BBCمیل ان خواتین میں شامل ہیں جو سمجھتی ہیں کہ نیا قانون ان کی زندگی کو بہتر بنائے گا
انتباہ : اس مضمون میں سیکس سے متعلق تفصیلات موجود ہیں اور اصل ناموں کو مخفی رکھا گیا ہے
’جب میں نو ماہ کی حاملہ تھی تو مجھے اس دوران بھی کام کرنا پڑا۔ بچے کی پیدائش سے ایک ہفتے پہلے تک میں اپنے گاہکوں کو سیکس کی خدمات فراہم کر رہی تھی۔‘
یہ الفاظ بیلجیم کی ایک سیکس ورکر کے ہیں۔ صوفی (فرضی نام) پانچ بچوں کی ماں ہیں اور(اس حالت میں) ان کے لیے کام کرنا واقعی مشکل تھا۔
جب صوفی کے ہاں پانچویں بچے کی پیدائش آپریشن (سیزیرین) سے ہوئی تو ڈاکٹرز نے انھیں چھ ہفتے تکآرام کی ہدایت کی تاہم صوفی کے مطابق ان کے پاس کام پر فوری واپس جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
’میں آرام نہیں کر سکتی تھی کیونکہ مجھے پیسوں کی شدید ضرورت تھی۔‘
ان کی زندگی بہت آسان ہوتی اگر انھیں حمل کے دوران کام کی چھٹی (میٹرنیٹی لییو) کا حق ہوتا جس میں انھیں ان کے آجر کے ذریعے ادائیگی کی جاتی۔
تاہم اب بیلجیئم دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا ملک بننے جا رہا ہے جس میں ایک نئے قانون کے تحت سیکس ورکرز کو سرکاری ملازمت کے کنٹریکٹ کی طرز پر بنیادی حقوق حاصل ہوں گے۔
اس قانون کے تحت سیکس ورکرز کو ہیلتھ انشورنس، پینشن، زچگی اور بیماری کے دنوں کی چھٹیاں بھی مل سکیں گی۔
صوفی کا کہنا ہے کہ ’یہ ہمارے لیے ایسا موقع ہے کہ جس میں ہمیں عام لوگوں کی طرح سمجھا جائے گا۔‘
انٹرنیشنل یونین آف سیکس ورکرز کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً پانچ کروڑ 20 لاکھ سے زائد سیکس ورکرز ہیں۔
یاد رہے کہ جہاں ترکی اور پیرو جیسے کئی دوسرے ممالک میں جسم فروشی قانونی طور پر جائز ہے وہیں بیلجیئم میں 2022 تک اس پیشے کو غیر قانونی قرار دیا جاتا رہا تاہم اب سیکس ورکرز کے لیے روزگار کے حقوق اور معاہدوں کے قیام کے لیے عالمی سطح پر سب سے پہلے بیلجیئم نے ہی قانون بنایا۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک محقق ایرن کِلبرائیڈ کہتی ہیں کہ ’یہ اب تک کا سب سے بہترین قدم ہے، جسے ہم نے اب تک دنیا میں کہیں بھی نہیں دیکھا۔ ہر ملک کو اسی سمت میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔‘
(UTSOPIکووڈ 19 کی وبا کے بعد سیکس ورکرز کے لیے لیبر قوانین کی حمایت میں مظاہرے ہوئے
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صنعت سمگلنگ، استحصال اور بدسلوکی کا سبب بھی بنتی ہے جس کو یہ قانون نہیں روک سکے گا۔
جولیا کرومیئر’اسالا‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی رکن ہیں۔ یہ تنظیم بیلجیئم میں سیکس ورکرز کی مدد کرتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ خطرناک ہے کیونکہ یہ ایک ایسے پیشے کو عام کرتا ہے، جس میں ہمیشہ تشدد شامل ہوتا ہے۔‘
میل بھی ایک سیکس ورکر ہیں۔ وہ اس وقت انتہائی خوفزدہ ہو گئیں جب انھیں کنڈوم کے بغیر ایک کلائنٹ کو اوورل سیکس دینے پر مجبور کیا گیا۔
ان کو علم تھا کہ جنسی طور پر منتقل ہونے والا انفیکشن (STI) قحبہ خانے میں موجود ہے تاہم ان کے پاس اس بات کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
’میرے پاس دو راستے تھے۔ میں یا تو پیسہ کماتی یا انفیکشن کا خطرہ مول لیتی۔‘
وہ 23 سال کی تھیں جب انھوں نے یہ کام شروع کیا تھا۔ اس وقت انھیں پیسوں کی شدید ضرورت تھی اور انھوں نے اس کام میں توقعات سے زیادہ تیزی سے کمانا شروع کر دیا۔
انھوں لگا جیسے وہ آسمان کو چھو لیں گی تاہم انفیکشن کا تجربہ انھیں تیزی سے زمین پر واپس لے آیا۔
میل اب ایسے کسی بھی کلائنٹ یا جنسی عمل سے انکار کر سکیں گی جس سے وہ بے آرام محسوس کریں یعنی اب ایسی کسی بھی صورتحال کو وہ مختلف طریقے سے سنبھال سکیں گی۔
’اگر مجھے قانونی تحفظ حاصل ہوتا تو میں اپنی میڈم (آجر) کو آرام سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ آپ ان شرائط کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور آپ کو میرے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کرنا چاہیے۔‘
ہیروں سے مالامال ملک جہاں ہزاروں خواتین ’سیکس ورکر‘ بننے پر مجبور ہیںسہمے ہوئے ’سیکس ورکرز‘ کی روداد: ’میرے آنے سے پہلے وہ نشہ کر رہا تھا، مجھے لگا اب بچنا ناممکن ہے‘’ہم فلم میں پورن کو الگ انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے جس میں خواتین مظلوم نہ لگیں‘دنیا کا پہلا ’سائبر قحبہ خانہ‘ اور اے آئی سیکس ڈول: مصنوعی ذہانت اور پورن انڈسٹری کا ملاپ جس نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیںBBCوکٹوریہ سنہ 2022 میں بیلجیئم یونین آف سیکس ورکرز (UTSOPI) کی صدر تھیں
بیلجیئم کا فیصلہ سنہ 2022 میں ہونے والے ان مظاہروں کا نتیجہ ہے جو کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران سیکس ورکرز کے لیے ریاستی تعاون کی کمی کے ننتیجے میں ہوئے تھے۔
ان مظاہروں میں پیش پیش افراد میں سے ایک وکٹوریہ بھی تھیں جو بیلجیئم یونین آف سیکس ورکرز (UTSOPI) کی صدر تھیں اور 12 سال سے زیادہ اس پیشے سے منسلک رہی تھیں۔
ان کے لیے یہ ذاتی جنگ تھی۔ وکٹوریہ جسم فروشی کو ایک سماجی خدمت کے طور پر دیکھتی ہیں اور اس میں سیکس کا کردار صرف 10 فیصد ہے۔
’اس پیشےمیں لوگوں کی کہانیاں سنی جا رہی ہیں، ان کے ساتھ وقت گزارا جا رہا ہے، خوشی کے لمحات بِتائے جا رہے ہیں، بالآخر یہ سب تنہائی کے بارے میں ہے.‘
لیکن 2022 سے پہلے ان کی ملازمت کے غیر قانونی ہونے نے انھیں اہم چیلنجز کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے غیر محفوظ حالات میں کام کیا، اپنے کلائنٹس اور اپنی ایجنسی کی جانب سے آمدن میں بڑ ی کٹوتی پر وہ کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی تھیں۔
وکٹوریہ کہتی ہیں کہ درحقیقت انھیں ایک کلائنٹ نے ریپ کا نشانہ بنا ڈالا جس پر ان کا جنون سوار تھا۔
وہ ایک پولیس سٹیشن گئیں جہاں ان کے مطابق پولیس افسر بہت سختی سے پیش آئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھے احساس دلایا کہ یہ میری غلطی ہے کیونکہ میں یہ کام کرتی ہوں۔‘
وکٹوریہ پولیس افسر کی بات سن کر روتی ہوئی پولیس سٹیشن سے باہر نکل گئیں۔
ہر سیکس ورکر جس سے ہم نے بات کی، اس نے تصدیق کی کہ ان پر ان کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے کے لیے کسی نہ کسی وقت دباؤ ضرور ڈالا گیا۔
اسی وجہ سے وکٹوریہ کو کامل یقین ہے کہ یہ نیا قانون ان کی زندگیوں کو بہتر بنائے گا۔
’اگر کوئی قانون نہیں اور آپ کا کام غیر قانونی ہے، تو آپ کی مدد کے لیے کوئی پروٹوکول موجود نہیں۔ یہ قانون لوگوں سے ہمیں محفوظ بنانے کے لیے ذریعہ فراہم کرتا ہے۔‘
BBCکرس اور ان کی اہلیہ الیگزینڈرا ایک مساج پارلر چلاتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ یہ سیکس ورکرز کے ساتھ بہترین سلوک برتتے ہیں
نئے قانون کے تحت سیکس کے پیشے کو کنٹرول کرنے والے دلالوں کو قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت ہو گی لیکن ان کو سخت قوانین پر عمل درآمد بھی کرنا پڑے گا۔
سنگین جرم کا مرتکب کوئی بھی شخص سیکس ورکرز کو ملازمت دینے کا اہل نہیں ہو گا۔
کرس ریک مینز اور ان کی اہلیہ الیگزینڈرا چھوٹے سے قصبے بیکیوورٹ میں ایک مساج پارلر چلاتے ہیں۔
جب ہم وہاں گئے تو ہمیں وہ مساج پارلر مکمل بھرا ہوا نظر آیا حالانہ ہم پیر کی صبح کے لیے یہ توقع نہیں کر رہے تھے۔ ہمیں مساج بیڈ، تازہ تولیے اور لباس، گرم ٹب سے آراستہ کمرے دکھائے گئے جبکہ ایک سوئمنگ پول بھی موجود تھا۔
کرس اور ان کی اہلیہ نے 15 سیکس ورکرز کو ملازمت دی ہوئی ہے اور وہ ان کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آنے، ان کی حفاظت کرنے اور انھیں اچھی تنخواہ دینےکا دعویٰ کرتے ہیں۔
انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’امید ہے کہ اس کام میں موجود برے آجروں کا کاروبار بند ہو جائے گا جبکہ اس پیشے کو ایمانداری سے کرنے کے خواہشمند اچھے لوگ ہی اس میں رہ پائیں گے اور یہ ہی بہتر ہے۔‘
ہیومن رائٹس واچ سے تعلق رکھنے والی ایرن کِلبرائیڈ بھی اسی طرح کی سوچ رکھتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آجروں پر پابندیاں لگانے سے متعلق نیا قانون ’سیکس ورکرز پر ان کی طاقت کو نمایاں طور پر ختم کر دے گا۔‘
BBC
لیکن جولیا کرومیئر کا کہنا ہے کہ جن خواتین کی وہ مدد کرتی ہیں ان کی اکثریت حقوق کی بجائے صرف اس پیشے کو چھوڑنے اور کوئی اور کام‘ حاصل کرنے میں مدد چاہتی ہیں۔
بیلجیئم کے نئے قانون کے تحت ہر اس کمرے میں الارم ہونا لازمی ہے جہاں جنسی خدمات انجام دی جاتی ہیں۔ یہ الارم ایک سیکس ورکر کو ان کے ’ریفرنس پرسن‘ سے جوڑے رکھے گا۔
تاہم جولیا کا خیال ہے کہ اس پیشےکو محفوظ بنانے کا کوئی طریقہ نہیں۔
’آپ کو کس اور کام میں ایمرجنسی بٹن کی ضرورت ہو گی؟ یہ دنیا کا قدیم ترین پیشہ نہیں، یہ دنیا کا قدیم ترین استحصال ہے۔‘
جنسی صنعت کو کیسے منظم کیا جائے عالمی سطح پر اس کے لیے منقسم رائے ہے لیکن میل کہتی ہیں کہ اس موضوع کو اندھیرے سے باہر لانے سے ہی خواتین کی مدد ہو سکتی ہے۔
’مجھے بہت فخر ہے کہ بیلجیئم بہت آگے ہے اور اب میرا بھی ایک مستقبل ہے۔‘
سہمے ہوئے ’سیکس ورکرز‘ کی روداد: ’میرے آنے سے پہلے وہ نشہ کر رہا تھا، مجھے لگا اب بچنا ناممکن ہے‘پریسیلا ہنری: جسم فروشی کی سلطنت چلانے والی خاتون جس نے ’غلامی کی زنجیر توڑ کر‘ اپنے مالک کی جائیداد خریدیوہ پرکشش ماڈل جس نے ’روحانی طاقت‘ سے مداحوں کو غلامی اور جسم فروشی پر مجبور کیاسیکس ورکر جس نے بحری قزاقوں کی سربراہ بن کر کئی سلطنتوں کی نیندیں اڑائیںدنیا کا پہلا ’سائبر قحبہ خانہ‘ اور اے آئی سیکس ڈول: مصنوعی ذہانت اور پورن انڈسٹری کا ملاپ جس نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں