’مجھ سے پہلے نیٹ فلکس کو میرے ہم جنس پرست ہونے کا کیسے پتا چلا؟‘

- مصنف, ایلی ہاؤس
- عہدہ, بی بی سی آڈیو لانگ فارم
بی بی سی کی رپورٹر ایلی ہاؤس کو خود یہ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہم جنس پرست تھیں لیکن ان سے پہلے ہی نیٹ فلکس کو یہ بات پتا چل گئی تھی۔ آخر یہ کیسے ہوا؟
یونیورسٹی کے دوسرے سال مجھے یہ پتا چلا کہ میں بائی سیکشول ہوں لیکن ایک بڑی ٹیک کمپنی کو مجھ سے بھی کئی مہینے پہلے یہ بات معلوم ہو گئی تھی۔
میرا ایک لمبے عرصے تک ایک بوائی فرینڈ تھا اور مجھے اپنے بارے میں یہ پتا تھا کہ میں ہم جنس پرست نہیں ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ڈیٹنگ کو ترجیح نہیں دے رہی تھی۔
اس وقت میں نیٹفلکس پر بہت سی سیریز دیکھ رہی تھی اور پلیٹفارم مجھے خود سے لیزبیئن اور بائی سیکشول کرداروں والے شوز دیکھنے کی تجویز دے رہا تھا۔
یہ ایسی ٹی وی سیریز تھیں جو میرے دوستوں کو تجویز نہیں کی جا رہی تھی اور انھوں نے ان کا نام بھی کبھی نہیں سنا تھا۔ میرے دوستوں کی عمر میری جتنی ہے، زندگی میرے جیسی تھی اور وہ میرے جیسے شوز دیکھتے تھے۔
ایک شو جس نے میری توجہ حاصل کی اس کا نام ’یو می ہر‘ یعنی میں تم اور وہ تھا۔ یہ کہانی ایک شادی شدہ جوڑے کی تھی جو ایک تیسرے شخص کو اس رشتے میں لاتے ہیں۔ اس کی کہانی میں کافی ہم جنس پرست اور بائی سیکشول عناصر تھے۔

یہ رجحان نیٹفلکس تک محدود نہیں۔ دوسرے پلیٹ فارمز پر بھی میرے ساتھ یہی ہوا۔ موسیقی والے پلیٹ فارم سپاٹیفائی پر مجھے ’سیفک‘ نام کی پلے لسٹ تجویز کی جا رہی تھی۔ سیفک لفظ کا استعمال خواتین کی خواتین کے ساتھ محبت کے لیے کیا جاتا ہے۔
چند مہینوں بعد مجھے ٹک ٹاک پر بائی سیکشول کانٹینٹ بنانے والوں کی ویڈیوز نظر آنا شروع ہو گئیں۔
اور اس کے کچھ مہینوں بعد مجھ پر یہ علیحدہ سے واضح ہوا کہ میں ایک بائی سیکشول خاتون تھی۔
ان ٹیک کمپنیوں کو مجھ سے کون سے ایسے اشارے ملے تھے کہ جس پر میں خود توجہ نہ دے سکی؟
پلیٹفارم کا الگوردھم کیسے کام کرتا ہے؟
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
نیٹفلکس کے عالمی سطح پر 222 ملین صارف ہیں اور اس پر نہ ختم ہونے والی قسموں کی ہزاروں فلمیں اور سیریز ہیں۔ لیکن اوسطاً ایک صارف ایک مہینے میں چھ مختلف طرز کا کونٹینٹ دیکھتا ہے۔
لوگوں کو ان کا پسندیدہ کونٹینٹ تجویز کرنے کے لیے نیٹفلکس ایک مضبوط سسٹم استعمال کرتا ہے۔ یہ الگوردھم کا نظام فیصلہ کرتا ہے کہ صارف کے ہوم پیج پر کون سی ویڈیوز، تصاویر اور ٹریلرز دکھانے ہیں۔
مثال کے طور پر ’یو می ہر‘ کا کوڈ ’100010‘ ہے جو انسانی آنکھ کے لیے ’ایل جی بی ٹی کیو پلس کہانیاں‘ ہیں۔
اس تجویز دینے والے سسٹم کا مقصد یہ ہے کہ جو صارف پلیٹ فارم کا استعمال کر رہا ہے اسے کونٹینٹ کے ساتھ پکا جوڑ دے۔
یہ سسٹم صارف اور کونٹینٹ دونوں سے معلومات لیتا ہے اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے۔
گانے کی قسم، فلم میں کون سی تھیمز تھیں اور کون سے اداکار اس شو میں تھے، یہ ساری چیزیں ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ اس بنیاد پر الگوردھم یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ کس کو کیا پسند آئے گا۔
نیٹ فلکس کے سابق ایگزیکٹو ٹوڈ ییلن نے فیوچر آف سٹوری ٹیلنگ ویب سائٹ کے لیے ایک ویڈیو میں کہا ’بِگ ڈیٹا ایک وسیع پہاڑ ہے۔ مشین لرننگ کی جدید ترین تکنیکوں کے ذریعے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون سے ٹیگز (عنوان) اہم ہیں؟‘
لیکن یہ پلیٹ فارم اپنے صارفین کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور وہ اس بارے میں کیسے معلومات حاصل کرتے ہیں؟
برطانیہ کے ڈیٹا پرائیویسی قوانین کے تحت لوگوں کو یہ معلوم کرنے کا حق ہے کہ ایک ادارے کے پاس ان کے متعلق کیا ڈیٹا موجود ہے۔ بہت سی سٹریمنگ اور سوشل میڈیا کمپنیوں نے صارفین کے لیے اس معلومات تک رسائی کے لیے ایک خودکار نظام بنایا ہے۔
میں نے اپنی تمام معلومات آٹھ بڑے پلیٹ فارمز سے حاصل کیں۔ فیس بک دوسری ویب سائٹس کو ٹریک کر رہا تھا جن پر میں گئی تھی۔ اس نے ایک لینگویج لرننگ ٹول اور ہوٹل کی سائٹس کو ٹریک کیا ہوا تھا۔ اس میں ’لوکیشن‘ کے عنوان سے ایک فولڈر میں میرے گھر کا پتہ بھی تھا۔
انسٹاگرام کے پاس 300 سے زیادہ مختلف عنوانات کی ایک فہرست تھی جس کے بارے میں اس کے خیال میں میری دلچسپی تھی۔ انسٹاگرام نے اس فہرست کو پرسنلائزڈ اشتہاروں کے لیے استعمال کیا۔
نیٹفلکس نے مجھے ایک سپریڈ شیٹ بھیجی جس میں ہر ٹریلر اور پروگرام کی تفصیل دی گئی تھی جسے میں نے دیکھا تھا۔ کب، کس ڈیوائس پر، اور آیا یہ خودکار طور پر چلایا گیا تھا یا میں نے اسے منتخب کیا تھا، یہاں یہ ساری معلومات تھی۔
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان ٹیگز کا میری جنسیت سے کوئی تعلق ہے۔ بی بی سی کو جاری کیے ایک بیان میں سپاٹیفائی نے کہا ’ہماری رازداری کی پالیسی سپاٹیفائی کی طرف سے اپنے صارفین کے بارے میں جمع کردہ ڈیٹا کا خاکہ پیش کرتی ہے جس میں جنسی رجحان شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے الگوردھم صارف کی سننے کی ترجیحات کی بنیاد پر جنسی رجحان کے بارے میں پیش گوئیاں نہیں کرتا۔‘
دوسرے پلیٹ فارمز میں بھی ایسی ہی پالیسیاں ہیں۔ نیٹفلکس نے مجھے بتایا کہ صارف نے کیا دیکھا ہے اور اس نے ایپ کو کیا بتایا ہے، یہ چیزیں ہمیں ان کی عمر یا جنس کے مقابلےان کے ذوق کے بارے میں بہتر معلومات دیتی ہیں۔

’کونٹینٹ کیسے دیکھا جا رہا ہے‘ کا کردار
کمپیوٹیشنل سوشل سائیکالوجی کے ماہر کیمبرج یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی سکالر گریگ سیراپیو گارسیا کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی نیٹفلکس کو واضح طور پر نہیں کہہ رہا ہے کہ وہ ہم جنس پرست ہیں۔‘
لیکن پلیٹ فارم اُن صارفین کو دیکھ سکتا ہے جنھوں نے ’کوئیر مواد‘ کو پسند کیا ہے۔
ان تجاویز کو حاصل کرنے کے لیے صارف کے پاس پہلے سے دیکھے گئے مواد کا ایل جی بی ٹی کیو پلس ٹیگ ہونا ضروری نہیں ہے۔ تجویز دینے والے نظام اس سے زیادہ گہرائی میں جاتے ہیں۔
گریگ کے مطابق ایک امکان یہ ہے کہ کچھ فلموں اور ٹی وی شوز کو دیکھنے سے بھی الگوردھم کو یہ پیش گوئی کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو خاص طور پر ایل جی بی ٹی کیو پلس نہیں ہیں۔ الگوردھم کو ’آپ کے کوئیر مواد کو پسند کرنے کے رجحان‘ کے امکان کا علم ہو جاتا ہے۔
کوئی کیا دیکھ رہا ہے، یہ معلومات حاصل کرنے میں کچھ مدد کرتا ہے لیکن کوئی ایک پلیٹ فارم کا کیسے استعمال کر رہا ہے اس سے زیادہ معلومات ملتی ہیں۔
دیگر تفصیلات کا استعمال کر کے بھی کسی صارف کے بارے میں پیشگوئیاں کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کتنے فیصد وقت تک مسلسل سیریز دیکھتے رہتے ہیں یا آیا وہ آخر میں آنے والے کریڈٹس کو بھی دیکھتے ہیں۔
گریگ کے مطابق ان عادات کا اپنے طور پر کوئی مطلب نہیں ہو سکتا لیکن جب لاکھوں صارفین کا ڈیٹا جمع ہوتا ہے تو اس کو ’مخصوص پیشگوئیاں‘ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لہٰذا ہو سکتا ہے کہ نیٹفلکس الگوردھم نے محض ماضی میں میری طرف سے دیکھے گئے مواد کی بنیاد پر ایل جی بی ٹی کیو پلس سیریز میں میری دلچسپی کی پیشگوئی نہ کی ہو۔ وہ یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ میں نے اس پر کب کلک کیا، اور یہاں تک کہ میں کس ڈیوائس پر اور کب اسے دیکھ رہی ہوں۔
میرے لیے یہ ایک تجسس کی بات ہے۔ لیکن گریگ سیراپیو گارسیا کا خیال ہے کہ جن ممالک میں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے وہاں یہ ممکنہ طور پر ایسے لوگوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
میں نے دنیا بھر کے ایل جی بی ٹی کیو پلس لوگوں سے اس متعلق متضاد باتیں سنیں۔ ایک طرف وہ اکثر ان چیزوں کو پسند کرتے ہیں جو سٹریمنگ سروس ان کو تجویز کرتی ہے۔
لیکن دوسری طرف وہ اس سے پریشان ہیں۔
مجھے ایک ہم جنس پرست آدمی نے بتایا (جس کو ہم اس کے تحفظ کے لیے گمنام رکھ رہے ہیں) کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری پرائیویسی میں دخل اندازی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’اس سے آپ کو یہ تھوڑی اور معلومات ملتی ہے کہ اگر آپ کی زندگی آزاد ہوتی تو کیسی ہوتی۔ اور یہ احساس بہت خوبصورت ہے اور اچھا ہے۔‘
لیکن انھوں نے مزید کہا الگوردھم ’واقعی مجھے تھوڑا سا ڈراتے ہیں۔‘