’میڈ اِن پاکستان‘ ہونے کے دعوے کے باوجود پاکستان میں ہوم اپلائنسز کی دستیابی مشکلات کا شکار کیوں؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, تنویر ملک
- عہدہ, صحافی، کراچی
حمیرا بیگ حال ہی میں جب کراچی کی الیکٹرانکس مارکیٹ میں اپنے شوہر کے ساتھ گھر کے لیے نیا فریج خریدنے کے کے پہنچیں تو ان کی نظرین ایک مخصوص کمپنی کے خاص سائز کے فریج کو تلاش کر رہی تھیں۔ حمیرا نے جب اس کمپنی کے فریج کے بارے میں دکاندار سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اُن کا مطلوبہ فریج فی الحال الیکٹرانکس مارکیٹ میں شارٹ ہے اور اُن کی دکان پر دستیاب نہیں ہے۔
حمیرا کے مطابق انھیں نئے فریج کی ضرورت اس لیے تھی کیونکہ اُن کے گھر میں چلنے والا فریج پرانا ہو چکا تھا اور بار بار کی مرمت کے باعث اس کی کارکردگی کافی خراب ہو چکی تھی۔
کراچی میں گذشتہ دنوں سے درجہ حرارت میں اضافے کے بعد گرمی کی شدت میں اضافہ ہو ا ہے اور حمیرا گرمی کی شدت مزید بڑھنے اور مارکیٹ میں فریج کی قیمتیں بڑھنے سے پہلے گھر کے لیے فریج خریدنا چاہتی تھیں۔
حمیرا بتاتی ہیں کہ اس کے بعد وہ صدر کے علاقے میں واقع اور کئی دکانوں میں بھی گئیں مگر انھیں اپنا مطلوبہ فریج نہیں مل سکا۔ کراچی میں صدر کے علاقے میں ملک کی الیکٹرانکس کی بڑی مارکیٹ واقع ہے۔
حمیرا کے مطابق اب وہ ریسرچ کر رہی ہیں کہ انھیں اپنے مطلوبہ فریج جیسی خصوصیات اور کس کمپنی کے فریج میں مل سکتی ہیں تاکہ وہ اسے گرمی مزید بڑھنے سے پہلے خرید سکیں۔
دوسری جانب کراچی کی الیکٹرانکس مارکیٹ میں ہوم اپلائنسز کی دکان کے مالک شجاعت اللہ اس وقت حمیرا بیگ سے بھی زیادہ فکر مند ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شجاعت کی دکان سے ہر روز بہت سارے گاہک صرف اس لیے خالی ہاتھ واپس جاتے ہیں کیونکہ ان کی مطلوبہ ہوم اپلائنسز مارکیٹ میں شارٹ ہیں اور دستیاب نہیں ہو پا رہیں۔
شجاعت اللہ کے مطابق ’اس وقت حالات بہت گھمبیر ہیں۔ اول تو ہوم اپلائنسز جیسا کہ فریج، فریزر، اے سی، مائیکرو ویو اون، واشنگ مشین وغیرہ کی سپلائی نہیں ہو رہی تو دوسری جانب ان کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ہوم اپلائنسز کی قیمتوں میں گذشتہ چار سے پانچ مہینوں کے دوران 40 سے 70 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
شجاعت کے مطابق اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ ماضی قریب میں پیکج کی صورت میں تین، چار ہوم اپلائنسز رعایتی نرخوں میں ڈیڑھ لاکھ روپے تک میں خرید لیتے تھے اب اول تو انھیں پیکج میں مصنوعات مل نہیں پا رہیں اور اگر مل بھی جائے تو وہی پیکج جو ڈیڑھ لاکھ تک میں مل جاتا تھا وہ اب ڈھائی لاکھ روپے سے زائد میں ملتا ہے۔ شجاعت کے مطابق یہ پیکج عموماً شادی کے لیے بطور جہیز خریدے جاتے ہیں۔
حمیرا بیگ اور شجاعت اللہ پاکستان میں اس وقت ایسے صارفین اور دکانداروں میں شامل ہیں جو ہوم اپلائنسز کی عدم دستیابی اور ان کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
الیکٹرانکس کی مصنوعات بنانے والی معروف کمپنی ہائیر کے سربراہ جاوید آفریدی نے گذشتہ دنوں ٹوئٹر پر آگاہ کیا کہ درآمدی پابندیاں اور معاشی عدم استحکام بڑھ رہا ہے جس کے باعث بدقسمتی سے طلب اور رسد کے درمیان توازن خطرے میں ہے۔
’اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پابندیوں کی وجہ سے کچھ گھریلو الیکٹرانکس کی مصنوعات کی محدود فراہمی کے باعث صارفین کے لیے اپنی ضرورت کی چیزوں کو تلاش کرنا انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔‘
کراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایسشن کے صدر رضوان عرفان کے مطابق اس وقت ہوم اپلائنسز کی فروخت 30 فیصد تک گری ہوئی ہے جس کی وجہ ان کی کم سپلائی کے ساتھ ان کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی بیشتر ہوم اپلائنسز پر ’میڈ ان پاکستان‘ کا لیبل بڑے واضح انداز میں چسپاں ہوتا ہے تو پھر ملک میں اُن کی عدم دستیابی اس وقت ایک مسئلہ کیوں بنی ہوئی ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ اشیا مکمل طور پر ’میڈ اِن پاکستان‘ ہیں تو درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندی، جن میں ایل سیز نہ کھلنا شامل ہے، اِن چیزوں کی پاکستان میں پیداوار اور ان کی مارکیٹ میں فراہمی کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟
کیا مارکیٹ میں دستیاب ہوم اپلائنسز واقعی ’میڈ اِن پاکستان‘ ہیں؟

،تصویر کا ذریعہChoice Electronics
پاکستان میں تیار اور فروخت ہونے والی بیشتر ہوم اپلائنسز جیسا کہ ریفریجریٹر، ڈیپ فریرز، واشنگ مشین، اے سی، ٹی وی، واٹر ڈسپنزر، مائیکرو ویو اون وغیرہ پر اکثر ’میڈ ان پاکستان‘ کا لیبل چسپاں ہوتا ہے جس کا بظاہر یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں مقامی سطح پر پاکستان ہی میں تیار کی گئی ہیں۔
تاہم رضوان عرفان کہتے ہیں کہ بظاہر تو ان پر ’میڈ ان پاکستان‘ کا لیبل ہوتا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر مصنوعات صرف پاکستان میں اسمبل ہوتی ہیں جبکہ ان میں استعمال ہونے والے زیادہ تر پارٹس باہر سے درآمد ہوتے ہیں۔
معیشت کے مختلف شعبوں پر کام کرنےو الے ریسرچ کے ادارے پاکرا (پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ) کی ہوم اپلائنسز کے شعبے پر ریسرچ کے مطابق اس شعبے میں مقامی طور پر تیار ہونے والی چیزوں کی لوکلائزیشن بہت کم ہے اور یہ 25 فیصد سے زیادہ نہیں یعنی صرف 25 فیصد تک پارٹس پاکستان میں تیار ہوتے ہیں اور باقی 75 فیصد پارٹس اور خام مال باہر سے درآمد کیا جاتا ہے۔
پاکرا کی ریسرچر ثانیہ توصیف کے مطابق پاکستان میں ریفریجریٹر کی پیداوار میں لوکلائزیشن 20 سے 25 فیصد ہے یعنی سادہ الفاظ میں اگر کسی ریفریجریٹر یا فریج پر ’میڈ اِن پاکستان‘ لکھا ہے تو درحقیقت اس میں استعمال ہونے والے پارٹس کا فقط 20 سے 25 فیصد ہی پاکستان میں تیار ہوا ہوتا ہے جبکہ باقی پرزے باہر سے درآمد کروائے جاتے ہیں۔
ثنا کے مطابق اسی طرح اے سی کی تیاری میں بھی لوکلائزیشن 20 سے 25 فیصد، ڈیپ فریرز میں پانچ سے دس فیصد، واٹر ڈسپنسرز میں 20 سے 25 فیصد، ایل ای ڈی ٹی وی میں فقط دو سے پانچ فیصد اور واشنگ مشین میں لوکلائزیشن 20 سے 25 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ان کے مطابق پاکستان میں اے سی میں استعمال ہونے والے فین بلیڈرز اور ایویپوریٹرز جبکہ ریفریجریٹر اور ڈیپ فریزرز میں استعمال ہونے والے لگ بھگ تمام اہم پارٹس بیرون ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔
اس ریسرچ کے مطابق ہوم اپلائنسز کے شعبے میں کم لوکلائزیشن اس شعبے کی ایک کمزوری ہے اور ایکسچیینج ریٹ میں ردوبدل اور بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کی وجہ سے اس پر منفی اثر پڑتا ہے۔
پاکستان میں صنعتی شعبے کی ترقی کے لیے کام کرنے والے حکومتی ادارے ’پاکستان انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ‘ کے ترجمان عاصم ایاز نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ہوم اپلائنسز کے شعبے میں مقامی سطح پر ان کے پارٹس کی تیاری یعنی لوکلائزیشن صرف 20 سے 30 فیصد تک ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہوم اپلائنسز ’میڈ ان پاکستان‘ کے باوجود درآمدات پر پابندی سے متاثر کیوں؟
پاکستان میں الیکٹرانکس مصنوعات تیار کرنے والے صنعتی اداروں کی نمائندہ تنظیم ’پاکستان الیکڑانکس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن‘ کے سیکریٹری جنرل تصور حنیف کے مطابق الیکٹرانکس مصنوعات پر لکھا تو ’میڈ ان پاکستان‘ ہوتا ہے مگر چونکہ حقیقت میں 100 فیصد ایسا نہیں کیونکہ ان مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والے پارٹس یا تو باہر سے درآمد ہوتے ہیں یا پھر ان کی پاکستان میں تیاری کے لیے خام مال باہر سے منگوایا جاتا ہے، اسی لیے جب درآمدات میں مشکلات ہوں گی تو ’میڈ اِن پاکستان‘ ہونے کے دعوے کے باوجود مسائل پیش آئیں گے۔
انھوں نے اس سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اے سی، فریج اور فریزرز میں سب سے اہم پرزہ کمپریسر ہوتا ہے جو باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ پاکستان میں تیار نہیں ہوتا۔ اسی طرح کچھ دوسرے ضروری پارٹس بھی باہر سے منگوانے پڑتے ہیں۔
تصور حنیف نے ہوم اپلائنسز کی سپلائی میں کمی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس شعبے میں پیداوار کا سب سے بڑا مسئلہ ہوم اپلائنسز کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال اور پارٹس کی کمی ہے جو پاکستان میں درآمدات کی ایل سیز کھولنے میں مشکلات کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔
ان کے مطابق سب سے پہلی رکاوٹ اپریل 2022 میں آئی جب درآمدات پر سٹیٹ بینک کی جانب سے کیش مارجن بڑھانے کا سرکلر آیا۔
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سال دسمبر تک سٹیٹ بینک کی جانب سے کوٹہ فکس کیے جانے کے بعد ہوم اپلائنسز کے شعبے کے لیے کچھ ایل سیز کھلتی رہیں جس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ پراڈکشن جاری رہی اور مارکیٹ میں ان کی فراہمی یقینی بنائی گئی تاہم موجودہ سال کے پہلے مہینے یعنی جنوری 2023 میں یہ کوٹہ بھی ختم کر دیا گیا کیونکہ ہوم اپلائنسز کی تیاری میں درکار پارٹس اور خام مال ایل سیز کھولنے کی ترجیحی لسٹ میں شامل نہیں اور اب تک یہ صورتحال برقرار ہے۔
تصور حنیف کے مطابق اس صورتحال کے باعث ہوم اپلائنسز کی پیداوار 70 سے 80 فیصد تک گِر گئی اور جو تھوڑی بہت پیداوار جاری ہے وہ کمپنیوں کے سٹاک میں موجود پارٹس اور خام مال کی وجہ سے ممکن ہو رہی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان گھریلو مصنوعات کی مکمل لوکلائزیشن کیوں نہیں کر پا رہا؟
اس شعبے سے منسلک ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہوم اپلائنسز انڈسٹری میں کم لوکلائزیشن کی بنیادی وجہ تکنیکی اور مالیاتی مسائل رہے ہیں جن میں ٹیکنالوجی اور مالیاتی طور پر ان کا پاکستان میں قابل عمل نہ ہونا ہے۔
عاصم ایاز نے اس سلسلے میں بتایا کہ کسی انڈسٹری میں لوکلا ئزیشن کے لیے بڑے حجم پر فروخت کی ضرورت ہوتی ہے تب ہی لوکلائزیشن مالی طور پر قابل عمل ہو پاتی ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بیشتر مصنوعات میں کمپریسر استعمال ہوتے ہیں مگر ایک کمپریسر کی فیکٹری لگانے کے لیے جو سرمایہ درکار ہے اس کی سرمایہ کار کو منافع سمیت واپسی کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر تیار کیے گئے اس کمپریسر کی لوکل مارکیٹ میں زیادہ کھپت ہو تاکہ یہ منصوبہ یا فیکٹری مالی طور پر اپنے پیر پر کھڑی ہو سکے۔
انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی معاشی اور انڈسٹری کی صورتحال اور سرمایہ کاروں کو درپیش مسائل کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان میں ابھی کمپریسر بنانا اتنا قابل عمل کاروبار کیوں نہیں۔
’اس کام میں مسائل بہت ہیں کہ کوئی کمپریسر بنانے کی ٹیکنالوجی کو باہر سے پاکستان لائے، اس کی فیکٹری لگائے اور پھر منافع کما سکے۔ اس لیے ہوم اپلائنسز کے زیادہ تر پارٹس کو باہر سے درآمد کرنا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا یہی صورتحال دوسرے اہم پارٹس کے حوالے سے بھی ہے جو باہر سے منگوائے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب تصویر حنیف نے بھی اس بات کی نشاندہی کی کہ کمپریسر کے علاوہ دوسرے پارٹس اور ہوم اپلائنسز کی باڈی بنانے میں استعمال ہونے والا خام مال بھی پاکستان میں نہیں بنتا اس لیے اسے باہر سے منگوانا مجبوری ہے۔
ثانیہ توصیف کے مطابق پاکستان میں فی الحال اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں، جس کی بنیاد پر اس سلسلے میں کوئی چیک اینڈ بیلنس رکھا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ ہوم اپلائنسز کے شعبے میں حکومتی سطح پر کوئی ایسی گائید لائنز نہیں کہ اس شعبے میں لوکلائزیشن کو ایک خاص عرصے میں حاصل کیا جائے، جس طرح کہ آٹو سیکٹر میں بہرحال کچھ ٹائم لائنز ہیں کہ اتنے برسوں میں اتنی لوکلائزیشن کرنی ہے۔
ثانیہ کے مطابق ہوم اپلائنسز کے شعبے میں پاکستان میں ’اسمبلنگ‘ ہوتی ہے نا کہ ’مینوفیکچرنگ‘۔
اس سلسلے میں حکومتی ادارے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے ترجمان عاصم ایاز نے کم لوکلائزیشن کے باوجود ’میڈ ان پاکستان‘ لکھے جانے پر تبصرہ کرنے کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح مارکیٹ کا سائز بڑھ رہا ہے بہت سارے پارٹس میں لوکلائزیشن کی جا سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ مصنوعات پاکستان میں اسمبل ہوتی ہیں تاہم پھر بھی یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ انھیں مکمل بلٹ اپ (سی بی یو) کی صورت میں پاکستان میں درآمد کیا جائے۔