ہیلری کلنٹن کے ساتھ کام، غزہ جنگ پر ’خاموشی‘: غزہ کے لوگوں کے لیے میری حمایت پر کوئی کنفیوژن نہیں ہونی چاہیے، ملالہ کا تنقید پر جواب

ملالہ یوسفزئی، ہیلری کلنٹن، پاکستان، امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناس سے قبل بھی ملالہ یوسفزئی پر غزہ میں جاری جنگ پر خاموشی اختیار کرنے پر تنقید ہوتی رہی ہے
  • مصنف, سحر بلوچ
  • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد

’غزہ میں جاری جنگ پر میری پوزیشن بالکل واضح ہے۔ جب ہمارے سامنے نسل کشی کی واضح مثال ہو تب ہمیں فیصلہ کُن ایکشن لینے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ ہم سب کو ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، جہاں ہم جنگ میں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں اور مجرموں کا احتساب کریں۔‘

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے گذشتہ کچھ دنوں سے ’غزہ پر اسرائیلی حملوں اور ہزاروں فلسطینوں کی اموات پر (مبینہ) خاموشی اختیار کرنے‘ کے باعث اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب کچھ ان الفاظ میں دیا ہے۔

غزہ میں جاری جنگ کے دوران سوشل میڈیا پر چند حلقے ملالہ یوسفزئی پر اس لیے تنقید کرتے ہیں کیونکہ اُن کے مطابق ملالہ واضح اور بھرپور انداز میں اس جنگ کے خلاف آواز بلند نہیں کرتی ہیں۔

حالیہ دنوں میں یہ تنقید اُس وقت مزید بڑھ گئی جب اُن کی سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ تصاویر منظرِ عام پر آئیں۔ ملالہ یوسفزئی اور ہیلری کلنٹن حال ہی میں ایک میوزیکل تھیٹر (ایسا ڈرامہ جس میں صرف موسیقی کا استعمال کیا جاتا ہے) ’سُفس‘ بنانے کے لیے اُن کے ساتھ کام کرتی ہوئی نظر آئیں تھیں۔

یہ میوزیکل تھیٹر امریکہ میں 19ویں صدی کے اوائل میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کا حق دلوانے کے لیے شروع کی گئی تحریک ’سفرگیٹ موومنٹ‘ کے بارے میں ہے۔

سوشل میڈیا پر ملالہ یوسفزئی پر تنقید کرنے والوں کا اعتراض اس بات پر بھی ہے کہ انھوں نے ہیلری کلنٹن کے ساتھ کیوں کام کیا۔

واضح رہے کہ غزہ جنگ کے تناظر میں سابق امریکہ وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن بھی پچھلے کئی مہینوں سے سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں ہیں۔ انھوں نے گذشتہ برس ایک امریکی جریدے ’دی اٹلانٹک‘ میں ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا جس میں انھوں غزہ میں مکمل جنگ بندی کی مخالفت کی تھی۔

صرف یہی نہیں پاکستان میں ایک طبقہ ہیلری کلنٹن کو اس لیے بھی ناپسند کرتا ہے کیونکہ ان کی پارٹی کے دورِ حکومت میں پاکستان پر امریکہ ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔

دُنیا بھر میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دلوانے کے لیے آواز اُٹھانے والی ملالہ یوسفزئی نے سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد ایک وضاحتی بیان بھی جاری کیا۔

اس بیان میں انھوں نے غزہ میں جاری جنگ پر اپنا مؤقف دیتے ہوئے لکھا کہ ’کوئی ابہام نہ رہے، اس لیے میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں ماضی میں اور اب بھی اسرائیلی حکومت کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور جرائم کی مخالفت کرتی رہوں گی۔‘

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ملالہ یوسفزئی پر غزہ میں جنگ پر خاموشی اختیار کرنے پر تنقید ہوتی رہی ہے اور ان کی جانب سے وضاحتی بیانات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

پاکستان میں ملالہ یوسفزئی کو ایسی شخصیت سمجھا حاتا ہے، جن کے نہ صرف الفاظ بلکہ خاموشی بھی خبر بن جاتی ہے۔

سنہ 2012 میں ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اُٹھانے کی پاداش میں پاکستانی طالبان نے ملالہ یوسفزئی پر حملہ کیا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوئی تھیں۔ ابتدائی علاج کے بعد انھیں مزید علاج کے لیے ہنگامی طور پر برطانیہ منتقل کیا گیا تھا۔

ملالہ یوسفزئی، ہیلری کلنٹن، پاکستان، امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسنہ 2012 میں ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اُٹھانے کی پاداش میں پاکستانی طالبان نے ملالہ یوسفزئی پر حملہ کیا

پاکستان میں ہمیشہ سے ہی ملالہ یوسفزئی کے بارے میں منقسم آرا پائی جاتی ہے اور مختلف معاملات پر انھیں سوشل میڈیا پر انھیں شدید مخالفت کا سامنا رہتا ہے۔

اگر سوشل میڈیا پر جائزہ لیا جائے تو اس بار تنقید کرنے والوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو ماضی میں ملالہ یوسفزئی کے حق میں بولتے ہوئے نظر آئے ہیں۔

طُوبیٰ مسعود نے ایکس پر لکھا کہ ’میں نے اس سے پہلے ایسا نہیں لکھا لیکن حد ہے ملالہ! اب آپ اتنی کم عمر نہیں ہو کہ صحیح فیصلہ نہ لے سکو۔ یہ ایک بہت ہی افسوسناک واقعہ ہے، ہیلری نہ صرف جنگ کی حمایت کرنے والوں میں سے ہیں بلکہ غریب ملکوں کی دشمن بھی رہی ہیں۔‘

جبکہ پروفیسر اور محقق ارسلان خان نے لکھا کہ ’اب ملالہ کی مزید طرفداری کرنا ممکن نہیں کیونکہ انھوں نے دائیں بازو کے بیانیے کو اپنا لیا ہے۔‘

ایک صارف ثنا سعید نے لکھا کہ ’بہت خوش آئند بات ہے کہ ملالہ سابق سیکریٹری آف سٹیٹ کے ساتھ شراکت کر رہی ہیں۔ یہ وہی سابق سیکریٹری ہیں جنھوں نے سی آئی اے کی طرف سے ڈرون حملوں کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں وہاں تعلیم ختم ہو کر رہ گئی۔‘

واضح رہے کہ ملالہ یوسفزئی اور ہیلری کلنٹن کی شراکت داری پر ہونے والی تنقید صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں بھی اس پراجیکٹ پر تنقید کی گئی۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

اس بارے میں محقق اور لمز یونیورسٹی سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر منسلک ندا کرمانی نے لکھا کہ ’یاد رہے کہ ملالہ کی جابر حکومتوں یا پالیسیوں کی حمایت نئی نہیں۔ وہ اس سے پہلے پاکستان میں دور دراز علاقوں میں ہونے والے جبر پر خاموش تھیں۔‘

ندا کرمانی نے غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے بارے میں کہا کہ ’نسل کشی میں کوئی گرے ایریا نہیں ہوتا۔‘

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 2