہوم گراؤنڈ پر آ کر وائٹ واش کر دیا تھا جو ٹیم کے فاسٹ بولرز کی انجریز، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ پر زیادہ توجہ، ایک اچھے سپنر کی کمی اور کمزور ڈومیسٹک کرکٹ ڈھانچے سمیت کئی کمزوریوں کو عیاں کر گئی۔

پاکستان آخری بار فروری 2021 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم ٹیسٹ جیتا تھا۔ تب سے پاکستان انگلینڈ، آسٹریلیا اور حتی کہ بنگلہ دیش کے خلاف سیریز ہارا ہے۔ جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز ڈرا ہوئی تھی۔

جو روٹ اور نسیم

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان کی شکست پر شائقین حیران و پریشان

سوشل میڈیا پر جہاں پچ پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں پاکستانی بولنگ اور بیٹنگ بھی تنقید کی زد میں ہیں۔ شائقین یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ ایک ٹیم ساڑھے 500 رنز بنا کر بھی اننگز سے میچ کیسے ہار سکتی ہے۔

ایکس پر محمد زین نے کچھ یہ کہہ کر سب کو ڈرا دیا کہ ’آخری بار جب ہم اس طرح کوئی میچ ہارے تھے تو ثقلین مشتاق کا کریئر ختم ہوگیا تھا۔‘

جبکہ جان رائٹ کہتے ہیں کہ اس شرمناک شکست کے بعد پاکستان کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ منگل سے ملتان میں ہی دوسرے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کے خلاف 20 وکٹیں کیسے حاصل کریں گے۔

جان رائٹ

،تصویر کا ذریعہX

ہرشا بھوگلے کہتے ہیں کہ پاکستان شاید دوسرے میچ میں بھی ٹرننگ وکٹ نہ بنا سکے کیونکہ اس کے پاس سپنرز کی قلت ہے جبکہ انگلش ٹیم میں بین سٹوکس کی شمولیت کا امکان ہے۔

دریں اثنا صارفین پہلی اننگز میں بڑا سکور کرنے کے بعد برتری انگلینڈ کو دینے پر پاکستانی بولنگ سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ بابر اعظم کے ایک مرتبہ پھر فیل ہونے اور پاکستان کے اپنی دوسری اننگز میں مایوس کن بیٹنگ کرنے پر فینز نالاں نظر آ رہے ہیں۔

انڈین کرکٹ کمنٹیٹر ہارشا بھوگلے نے ایک پوسٹ میں کہا کہ ’کوئی ٹیم پہلی اننگز میں ساڑھے پانچ سو رنز بنا کر یہ تاثر کیسے دے سکتی ہے کہ مخالف ٹیم کی میچ پر گرفت زیادہ مضبوط ہے۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستانی بیٹنگ جب اسی پچ پر کھیلتی ہے تو پچ اچانک بولرز کے لیے سازگار ہو جاتی ہے۔۔۔‘

اس بارے میں میچ کے پہلے ہی روز کیون پیٹرسن نے پچ کو ’بولرز کا قبرستان‘ قرار دیا تھا جبکہ آج انھوں نے کہا کہ یہ آج بھی بولرز کا قبرستان ہے اور یہ اگر آنے والے دنوں میں مددگار ثابت نہ ہوئی تو یہ ٹیسٹ کرکٹ کو تباہ کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔

’پاکستانی کرکٹ ٹیم اپنی ہوم کنڈیشنز میں ایسے کھیلتی ہے جیسے کسی دوسرے ملک میں کھیل رہی ہو۔‘