’نور جہاں‘: کراچی چڑیا گھر کی علیل ہتھنی چل بسی

نور جہاں
،تصویر کا کیپشننورجہاں جمعرات کی صبح سیمنٹ سے بنے ہوئے پانی کے تالاب میں پھسل کر گر گئی تھی جس کو چڑیا گھر انتظامیہ نے کرین کی مدد سے باہر نکالا گیا
  • مصنف, ریاض سہیل اور محمد زبیر خان
  • عہدہ, بی بی سی اردو، صحافی

کراچی چڑیا گھر کی علیل ہتھنی ’نور جہاں‘ 17 سال کی عمر میں ہلاک ہو گئی ہے۔ چڑیا گھر کے ایڈمسنٹریٹر سیف الرحمان کے مطابق نور جہاں نے سنیچر کی صبح تقریباً دس بجے آخری سانس لی۔

نورجہاں عرصہ دراز سے علیل تھیں تاہم 13 اپریل کو چڑیا گھر کے تالاب میں گِرنے کے بعد سے وہ اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکیں تھیں۔ سیف الرحمان کے مطابق ہتھنی کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا تاکہ اس کو لاحق امراض کے بارے میں پتا چلایا جا سکے۔

جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’فور پاز‘ نے نورجہاں کی ہلاکت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہتھنی کو تالاب میں گرنے کے کئی گھنٹے بعد کرین کی مدد سے باہر نکالا گیا تھا جس کے بعد وہ کھڑی نہیں ہو سکی اور گذشتہ نو روز اس نے اپنا آخری وقت زمین پر لیٹ کر گزارا جو ہاتھیوں کے لیے جان لیوا صورتحال ہوتی ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ کراچی کے چڑیا گھر میں باقی بچ جانے والے ہاتھی، مدھوبالا، کو جلد از جلد موزوں مقام پر منتقل کیا جائے۔

فور پاز کے ڈاکٹر عامر خلیل کہتے ہیں کہ ’کسی ہاتھی کا صرف 17 سال کی عمر میں مر جانا افسوسناک ہے۔کراچی چڑیا گھر بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتا اور ہاتھیوں کی مناسب دیکھ بھال کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔‘

تالاب سے نکالنے جانے کے بعد سے ہتھنی کو یورین پاس (پیشاب) کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔

یاد رہے کہ گذشتہ دنوں فور پاز کے ماہرین نے ہتھنی کے جسم کے اندر خون کا لوتھڑا بننے کی تشخیص کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے اس کے گردوں سمیت دیگر اعضا پر دباؤ پڑ رہا ہے۔

مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

کراچی میونسپل کارپوریشن کی درخواست پر فور پاز کے ماہرین نے گذشتہ ہفتے نور جہاں کا طبی معائنہ کیا تھا اور اس کے ایکسرے اور خون کے نمونے حاصل کیے تھے، یہ مشاہدہ تقریباً دو گھنٹے سے زیادہ وقت جاری رہا جس سے قبل نور جہاں کو بیہوش کیا گیا تھا۔

افریقی نسل کی 17 سالہ نور جہاں گذشتہ چند ماہ سے بیمار تھیں اور پچھلی ٹانگوں پر سوجن کی وجہ اسے نقل و حرکت میں دشواری کا سامنا تھا۔ ماہرین نے تصدیق کی تھی کہ نور جہاں کو کوئی فریکچر نہیں ہوا ہے۔

فور پاز کے ماہر ڈاکٹر فرینک گورٹز نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھوں نے ایکسرے کی مدد سے دیکھا کہ نور جہاں کے جسم میں خون کا ایک لوتھڑا بن گیا ہے جس کی وجہ سے اندرونی اعضا پر دباؤ پڑ رہا ہے۔ ’اس کی آنت پیلوس میں آ گئی ہے جو وہاں نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کو پیٹ میں ہونا چاہیے تھا۔‘

’جو پیٹ کے اعضا ہیں وہ پیلوس کی طرف دباؤ ڈال رہے ہیں جس نے مثانے اور بچہ دانی میں کھچاؤ ڈال دیا تھا جو گردے اور مثانے کے درمیان تعلق بناتا ہے جس کی وجہ سے وہ تکلیف میں ہے۔‘

سندھ ہائیکورٹ کے احکامات پر فور پاز کے ماہرین اس سے پہلے بھی کراچی آئے تھے اور نور جہاں اور ایک دوسری ہتھنی ’مدہو بالا‘ کا علاج کیا تھا۔ نور جہاں کا جہاں علاج کیا جا رہا تھا ساتھ میں ایک بڑے آہنی پنجرے میں مدہو بالا موجود تھی جس کے چاروں پیروں میں زنجیریں موجود تھیں۔

نور جہاں
،تصویر کا کیپشنتالاب میں گرنے کے بعد نور جہاں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے قاصر تھی

فور پاز تنظیم کے ٹیم لیڈر ڈاکٹر عامر خلیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ نور جہاں مزید 20 سے 30 سال جی سکتی ہے لیکن اس سے پہلے ہمیں کچھ اقدامات کرنا ہوں گے، اسے ادویات کی فراہمی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ انتظامی تبدیلی اور جسمانی دیکھ بال کی ضرورت ہے، ہاتھیوں کو زنجیر میں نہ باندھا جائے تاکہ وہ آزادانہ نقل و حرکت کرسکیں جبکہ اس کے مساج کی ضرورت ہے۔

’ہم نے گذشتہ مرتبہ بھی سفارش کی تھی کہ دونوں ہاتھیوں کو یہاں سے منتقل کیا جائے۔ یہاں اچھی صورتحال نہیں کہ ہاتھیوں کو رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے حکام نے اس کو تسلیم کیا ہے اور انھیں سفاری پارک منتقل کیا جا رہا ہے۔‘

واضح رہے کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں موجود ہاتھی ’کاون‘ کے بیرون ملک بحالی مرکز منتقل کرنے کے بعد اس وقت پاکستان میں صرف چار ہاتھی باقی ہیں اور یہ چاروں افریقی نسل کے ہاتھی کراچی میں موجود ہیں۔ ان کی عمریں چاروں 17 سے 18 سال کے درمیان ہیں تاہم جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ان چاروں کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف الرحمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ نور جہاں کو سفاری پارک منتقل کیا جا رہا ہے وہاں مطلوبہ سہولیات اس وقت موجود تو نہیں تاہم وہاں انتظامات کیے جائیں گے۔

انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ موجودہ صورتحال میں فنڈز ناکافی ہیں اور نے فنڈز میں سالانہ ڈیڑھ کروڑ روپے کے اضافے کی سمری بھیجی گئی ہے۔

اندرونی اور بیرونی تکلیف میں مبتلا نور جہاں کی زندگی خطرے میں تھی۔ فور پاز کے ماہر ڈاکٹر فرینک گورٹز نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نور جہاں کے زندہ بچنے کے کتنے امکانات ہیں لیکن وہ پر امید تھے کہ اس کو بچایا جا سکتا تھا۔

ہاتھی

،تصویر کا ذریعہ@sajjadkmc

ہاتھی

،تصویر کا ذریعہ@sajjadkmc

،تصویر کا کیپشننور جہاں اور مدھو بالا

ہاتھیوں کے ساتھ ’ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے‘

نور جہاں اور ان کے ساتھ موجود مدھو بالا کی کچھ عرصہ قبل دانتوں کی سرجری بھی ہوئی تھی۔ یہ سرجری فور پاز کے ماہرین حیوانات نے کی تھی۔

اس سرجری کے حوالے سے ماہرہ عمر نے بتایا تھا کہ فور پاز کے ماہرین پاکستان آئے اور انھوں نے نور جہاں اور مدھو بالا کا معائنہ کیا تھا تو اس میں انکشاف ہوا کہ ان کے دانتوں میں شدید قسم کا انفیکشن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہاتھیوں کا دانتوں کا نظام آنکھوں سے شروع ہو کر دماغ تک جاتا ہے اور اگر اس میں انفیکشن بڑھ جائے تو وہ خطرے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس موقع پر دونوں کے منھ میں باقاعدہ کیمرے ڈال کر معائنہ کیا گیا اور پھر فوری طور پر ان کی سرجری ہوئی تھی۔ جس کے نتیجے میں یہ توقع پیدا ہوئی کہ اب ان کی زندگیوں کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔

فور پاز کے ہاتھیوں کے ماہر میتھیاس اوٹو نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ چڑیا گھر میں موجود نور جہاں کی صحت بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ چڑیا گھر میں موجود ہاتھیوں کو فوری طور پر مناسب علاج اور ماحول کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’چڑیا گھر میں رکھے گئے ہاتھیوں کی نگرانی پر مامور عملہ بھی ہاتھیوں کی دیکھ بھال کے لیے مناسب تربیت یافتہ نہیں ہے۔ ہم نے جب ان کی نگرانی پر مامور ایک عملے سے ہاتھیوں کی صورتحال کے بارے میں بات کی تو اس نے جواب میں کہا کہ قید میں رکھے گئے جانوروں کے لیے یہ صورتحال عام ہے۔‘

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ’ہاتھیوں کو دانتوں سے لے کر پاؤں تک شدید قسم کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ ہاتھی اپنے جسم کو پوری طرح حرکت نہیں دے پا رہے ہیں۔ ہاتھی ظالمانہ سلوک کا شکار ہیں اور ان کو فوری توجہ اور مدد کی ضرورت ہے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’برائے مہربانی تحقیقات کریں اور ایکشن لیں۔ اب دنیا میں ظالمانہ رویہ قابل قبول نہیں ہے۔‘

ان ہاتھیوں کو کیسے پاکستان لایا گیا؟

ہاتھی

،تصویر کا ذریعہKarachi Zoo

ماہرہ عمر بتاتی ہیں کہ ان ہاتھیوں کو 2009 میں افریقہ کے ملک تنزانیہ سے 40 ملین روپے کے عوض پاکستان لایا گیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جب ان کو پاکستان لایا جا رہا تھا تو اس وقت پاکستان اور پوری دنیا میں کہا گیا تھا کہ ایسا ظلم نہ کریں مگر پھر یہ قدم اٹھایا گیا۔‘

ماہرہ عمر بتاتی ہیں کہ ان چاروں کو ان کی قدرتی آماجگاہ سے پکڑ کر پاکستان لایا گیا تھا۔ اس وقت پوری دنیا میں یہ سوال بھی اٹھا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کی موجودگی میں کس طرح ان کو پاکستان درآمد کیا گیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ہاتھی ایک سوشل جانور ہے۔ مادہ ہاتھی جو کہ آپس میں قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں جب کہ نر ہاتھی اپنی آماجگاہ یا ٹھکانہ بدل لیتا ہے۔ اب ان کو ایک ہی مقام سے لایا گیا ہے۔

ماہرہ عمر کا کہنا تھا کہ ان چاروں کو نہ صرف یہ کہ ان کی ماؤں سے الگ کیا گیا بلکہ ان کو ان دیگر ساتھی ہاتھیوں سے بھی الگ کیا گیا ہے۔ ان کو جب لایا گیا تھا اس وقت ان کی عمریں دو سے چار سال کی تھیں۔ یہ گذشتہ 12 سے 14سال تک قید میں گزار رہے ہیں۔

’سوچنا اور سمجھنا ہو گا کہ ہاتھی بھی جاندار ہے۔ بے گناہ قید اس پر بھی انتہائی برے اثرات ڈالتی ہے۔ صرف تفریح کے لیے قید میں رکھ کر تکلیف پہنچانا ظلم ہے۔ اب ان کو جنگل میں تو نہیں چھوڑا جاسکتا مگر ان کو کاؤن کی طرح بہتر زندگی فراہم کی جا سکتی ہے۔‘