’کرکٹ کے لیے سیاست چھوڑنے والے‘ گوتم گمبھیر انڈیا کے سب سے کم عمر ہیڈ کوچ کیسے بنے

انڈیا

،تصویر کا ذریعہAFP

  • مصنف, ایاز میمن
  • عہدہ, کرکٹ مصنف

42 سالہ گوتم گمبھیر انڈیا کی کرکٹ ٹیم کی تاریخ کے سب سے کم عمر ہیڈ کوچ بنے ہیں۔ حال ہی میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فتحیاب کوچ راہول ڈریوڈ نے اپنے اہلخانہ کے ساتھ زیادہ وقت بتانے کے لیے توسیع کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔

راہول ڈریوڈ کے بعد ان کے سابق پارٹنر وی وی ایس لکشمن کو کوچ بنانے پر غور کیا جا رہا تھا لیکن انھوں نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو ترجیح دی۔ یوں ایک نئے چہرے کے لیے راستہ صاف ہو گیا اور ایک بلامقابلہ انتخاب ہوا۔

گزشتہ چھ سات ماہ میں چند ایسی غیر متوقع پیش رفت ہوئی ہیں جن کی وجہ سے گوتم گمبھیر کے لیے انڈیا کا کوچ بننے کا سفر آسان ہو گیا۔

گزشتہ سال نومبر میں گوتم گمبھیر نے آئی پی ایل ٹیم لکھنؤ سپر جائنٹس کو دو سیزن میں ناک آؤٹ سٹیج تک پہنچانے کے بعد مینٹور کے عہدے سے استعفی دیا اور اپنی پرانی ٹیم کلکتہ نائٹ رائیڈرز میں شمولیت اختیار کر لی جو 2012 اور 2014 میں ان ہی کی کپتانی میں آئی پی ایل ٹائٹل جیت چکی تھی۔

گوتم گمبھیر

،تصویر کا ذریعہAFP

مارچ میں گوتم گمبھیر، جو 2018 میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بی جے پی میں شامل ہوئے اور مشرقی دلی سے 2019 میں رکن اسمبلی منتخب بھی ہوئے، نے بھارتی جنتا پارٹی کی قیادت کو اپنا فیصلہ سنایا کہ وہ سیاست چھوڑ کر کرکٹ پر ہی توجہ دیں گے۔

لیکن قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے عہدے کے لیے اس وقت ان کا سفر تقریبا مکمل ہو گیا تھا جب کلکتہ نائٹ رائیڈرز نے مسلسل کئی میچ جیتے اور ساری توجہ گوتم گمبھیر کی جانب مرکوز ہو گئی۔

انڈیا میں چیف یا ہیڈ کوچ منتخب کرنے کا عمل کافی پیچیدہ ہوتا ہے۔

بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا یا بی سی سی آئی کی جانب سے ملکی یا غیر ملکی امیدواروں سے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں جو مخصوص شرائط پر پورا اترتے ہیں، جیسا کہ 30 ٹیسٹ یا 50 ون ڈے میچ کھیلنے کا تجربہ اور 60 سال سے کم عمر۔

ان درخواستوں کا جائزہ بورڈ کی ایڈوائزری کمیٹی لیتی ہے اور پھر چند امیدواروں کو انٹرویو کے لیے مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ انڈین کرکٹ کی بہتری کے لیے اپنے خیالات پیش کر سکیں۔

گوتم گمبھیر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جو امیدوار سب سے زیادہ متاثر کن حکمت عملی پیش کرتا ہے، عام طور پر اسے ہی چن لیا جاتا ہے۔ گوتم گمبھیر کے مقابلے میں کوئی نہیں تھا تو یہ انتخاب کافی آسان ہو گیا۔

اس بار جب بی سی سی آئی کی جانب سے اس عہدے کے لیے اشتہار دیا گیا تو ایسی خبریں پھیلیں کہ چند غیر ملکی کوچ سے غیر رسمی رابطہ کیا گیا ہے لیکن یہ خبریں جلد ہی دم توڑ گئیں۔

ماضی کے برخلاف انڈیا میں اب مقامی کوچ کو ترجیح دی جاتی ہے جو ملک کی ثقافت، نفسیات اور دیگر معاملات کو بہتر سمجھتا ہو۔

سابق انڈین اوپنر رامان، جو انڈین خواتین کی کرکٹ ٹیم کے کوچ رہ چکے ہیں، نے بھی اس عہدے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا تجربہ بھی متاثر کن تھا لیکن 59 سال کی عمر میں شاید ان کو یہ احساس ہو گیا کہ ان کے پاس تین سال کا گیم پلان مرتب کرنے کا وقت نہیں تھا اور اسی لیے وہ خود ہی پیچھے ہٹ گئے۔

گوتم گمبھیر

،تصویر کا ذریعہAFP

کلکتہ نائٹ رائیڈرز کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کی وجہ سے ہی گوتم گمبھیر کا انتخاب اور آسان ہو گیا اور ڈریوڈ کے توسیع لینے سے انکار نے ان کی تعیناتی کو یقینی بنا دیا۔

ایسا نہیں کہ ان کا انتخاب میرٹ پر نہیں ہوا۔ آئی پی ایل میں کامیابی کے علاوہ دیکھیں تو بطور کھلاڑی بھی ان کا ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے۔ ایک سٹائلش بلے باز جو 2003 میں ڈیبیو کے بعد سے ہر فارمیٹ میں ہی اچھی کارکردگی دکھاتے رہے۔

2009 میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں گوتم گمبھیر نے 436 گیندوں پر 137 رن کی یادگار اننگز کھل کر میچ میں یقینی شکست سے انڈیا کو بچایا اور سیریز جیتنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس سے دو سال قبل ہی پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں گوتم گمبھیر 57 رن بنا کر ٹاپ سکور کرنے والے بلے باز تھے۔ 2011 کے ورلڈ کپ کے فائنل میں سری لنکا کے خلاف بھی انھوں نے 97 رن بنا کر ٹاپ سکور کیا تھا۔

گوتم گمبھیر

،تصویر کا ذریعہAFP

مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

2012 میں جب انڈیا کو آسٹریلیا کے خلاف چار صفر سے ٹیسٹ سیریز میں شکست ہوئی تو یہ بات ہو رہی تھی کہ شاید گوتم گمبھیر دھونی کی جگہ کپتان بنا دیے جائیں لیکن بورڈ کے صدر نے سلیکٹرز کی رائے ماننے سے انکار کر دیا۔

بے باک، صاف گو گمبھیر کا سنجیدہ رویہ اکثر ان کے نقادوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ شاید ان کے قریب نہ جانا ہی بہتر ہے۔

گمبھیر کا ماننا ہے کہ چند کھلاڑیوں کی برینڈ ویلیو یا شہرت کو انڈین کرکٹ کی بہتری پر حاوی نہیں ہونا چاہیے۔

کھیلوں کی دنیا میں انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے کوچ کا عہدہ طاقت اور عزت کے ساتھ ساتھ مالی اعتبار سے بھی اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ سالانہ ایک ملین ڈالر سے زیادہ کے پیکج کے ساتھ بونس بھی ملتے ہیں۔

لیکن کرکٹ کے لیے پاگل ملک میں اس عہدے کے ساتھ ذمہ داری اور توقعات بھی وابستہ ہوتی ہیں جن میں راہول ڈریوڈ اور ان سے پہلے روی شاستری کے کامیاب کوچنگ کریئر کی وجہ سے مذید اضافہ ہو گا۔

اگلے تین سال انڈیا کا کلینڈر بہت مصروف ہے۔ اس سال انڈیا چیمپیئنز ٹرافی میں، اگلے سال ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ ہو گی، 2026 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ منعقد ہو گا اور 2027 میں ایک روزہ ورلڈ کپ ہو گا جبکہ دیگر دو طرفہ سیریز بھی ہوں گی۔

گوتم گمبھیر کو سپر سٹارز سے بھرپور ڈریسنگ روم سے نمٹنا ہو گا، ایک نئی اور نوجوان ٹیم تیار کرنا ہو گی اور ذہن، حکمت عملی اور مہارت سب میں ہی تبدیلی لانا ہو گی تاکہ انڈیا کرکٹ میں اپنا مقام برقرار ہی نہیں بلکہ بڑھا سکے۔

گوتم گمبھیر کے لیے یہ سب یقینا آسان نہیں ہو گا۔