کراچی حملہ: ’سعید کے بیٹے نے کہا تھا کیک لے کر آنا لیکن اس کی لاش لے کر جا رہا ہوں‘

پولیس حملہ
،تصویر کا کیپشن50 سالہ محمد سعید لفٹ آپریٹر تھے اور ان چار افراد میں شامل ہیں جو گذشتہ شب کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملے میں مارے گئے
  • مصنف, ریاض سہیل
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام
  • مقام کراچی

’محمد سعید کے بیٹے کی آج سالگرہ ہے اس نے کہا تھا کیک لے کر لیکن اس کی لاش لے کر جا رہا ہوں‘ یہ کہنا تھا جاوید کا جن کے بڑے بھائی محمد سعید جمعے کو کراچی پولیس آفس پر دہشتگردوں کے حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

وہ سنیچر کی صبح سے ہی اپنے بڑے بھائی کی لاش لینے کے لیے فلاحی تنظیم چھیپا فاؤنڈیشن کے سرد خانے کے باہر موجود تھے۔

50 سالہ محمد سعید کراچی پولیس آفس میں لفٹ آپریٹر تھے اور ان چار افراد میں شامل ہیں جو گذشتہ شب کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملے میں مارے گئے۔ ہلاک ہونے والے دو پولیس اہلکاروں سمیت تین افراد کی نمازے جنازہ سینٹرل پولیس آفس میں سنیچر کو ادا کی گئی، جس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، آئی جی غلام نبی میمن وہ دیگر حکام نے شرکت کی۔

’بھائی کو کہا فون بند کردو‘

پولیس حملہ
،تصویر کا کیپشنمحمد سعید کے بھائی جاوید کے ہاتھوں میں ایک ایک ہزار روپے کے نوٹ تھے، انھوں نے بتایا کہ ’پولیس ویلفیئر والوں نے پچاس ہزار روپے دیے ہیں لیکن اب میں ان کا کیا کروں‘

کراچی پولیس آفس حملے میں مارے جانے والے آپریٹر سعید احمد کے بھائی جاوید نے بتایا کہ جب انھوں نے ٹی وی پر حملے کی خبر دیکھی تو انھوں نے اپنے بھائی کو فون کیا جو اس وقت زندہ تھے اور انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ والی عمارت پر حملہ ہوا ہے وہ خیریت سے ہیں، انھوں نے بھائی کو مشورہ دیا کہ موبائل فون بند کردو ایسا نہ ہو کہ رنگ بجے اور حملہ آور اس پر حملہ کردیں۔

پولیس اہلکار سعید کے بھائی جاوید کا کہنا ہے کہ ’سعید کے دو چھوٹے بچے ہیں ایک چار سال کا اور ایک 11 برس کا ہے، اس کی آج سالگرہ ہے، بچوں نے کہا تھا کہ پاپا کیک لے کر آئیے گا ہم کیک کاٹیں گے، اب اعلیٰ حکام بتائیں، عدلیہ بتائے وہ کیک کہاں سے کاٹیں گے اب ان بچوں کی سرپرستی کون کرے گا۔‘

جاوید کے ہاتھوں میں ایک ایک ہزار روپے کے نوٹ تھے۔ انھوں نے بتایا کہ پولیس ویلفیئر والوں نے انھیں 50 ہزار روپے دیے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ’اب میں ان کا کیا کروں آپ مجھے سے ایک لاکھ روپے لے لو اور اپنا بندہ مار دو میں آپ کو نوکری بھی دے دوں گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس سے قبل تقریباً 20 سال پہلے ان کے بڑے بھائی شمیم ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے تھے اور ان کے قاتل بھی ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں ایجنسیز سے بالکل بھی مطمئن نہیں۔‘

جاوید کی نظر میں یہ حملہ سکیورٹی کا فقدان ہے کیونکہ اتنے اہم ادارے میں اتنی آسانی سے حملہ آور گھس گئے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ اس وقت ان کے بالا افسران کہاں تھے۔

’ٹی وی پر بھائی کے نام کے ٹکر چلے تو میرے کزن نے کہا کہ جناح ہسپتال جاکر معلوم کریں، میں ان کے دفتر گیا سکیورٹی کا المیہ دیکھیں کہ اتنے بڑے حملے کے بعد میں ہیلمٹ پہن کر دندناتا اندر چلا گیا مجھے کسی نے روکا تک نہیں، پوچھا بھی نہیں۔‘

’بچوں کو ابھی نہیں بتایا‘

پولسی حملہ
،تصویر کا کیپشناجمل کی لاش لینے کے لیے ان کی بھابھی شبانہ مسیح آئی تھیں

کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملے کے دوران خاکروب اجمل سب سے پہلے دہشت گردوں کا نشانہ بنے، اجمل کی لاش لینے کے لیے ان کی بھابھی شبانہ مسیح آئی تھیں جو سرد خانے کے باہر موجود واحد خاتون تھیں۔

غم کی شدت میں نڈھال ان کی بھابھی کی بات کرتے ہوئے آواز بھر آئی، انھوں نے بتایا کہ اجمل ان کا چھوٹا دیوار ہی نہیں بلکہ بیٹوں جیسا تھا وہ گذشتہ پانچ برسوں سے یہاں ملازمت کر رہا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ٹی وی پر پہلے پٹی دیکھی اس کے بعد واٹس گروپس میں اس کی تصویر بھی آگئی، اجمل کا خاندان فیصل آباد میں ہے انھیں ٹیلیفون پر اطلاع کردی ہے۔ اس کی ایک 12 سال کی بیٹی اور تین بیٹے ہیں انھیں ابھی نہیں بتایا صرف اتنا کہا ہے کہ اجمل کو گولی لگی ہے وہ زخمی حالت میں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

YouTube پوسٹ نظرانداز کریں
Google YouTube کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔ YouTube کے مواد میں اشتہارات ہو سکتے ہیں۔

YouTube پوسٹ کا اختتام

کراچی پولیس آفس میں ملازمت کا پہلا دن

کانسٹیبل غلام عباس کا کراچی پولیس آفس میں جمعے کے دن ملازمت کا پہلا دن تھا جہاں وہ دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہو گئے، اس سے قبل وہ کورنگی میں تعینات تھے جہاں سے ان کا تبادلہ ہوا تھا۔

غلام عباس کے کزن نے بی بی سی کو بتایا کہ غلام عباس پہلے فوج میں تھا وہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد 2011 میں پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوا تھا۔ غلام عباس کا تعلق لاڑکانہ سے ہے ان کے چار بچے ہیں جن میں سے ایک بیٹا شادی شدہ جبکہ تین بچے ابھی چھوٹے ہیں۔

اس حملے میں ہلاک ہونے والے رینجرز کے سب انسپیکٹر تیمور کا تعلق ملتان سے تھا۔ رینجرز ترجمان کے مطابق انھیں چہرے پر گولی لگی اور وہ جانبر نہ ہوسکے سات سال قبل وہ رینجرز میں بطور حوالدار بھرتی ہوئے تھے۔

’ایسے لگا جیسے جنگ ہو رہی ہو‘

پولیس حملہ
،تصویر کا کیپشننعمان بلوچ نے حملہ آور کی لاشیں اٹھائیں، وہ بتاتےہیں کہ جب وہ پہنچے تو شدید فائرنگ ہو رہی تھی
مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

کراچی پولیس چیف کے دفتر کے قریب ہی فلاحی ادارے چھیپا فاؤنڈیشن کا دفتر واقع ہے، اس مرکز کے انچارج چوہدری شاہد نے بتایا کہ گذشتہ چند دنوں سے صدر میں فائرنگ اور دھماکوں کی اطلاع تھیں لیکن جب تصدیق کی جاتی تو یہ شادی کی تقریبات ہوتی تھیں۔

جمعے کی شام سات بج کر دس منٹ پر بھی فائرنگ کی آواز آئی اس کے دس منٹ کے بعد اس میں شدت آئی جیسے جنگ ہو رہی ہو۔ وہ گاڑیاں (ایمبولینس) لے کر نکلے تو معلوم ہوا کہ کراچی پولیس چیف کے دفتر پرحملہ ہوا ہے۔

چھیپا فاؤنڈیشن کے رضاکاروں میں نعمان بلوچ نے حملہ آوروں کی لاشیں اٹھائیں، وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ پہنچے تو شدید فائرنگ ہو رہی تھی انھوں نے گاڑیاں تو لگا دی تھیں لیکن یہ سوچ رہے تھے کہ گولی انھیں نہ لگے اس کے بعد رینجرز اہلکار آئے کارروائی کی اس کے بعد اوپر جانے کی اجازت دی گئی۔

’عمارت کے اوپر پہنچے تو حملہ آور الگ الگ موجود تھے انھوں نے بم پہنے ہوئے تھے ہمارے سامنے ان بموں کو کاٹا گیا اس کے بعد ہم نے سٹریچر کے ذریعے لاشوں کو ہسپتال منتقل کیا۔‘

چوہدری شاہد کے مطابق تین حملہ آوروں میں سے ایک نے تیسری منزل پر خودکش جیکٹ سے خود کو اڑایا جبکہ دو کو چھت پر ہلاک کیا گیا تھا۔

ان کے مطابق ان کی عمریں تقریباً 30 سے 35 سال کے درمیان ہوں گی تینوں نے شلوار قمیض پہنے ہوئے تھے ایک کی داڑھی تھی، دو نے جوگرز پہنے تھے اور ایک نے سینڈل پہن رکھے تھے۔ جبکہ ان کے پاس موجود بیگز میں اسلحے کے ساتھ بسکٹ کے پیکٹ موجود تھے۔

پولیس حملہ
،تصویر کا کیپشنپولیس کے مطابق حملہ آور ملازمین کے کواٹرز سے داخل ہوئے ہیں جہاں سے وہ آئے ہیں وہاں سے عام آدمی نہیں آسکتا۔

’ایک مہینے تک ریکی ہوئی‘

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس آفس پر حملے سے قبل حملہ آوروں نے تقریباً 15 روز سے ایک ماہ تک ریکی کی ہے۔

ڈی آئی جی جنوبی عرفان بلوچ کا کہنا ہے کہ ’کے پی او کی سکیورٹی تین شفٹوں میں ہوتی ہے، وہ ملازمین کے کواٹرز سے داخل ہوئے ہیں جہاں سے وہ آئے ہیں وہاں سے عام آدمی نہیں آسکتا۔‘

’حملہ آوروں نے ایک ایک چیز کا جائزہ لیا ہے کس وقت انٹری ہوتی ہے، کس وقت ٹیم اور سکیورٹی ریلیکس ہوتی ہے، جمعے کے دن اندر موجود مسجد کی حفاظت بھی سخت کی جاتی ہے۔ یہ حملہ مغرب کی نماز کے وقت کیا گیا جس وقت کانسٹیبل نماز پڑھتے ہیں اور نفری کم ہوتی ہے۔

عرفان بلوچ کا دعویٰ تھا کہ حملہ آوروں کا ٹارگٹ ایڈیشنل آئی جی کا دفتر تھا جہاں انھوں نے دھماکہ کیا، ان کے پاس جدید اسلحہ تھا ایک خود کش جیکٹ اڑا دی جبکہ باقی دو حملے آور خودکش جیکٹ استعمال کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دہشتگردوں کے پاس بڑی تعداد میں دستی بم بھی موجود تھے جن میں دس سے پندرہ انھوں نے استعمال کیے باقی پولیس نے برآمدکر لیے ہیں۔‘

پولیس نے ایک کار بھی تحویل میں لی ہے۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ کے مطابق اس گاڑی میں سے بھی دو تین نمبر پلیٹس ملی ہیں، جس تحقیقات کی جا رہی ہے۔

یاد رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، کراچی میں آپریشن ضرب عضب کے بعد ٹی ٹی پی کا یہ پہلا بڑا حملہ ہے۔