نانگا پربت پر پھنسے پاکستانی کوہ پیما آصف بھٹی تینوں کوہ پیماوں کی مدد سے بیس کیمپ پہنچ گئے

،تصویر کا ذریعہsocial media
- مصنف, محمد زبیر خان
- عہدہ, صحافی
خونی پہاڑ کے نام سے معروف نانگا پربت پر پھنسے پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی اوران کے مددگار تینوں کوہ پیما بیس کیمپ پہنچ گئے ہیں۔
ڈاکٹر آصف کے دوست اور امدادی کارروائی کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر سعید بادشاہ کے مطابق ’بیس کیمپ میں ڈاکٹر آصف بھٹی کا طبی معائنہ کیا جارہا ہے اور یہ جانچا جا رہا ہے کہ انھیں بیس کیمپ سے ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہے کہ نہیں۔ ‘
ڈاکٹر سعید بادشاہ کے مطابق ’ڈاکٹر آصف بھٹی بہت تھکے ہوئے ہیں حالت خراب ہے مگر وہ محفوظ ہیں جبکہ اسرافیلی بہت زیادہ تھکا ہوا ہے اس نے اپنی جان کو داؤ پر لگایا ہے جبکہ فضل اور یونس بھی اس وقت آرام کررہے ہیں۔‘
ان چاروں کو بیس کیمپ پر رکھا گیا ہے جہاں ہر قسم کی طبی سہولت موجود ہے۔
اس سے قبل جب پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی کو نیچے لانے کے لیے فضائی ریسکیو آپریشن موسم کی خرابی کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکا تھا تو ڈاکٹر بھٹی نے ساتھی کوہ پیماؤں کی مدد سے نے کیمپ ٹو سے نیچے کا سفر شروع کر دیا تھا۔
ڈاکٹر آصف کے دوست اور امدادی کارروائی کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر سعید بادشاہ نے بتایا تھا کہ پاکستانی کوہ پیما اور ان کے ساتھی انتہائی سست روی سے نیچے اتر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر آصف بھٹی نانگا پربت کے کیمپ فور میں سات ہزار میٹر سے زیادہ بلندی سنو بلائنڈنیس کا شکار ہو کر پھنس گئے تھے اور منگل کی صبح انھوں نے آذربائیجان کے کوہ پیما اسرافیل عشورلی کی مدد سے نیچے کا سفر شروع کیا تھا۔
ڈاکٹر سعید کے مطابق آصف بھٹی کیمپ فور پر سنو بلائنڈنیس اور پھر فراسٹ بائٹ کا بھی شکار ہوئے جس کے اثرات اب مرتب ہو رہے ہیں۔ ’ڈاکٹر آصف بھٹی کو نظر بھی کم آرہا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں استعمال کرنے میں بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
ڈاکٹر سعید نے جمعرات کو اس سے قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ عسکری ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر صبح سے الرٹ ہے مگر ابھی تک موسم نے اجازت نہیں دی کہ وہ پرواز کر سکے۔ ان کے مطابق اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ موسم کچھ بہتر ہو تو فضائی آپریشن شروع کیا جا سکے۔
ڈاکٹر سعید بادشاہ کے مطابق حال ہی میں نانگا پربت سر کرنے والے دو پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی اور ساجد سد پارہ کے علاوہ بولیویا کے ایک غیر ملکی کوہ پیما بھی اس آپریشن میں حصہ لینے کا تیار ہیں۔
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ نانگا پربت پر خراب موسم کی وجہ سے آصف بھٹی اور ان کی مدد کرنے والے تین کوہ پیما وہاں رکنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے اسی لیے انھوں نے کیمپ ٹو سے نیچے کا سفر شروع کر دیا ہے جو انتہائی سست رفتار سے جاری ہے۔

،تصویر کا ذریعہThe Karakoram Club
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
آصف بھٹی نے بدھ کو آذربائیجان کے کوہ پیما اسرافیل عشورلی کی مدد سے کیمپ تھری سے نیچے اترنا شروع کیا تھا جبکہ ان کی مدد کے لیے بیس کیمپ سے دو پاکستانی کوہ پیما یونس اور فضل کیمپ ٹو کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ یہ چاروں افراد بدھ کو شام گئے کیمپ ٹو پہنچے تھے۔
سعید بادشاہ کے مطابق 'دونوں پاکستانی کوہ پیما بدھ کی شام پانچ بجے کیمپ ٹو میں پہنچ گئے تھے۔ جن میں سے ایک ڈاکٹر آصف بھٹی اور اسرافیل کو ملنے کے لیے کیمپ ٹو سے اوپر روانہ ہوئے جبکہ دوسرے وہاں پر کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کرتے رہے۔'
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق ’آصف بھٹی کو نیچے اترنے میں قدم قدم پر مدد اور سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ مدد اور سہارا اسرافیل فراہم کر رہے ہیں، جس کی بدولت ڈاکٹر آصف بھٹی کسی حد تک خطرے سے باہر نکلے ہیں۔‘
ڈاکٹر آصف بھٹی کو مدد فراہم کرنے والے آذربائیجان کے 45 سالہ کوہ پیما اسرافیل نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند چھ چوٹیاں سر کی ہوئی ہیں۔ وہ نانگا پربت سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر پر تھے کہ کیمپ فور میں انھوں نے ڈاکٹر آصف بھٹی کی مدد کا فیصلہ کیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہsocial media
لاہور سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ آصف بھٹی پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں۔ وہ گذشتہ کئی برسوں سے اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی سے منسلک ہیں اور مہم جوئی کے شوقین ہیں۔
الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق اس سے قبل ڈاکٹر آصف بھٹی نے آٹھ ہزار میٹر سے اونچا براڈ پیک پہاڑ بھی سر کرنے کی کوشش کی تھی مگر انھیں اس میں کامیابی نہیں ملی تھی۔
اس سے پہلے وہ سات ہزار میٹر سے بلند سپانٹک چوٹی کو سر کرنے کے علاوہ پانچ اور چھ ہزار میٹر کے کئی پہاڑ سر کر چکے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہAFP
سنو بلائنڈنیس کیا ہے؟
کوہ پیما محبوب علی کے مطابق سنو بلائنڈنیس کوہ پیمائی کے دوران کوہ نوردوں کو متاثر کرنے والی ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نانگا پربت جیسے بلند پہاڑوں پر سنو بلائنڈنیس کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے اور اس خطرے سے بچاؤ کے لیے خصوصی قسم کی عینکیں استعمال کی جاتی ہیں۔
محبوب علی کا کہنا تھا کہ ’برف پر جو دھوپ پڑتی ہے اس میں چمک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بہت تیز ریفلیکشن یا عکس پیدا ہوتا ہے جو آنکھوں کو خراب کرتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ تیز ہوا کا چلنا ہوتا ہے جو آنکھوں کے اوپری حصے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے آنکھوں میں جلن پیدا ہوتی ہے اور آنکھیں کھولنا ممکن نہیں رہتا ہے۔‘
محبوب علی کے مطابق ’وقتی طور پر اس سے مسائل ہوتے ہیں بالخصوص اتنی بلندی پر تو بہت زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب اتنی بلندی پر آنکھیں کھولنا ممکن ہی نہ ہو تو یہ خطرے کی بات ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹروں کے مطابق سنو بلائینڈنیس فوٹو کیریٹائٹسائر کی ایک شکل ہے جو برف اور برف سے منعکس یا ری فلیکشن سے ہونے والی الٹر اوائلٹ شعاعوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ شمالی اور جنوبی قطب کے علاقوں میں یہ بیماری عام ہے۔ یہ مکمل طور پر قابل علاج ہے اور اکثر وقتی ہوتی ہے۔
یاد رہے نانگا پربت دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے مگر اس کا شمار دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس چوٹی کو فتح کرنے کی خواہش میں اب تک 86 کوہ پیما زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس پر ہلاکتوں کی شرح 21 فیصد ہے۔