جنوبی وزیرستان میں غیر معمولی ژالہ باری سے کھڑی فصلیں تباہ: ’ایسے لگتا تھا جیسے ہر پھل کو زخمی کر دیا گیا ہو‘

پھل

،تصویر کا ذریعہOWAIS KARMZKHEL

  • مصنف, عزیز اللہ خان
  • عہدہ, بی بی سی اردوڈاٹ کام، پشاور

’یہ باغ تو میری کائنات ہے، امید تھی اس مرتبہ سیب کی اچھی فصل ہوگی ، خریدار رابطے بھی کر رہے تھے، تین لاکھ روپے کی آفر آئی تھی میں نے انکار کر دیا تھا ، معلوم نہیں تھا کہ بارش اور ژالہ باری سے سب تباہ ہو جائے گا۔‘

اسماعیل جنوبی وزیرستان میں وانا کے رہائشی ہیں۔ ان کا سیب کا باغ اور کچھ رقبے پر گندم کی فضل تیار تھی ۔ اتوار کے روز جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں بارش اور ژالہ باری سے پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ گندم کی تیار فصل تباہ ہو گئی ہے۔

سیب ، آلوچہ ، آڑو ، انار، خوبانی کے ساتھ ٹماٹر اور گندم کی فصل تیار تھی۔ علاقے میں زمیندار خوش تھے کہ چند روز بعد وہ کٹائی شروع کریں گے ۔ تیار فصلوں کے خریدار بھی زمینداروں سے رابطے کر رہے تھے۔ اس مرتبہ لوگوں کو امید تھی کہ فصل سے اچھی آمدنی ہو گی۔

ژالہ باری

،تصویر کا ذریعہSaddiq Karezai

تین لاکھ روپے کی پیشکش ٹھکرا دی

ژالہ باری

،تصویر کا ذریعہWana Dabkot

وزیرستان میں باغات کی فصل کی خریداری کے لیے تاجر متحرک رہتے ہیں اور بعض باغات کی قیمتیں تو فصل سے کافی پہلے بھی طے ہو جاتی ہیں۔

اسماعیل کو ان کے 300 درخت کے سیب کے باغ کی تین لاکھ روپے تک آفر آئی تھی لیکن ان کو اس سے زیادہ کی امید تھی۔ اسماعیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی رابطے ہو رہے تھے اور بھی لوگ آ رہے تھے انھیں امید تھی کہ یہ باغ اس سے زیادہ قیمت پر فروخت ہو جائے گا۔

’قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے، کل اچانک تیز بارش شروع ہوئی اور اس کے بعد ایسی ژالہ باری تھی کہ اللہ کی پناہ، سوچ میں بھی نہیں تھا کہ اتنے بڑے بڑے اولے گر سکتے ہیں۔‘

ژالہ باری

،تصویر کا ذریعہDilawar Ghwakha

اسماعیل نے بتایا ’میرا سیب کا باغ اور گندم کی فصل مکمل تباہ ہو گئی ہے، میں آپ کو ویڈیو اور تصویریں دکھا سکتا ہوں پھل کا کیا حال ہو گیا ہے اب تو یہ فروخت کے قابل بھی نہیں رہا۔‘

اسماعیل کا کہنا تھا کہ وہ پانچ بھائی ہیں اور سب ایک مشترکہ خاندان کا حصہ ہیں۔ اسماعیل کے چار بیٹے ہیں جو آرمی پبلک سکول وانا میں زیر تعلیم ہیں۔ اسماعیل کے والد حفیظ اللہ نے بتایا کہ ان کا خاندان باغبانی اور زراعت سے وابستہ ہے۔

باغ میں زخمی سیب اور آلوچے

ژالہ باری

،تصویر کا ذریعہsaifat Ullah Khojal

جنوبی وزیرستان موسم سرد مرطوب رہتا ہے اس لیے اس علاقے میں باغات زیادہ ہیں جن میں سیب، آلوچہ، خوبانی، آڑو، اناراور دیگر پھل وافر مقدار میں ہوتے ہیں۔

مقامی صحافی شاہزادین نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر سال اپریل کے بعد سے جنوبی وزیرستان سے مختلف قسم کی سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار شروع ہو جاتی ہے اور روزانہ وزیرستان کی منڈی سے مختلف اجناس سے لدے ہوئے کوئی ڈیڑھ سے دو سو ٹرک ملک کے دیگر علاقوں کو جاتے ہیں۔

’اتوار کو پہلے آندھی آئی جس کے بعد بارش شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ژالہ باری شروع ہوگئی جس سے بڑے پیمانے پر زراعت کو نقصان پہنچا ہے۔‘

ژالہ باری

،تصویر کا ذریعہAnwar Dezaghandai

انھوں نے کہا کہ بارش کے بعد وہ مختلف باغات میں گئے جہاں پھل مکمل طور پر ختم ہو چکے تھے چاہے وہ سیب ہو، آلوچہ یا ٹماٹر۔

’ایسے لگتا تھا جیسے ہر پھل کو زخمی کر دیا گیا ہو، صرف پھل نہیں وہاں پرندے بھی مر گئے تھے اور ان کے گھونسلے بھی گرے پڑے تھے۔‘

شاہزادین نے بتایا کہ ان کی اپنی آلوچے اور خوبانی کی فصل مکمل تباہ ہوئی ہے یہاں ایک پیٹی 1000 روپے سے 1500 روپے تک فروخت ہو رہی تھی۔ سیب کی فصل چند دن میں تیار ہونے والی تھی لیکن اب کچھ نہیں رہا۔

وزیرستان کے سیب کی بیرون ملک بھی مانگ

ژالہ باری

،تصویر کا ذریعہJahagir Khojal

اگرچہ وزیرستان کے بارے میں کسی کو یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ اس پسماندہ اور دور دراز قبائلی علاقے سے سالانہ 88 ہزار 580 ٹن سیب کی پیداوار ہے اور اس میں بعض اقسام ایسی ہیں جو بیرون ملک بھیجی جاتی ہیں ۔ اس علاقے سے 2490 ٹن آلوچہ پیدا ہوتا ہے جبکہ آڑو اور انار کی پیداوار بھی نمایاں رہتی ہے۔

ضلعی افسرزارعت ڈاکٹر محمد انور کے مطابق نقصان تو بڑے پیمانے پر ہوا ہے لیکن اب تک اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے سروے کیے جائیں گے اور اس کے بعد معلوم ہو سکے گا کہ کل کتنا نقصان ہوا ہے۔

جنوبی وزیرستان میں ایک بڑے رقبے پر گندم اور مکئی کی پیداوار بھی کی جاتی ہے۔ محکمہ زراعت کے حکام کے مطابق جنوبی وزیرستان میں 9680 ٹن گندم اور 6451 ٹن مکئی کی پیدوار سالانہ ہوتی ہے۔

ڈاکٹر انور کے مطابق سیب کی فصل تیاری کے قریب تھی اور اس میں سے کچھ اب گر چکے ہیں اور کچھ درخت پر ہی خراب ہو گئے ہیں۔ اسی طرح آلوچے اور آڑو کی فصل تیار تھی اور یہ مارکیٹ میں جا رہی لیکن اب وہ بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے
مرے ہوئے پرندے

،تصویر کا ذریعہSHAZADAIN

،تصویر کا کیپشنصرف پھل اور سبزیاں ہی تباہ نہیں ہوئیں بلکہ وہاں پرندے بھی مر گئے اور ان کے گھونسلے بھی تباہ ہوگئے

اتوار کا دن جنوبی وزیرستان میں ایک طرح سے سوگ کا دن تھا

مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

مقامی یونین کونسل کے چیئر مین عابد پختون نے بتایا کہ ان کی زمین کوئی 42 کنال ہے اور اس پر باغ ہے جو تقریبا سارا خراب ہوگیا ہے۔

’اتوار کا دن جنوبی وزیرستان میں ایک طرح سے سوگ کا دن تھا، بازار میں لوگ نکلے اور نا ہی کوئی تجارتی سرگرمی ہوئی۔ سب لوگ باغات میں جا کر اپنے اپنے نقصان کا اندازہ لگاتے رہے اور باقی لوگ ان کے غم میں شریک رہے۔‘

اگر وانا سے انگور اڈا کے جانب جائیں تو یہ سیدھا کوئی 50 کلومیٹر کا راستہ ہے اور اس میں سارے باغات ہی ہیں اور ان علاقوں میں ژالہ باری بھی زیادہ ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی ژالہ باری انھوں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی اور یہ نقصان کوئی ایک گھر یا ایک خاندان کا نہیں ہے بلکہ اس علاقے میں ہر گھر اور ہر خاندان کا انحصار انھیں باغات اور زراعت پر ہے۔

نورولی مقامی سوشل ورکر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سب ڈویژن وانا میں ابھی نقصان کا سروے کیا جائے گا لیکن ابتدائی طور پر ایسا لگتا ہے کہ جیسے سارے باغات اور فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور یہاں ایسے باغات ہیں جو 50 لاکھ روپے تک فروخت ہوتے ہیں۔

وزیرستان کے قریب آباد میدانی علاقے جیسے ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان گرم مرطوب علاقے ہیں اور ان کا زیادہ انحصار وزیرستان پر رہتا ہے جہاں آلو، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کی پیدوار نمایاں رہتی ہے۔