عمران خان کی گرفتاری کی کوشش: پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس میں تصادم، دن بھر زمان پارک کے اطراف کیا ہوتا رہا؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ترہب اصغر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس کے لاہور پہنچنے کی خبریں ذرائع ابلاغ پر چلنے کے باعث منگل کی صبح سے ہی شہر کی مرکزی شاہراہ مال روڈ پر جہاں ایک طرف پولیس کی اضافی نفری تعینات دکھائی دے رہی تھی وہیں عمران خان کے گھر کے باہر بھی کارکن جمع تھے۔
گذشتہ چند ہفتوں سے زمان پارک کے علاقے میں دن کے آغاز سے ہی پی ٹی آئی کارکنان اور میڈیا کے نمائندے پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن آج وہاں صورتحال کچھ مختلف تھی کیونکہ اسلام آباد کی پولیس ٹیم کا لاہور پولیس کے ہمراہ عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک پہنچنے کا امکان تھا۔
بکتر بند گاڑی کی آمد اور احتجاج

،تصویر کا ذریعہGetty Images
منگل کو دن میں سب سے پہلے جب پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی کی زمان پارک پہنچنے کی اطلاع موصول ہوئی تو میں فوراً دفتر سے زمان پارک کے لیے روانہ ہو گئی۔
جب میں موقع پر پہنچی تو اس وقت پی ٹی آئی کارکنان پولیس کی بکتر بند گاڑی کے زمان پارک پہنچنے پر احتجاج کرتے ہوئے نگراں حکومت کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔
اس وقت کارکنان کی بہت بڑی تعداد زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر موجود نہیں تھی۔ تاہم حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے پولیس کی بکتر بند گاڑی سے ایک پولیس اہلکار نے نکل کر کہا کہ یہ گاڑی تو عمران خان کی حفاظت کے لیے آئی ہے۔
جس پر وہاں موجود کارکنان پرسکون ہو گئے۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد ایسی اطلاعات موصول ہوئیں کہ پولیس کی بھاری نفری گورنر ہاؤس کے باہر جمع ہو گئی ہے۔ جس کے بعد مال روڈ اور زمان پارک کے اطراف میں پولیس کی غیر معمولی نقل و حرکت دیکھنے میں آئی۔

،تصویر کا ذریعہTwitter
وارنٹ گرفتاری والا پلے کارڈ اور کارکنوں اور پولیس میں تصادم
منگل کو دن تقریباً ڈیڑھ بجے کے قریب اسلام آباد پولیس کی ٹیم لاہور پولیس کی نفری کے ہمراہ ڈی آئی جی اسلام آباد شہزاد بخاری کی سربراہی میں عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے زمان پارک پہنچی۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
زمان پارک عمران خان کی گرفتاری کے لیے ایک پولیس اہلکار نے اپنے ہاتھ میں وارنٹ گرفتاری کے نوٹس والا پلے کارڈ بھی اٹھا رکھا ہے۔ جیسے ہی پولیس زمان پارک کے قریب پہنچی اور کارکنوں نے احتجاج اور ردعمل دینا شروع کر دیا۔
اگرچہ اس وقت بھی عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں کی بہت زیادہ تعداد نہیں تھی۔
مگر انھوں نے احتجاج کیا اور پولیس کو عمران خان کے گھر کی جانب جانے سے روکنے کی کوشش کی جہاں سے پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان تصادم کا آغاز ہوا۔
اس دوران پولیس کی اضافی نفری کو بھی طلب کر لیا گیا اور زمان پارک کی طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کر دیا گیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک کے باہر موجود پولیس نے پیش قدمی کی تو پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار کارکنوں نے پولیس کو پیچھے کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔
اسی اثنا میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت جن میں پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری، علی زیدی، عندلیب عباس و دیگر قائدین نے میڈیا سے بات کر رہے تھے۔ جبکہ دوسری جانب کچھ فاصلے پر موجود پی ٹی آئی کارکنان نے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔
جس کے جواب میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔ اسی دوران پولیس مظاہرین اور زمان پارک میں موجود مرکزی قیادت کے درمیان اپنی پوزیشن سنبھال چکی تھی۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پولیس پر پتھراؤ، پولیس کا جواب میں آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال
شاہ محمود قریشی میڈیا سے بات چیت ختم کرنے کے بعد عمران خان کی رہائشی گاہ کی طرف جانے والی شاہراہ سے آگے بڑھ کی پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس اہکاروں سے بات کرنے کے لیے ان کی جانب بڑھے تو وہاں موجود کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان دھکم پیل اور مزاحمت شروع ہوئی۔ شاہ محمود قریشی کو بھی وہاں کچھ دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا اور وہ حالات کی سنگینی کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بار پھر عمران خان کی رہائش گاہ کی جانب واپس مڑے۔
میرے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں عمران خان سے بات کرنے اور لائحہ عمل طے کرنے جا رہا ہوں۔‘
جب وہ عمران خان کے مرکزی گیٹ کے سامنے بیرئیر کے قریب پہنچے تو اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی شہزاد کی سربراہی میں وہاں موجود پولیس کے ایک جتھے نے فوری طور پر قوت کا استعمال کرتے ہوئے بیرئیر تک رسائی حاصل کر لی۔
جیسے ہی پولیس عمران خان کی رہائش گاہ کے مرکزی دروازے کے قریب پہنچی تو ان کے گھر سے ملحقہ گلی اور عمران خان کے گھر کے اندر سے ولیس اہلکاروں پر پتھراؤ شروع ہو گیا۔
پی ٹی آئی کے مشتعل ڈنڈا بردار کارکنوں کے پتھراؤ سے ڈی آئی جی اسلام آباد شہزاد بخاری سمیت متعدد پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ جس پر پولیس نے بھی جوابی ایکشن لیا اور کارکنوں پر لاٹھی چارج، واٹر کینن اور آنسو گیس کی شیلنگ کی، کچھ شیل عمران خان کے گھر کے اندر بھی گرے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ سلسلہ تقریباً تین سے چار گھنٹے تک جاری رہا اور پولیس اور کارکنوں کے تصادم میں زمان پارک اور اطراف کے علاقے میدان جنگ بنے رہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مشتعل کارکنوں کے خلاف کارروائی کے دوران بہت سے پولیس اہکاروں کے پاس حفاظتی لباس اور آلات نہیں تھے اور شدید شیلنگ کے باعث جہاں ایک جانب پی ٹی آئی کارکنان کی طبعیت خراب ہو رہی تھی وہیں پولیس اہلکاروں کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا رہا تھا۔
پولیس کی تین سے چار گھنٹوں کی شدید شیلنگ اور واٹر کینن میں کیمیکل ملے پانی کے استعمال سے علاقے میں سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا رہا۔
رینجرز کی طلبی و فضائی نگرانی

،تصویر کا ذریعہGetty Images
شام کے اوقات تقریباً سات بجے صورتحال پر قابو پانے کے لیے رینجرز کو بھی طلب کر لیا گیا جبکہ آپریشن کے دوران زمان پارک کی ہیلی کاپٹر اور ڈرون کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔
تاہم رات نو بجے کے قریب پولیس نے زمان پارک سے پیچھے ہٹنا شروع کیا اور اس دوران کشیدگی میں بھی کچھ کمی آئی۔ البتہ چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر کارکنان نے شہر کے مختلف علاقوں میں سڑکوں اور مرکزی چوراہوں کو بند کرنا شروع کر دیا۔
پولیس کی نفری مال روڈ پر واقع گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف جا چکی تھی اور رات دس بجے کے بعد کارکنوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد زمان پارک پہنچ چکی تھی۔

پی ٹی آئی کارکنوں کی بڑی تعداد میں زمان پارک آمد
جبکہ مال روڈ سے متصل کینال روڈ پر پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں جہاں پولیس آنسو گیس کی شیلنگ کر رہی تھی جبکہ کارکنان پتھراؤ کر رہے تھے اور درختوں کو آگ لگا رہے تھے۔
پولیس کی جانب سے عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے تقریباً دس گھنٹوں سے زائد وقت تک کارروائی جاری رہی تاہم رات 12 بجے میرے واپس آنے تک پولیس کی بھاری نفری کئی گھنٹوں سے زمان پارک کے اطراف میں موجود تھی جہاں اسے بڑی تعداد میں جمع پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔